Wednesday, September 12, 2018

یہ رہا سندھ کی مثالی حکمرانی کا ماڈل



سندھ کابینہ میں چار مزید وزراء کا اضافہ ہو گیا ہے۔ ان میں ریٹائرڈسینئر بیوروکریٹ امتیاز شیخ، ناصر حسین شاہ، مکیش چاولہ اور فدا ڈیرو شامل ہیں۔’ مکیش چاولہکا تعلق جیکب آباد سے ہے ۔ ان کے پاس گزشتہ نو سال تک ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن کا قلمدان ہی رہا ہے۔ ان کی ہمشیرہ رتنا چاولہ سینیٹ کی رکن رہی ہیں۔پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن کرپشن کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں اور قید ہیں۔ 
سندھ کے کاشتکاروں کو گنے کی رقم نہ ادا ہونے کاسپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا اور کاشتکاروں کو رقم ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور بقایاجات ادا نہ کرنے والی شگر ملز کے خلاف مقدمہ داخل کرنے کے لئے کین کمشنر سندھ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس ضمن میں کاشتکاروں کو مقدمہ دائر کرنے کے لئے اتھارٹی دیں۔ لیکن کین کمشنر نے کاشت کاروں کو مقدمہ درج کرانے کے لئے اتھارٹی لیٹر دینے سے انکار کردیا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ضیاء الدین ہسپتال میں ان کے کمرے پرچھاپہ مار کر مبنیہ طور پر شراب برآمد کی ۔ لیکن لیبارٹری ٹیسٹ اور قیدی کے خون سے شراب کے اجزاء کی علامات نہیں ملی۔ یہ معاملہ بھی میڈیا اور عوامی حلقوں میں زیر بحث ہے۔
’ ’لال بتی حیدرآباد نے لوگوں کا مرنا بھی مشکل کردیا ‘‘ کے عنوان سے ’’ روز نامہ کاوش‘‘ اداریئے میں لکھتا ہے تکالیف، کمزوریوں اور بے بسی میں گھرے ہوئے غریب لوگوں کا سندھ میں جینا مشکل ہی ہے، لیکن اب تو موت نے بھی مسائل پیدا کرنا شروع کردیئے ہیں۔ وہ لوگ جو زندگی سے تنگ آکر اس امید پر اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں کہ انہیں مسائل سے نجات مل جائے گی، سندھ میں مرنے کے بعد بھی مسائل ان کی جان نہیں چھوڑتے۔ حکمرانوں کے دعوؤں اور لوگوں کے مسائل کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ ثابت کرتی ہے کہ کہنے کے لئے ملک میں جمہوری حکومت ہے مگر دراصل یہخاص لوگوں کی حکومت ہے۔ اس حکومت کا عام لوگوں سے لینا دینا نہیں۔ بھلا ایسی حکومت کیسے عوامی کہلائے گی؟ جو لوگ اپنے پیاروں کو کسی ایمرجنسی میں دیہی علاقوں میں ہسپتال لے جاتے ہیں، جہاں انہیں دلجوئی کے بجائے مزید تکلیف کے ساتھ مایوسی ملتی ہے۔ صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کا سول ہسپتال عرف عام ’’ لال بتی‘‘ میں تقریبا سندھ بھر سے ایمرجنسی کیسز آتے ہیں۔ اس ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے لئے اگر لیڈی ایل ایم او موجود نہ ہونے کی وجہ سے کسی عورت کی لاش حیدرآباد سے کوٹری گیارہ گھنٹے تک التی رہے، اس سے بڑھ کر حکمرانوں اور افسران کی بی حسی کیا ہوگی؟ یہصرف ایک دن کی بات نہیں اور نہ ہی صرف ایک خبر ہے۔ سندھ بھر سے روزانہ سرکاری ہسپتالوں سے ایسی خبریں آتی ہیں, جو دکھ کی کہانی نہیں بلکہ داستان ہیں۔ دکھ کی یہ داستانیں تاحال حاکم وقت کے دل کو جھنجھوڑ نہیں سکی ہیں۔ نسیم نگر حیدرآباد تھانہ کی حد میں گوٹھ دریا خان چانڈیو کی اٹھارہ سالہ عائشہ پراسرار حالات میں دریا میں ڈوب کر فوت ہو گئی۔ پولیس کیس ہونے کی وجہ سے اس کی لاش گیارہ گھنٹے تک حیدرآباد اور کوٹری لائی جاتی رہی۔ لیکن لیڈی ایل ایم او نہ ہونے کی وجہ سے اس کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا جاسکا۔ لال بتی کی ایل ایم او چھٹی پر تھی، کوٹری کی میڈیکو لیگل افسر ڈیوٹی پر موجود نہیں تھی۔ یہ ہے سندھ کی مثالی حکمرانی کا ماڈل ، جس کے تجربے سے سندھ کے لوگ روزانہ گزرتے ہیں۔ حکمرانوں کو اس خراب حکمرانی کا نہ احساس ہے، نہ ہی وہ عوام کی بات ماننے اور سننے کو تیار ہیں کہ سندھ میں مسائل خراب حکمرانی کی وجہ سے ہیں۔
سرکاری ہسپتالوں میں ایم ایس اور دیگر انتظامی عہدوں پر سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے ڈاکٹر تعینات ہیں۔ ان سے محکمہ کا سیکریٹری یا ڈائریکٹر تو چھوڑیئے وزیر بھی پوچھ نہیں سکتا۔ اگر نچلی سطح پر دیکھا جائے، ڈاکٹر بھی اتنی ر سائی والے ہیں کہ ان سے نہ شفٹ انچارج اور میڈیکل سپرنٹینڈنٹ پوچھنے کا حق رکھتا ہے۔ بدانتظامی سندھ میں اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ انتظام اتنا خراب ہو چکا ہے کہ اب اکثر لوگ اس کی بہتری سے ناامید ہوچکے ہیں۔ جو لوگ بحالت مجبوری سرکاری ہسپتال جاتے ہیں، ان سے ہسپتال کے ڈاکٹر اور عملہ ایسا سلوک کرتا ہے کہ وہ مرض کی تکلیف بھول جاتے ہیں۔اور انہیں ڈاکٹروں اور عملہ کا ناروا سلوک ہی یاد رہتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں سے ایک سرنج سے لیکر معمولی ٹیسٹ اور ایکسرے تک اتنا دوڑایا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں بھی سرکاری ہسپتال آنے کی جرأت ہی نہیں کرتے۔ سندھ کے سرکاری ہسپتال کسی طور پر بھی ایسے نہیں کہ لوگ اعتماد کے ساتھ علاج کرانے کے لئے آئیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں زیادہ تر وہ لوگ آتے ہیں جو نجی ہسپتالوں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمارے صوبے کے سرکاری ہسپتال اس طبقے کے لئے ہیں جس کی آواز اور چیخ پکار کوئی نہییں سنتا۔
سندھ میں محکمہ صحت کا قلمدان اچھی شہرت رکھنے والی خاتون کے پاس ہے۔ اگر وہ چاہیں تو اپنے دور میں اس بیمار محکمہ میں کچھ نہ کچھ بہتری ضرور لا سکتی ہیں۔اس ضمن میں اولین شرط پوچھنے کی ہے۔
’’ حکمرانوں کی لاتعلقی کا شکار روڈ حادثوں کے متاثرین ‘‘کے عنوان سے روز نامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ جامشورو سے سہون تک انڈس ہائی وے اب موت کا گھاٹ بن چکا ہے۔ آئے دن کوئی ایسا حادثہ ہوتا ہے جس میں درجنوں جانیں ضایع ہو جاتی ہیں۔ اب تک پیش آنے والے واقعات میں ایک ہی خاندان کے دس سے دو تک افراد اجل کا شکار ہو چکے ہیں۔ باقی واقعات میں بھی سینکڑوں انسانی جانیں جا چکی ہیں۔ جمعہ کے روز تھرمل پاور کے پاس پیش آنے والے حادثے میں ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد جاں بحق ہو گئے۔ ان میں سات افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ ایک زخمی نے ہسپتال میں دم توڑ دیا۔ تین زخمی ابھی تک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ایسے واقعات اب معمول بن چکے ہیں۔ لیکن حکمران ذرا بھی توہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ سندھ حکومت ترقی کے بڑے بڑے دعوے کرتی رہتی ہے لیکن ابھی تک انڈس ہائی وے کو ڈبل روڈ نہیں کر سکی ہے۔ جبکہ انڈس ہائی وے پر پیش آنے والے واقعات کی وجہ اس روڈ کا سنگل ہونا ہے۔ یہ حکمرانوں کی غفلت ہے یا لاپروائی کہ شاہراہ کا وہ حصہ جو سینکڑوں انسانی جانیں نگل چکا ہے وہاں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ہم کیسے مانیں کہ لوگ حادثات کا شکار ہو رہے ہیں؟ دراصل یہ لوگ تو حکمرانوں کی غفلت، لاپروائی اور عوام سے لاتعلقی کا شکار ہو رہے ہیں۔ حادثات میں جاں بحق ہونے والے لوگوں کی موت کے اصل ذمہ دار حکمران ہی ہیں، جو روڈ کی تعمیر نہیں کرسکے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ حکمرانوں کے نزدیک عوام کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اگر واقعی کوئی معنی رکھتی تو کیا لوگ یوں مرتے رہتے اور حکومت خاموش رہتی؟


http://bathak.com/daily-nai-baat-newspapers/column-sohail-saangi-sep-8-2018-178524 


Sunday, September 2, 2018

سندھ کے مسائل: حل کس کے پاس ہے؟




روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ سید مراد علی شاہ نے دوسری مرتبہ حلف اٹھا کر سندھ کے 29 ویں وزیراعلیٰ کے منصب کا سنبھال لیا ہے۔ 2008 ء کے بعد یہ تیسرا موقع ہے کہ پیپلزپارٹی صوبے میں اقتدار میں آئی ہے۔ حلف اٹھانے کے بعد سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ میں پانی، صحت پینے کے پانی کی فراہمی سمیت لوگوں کی عام ضروریات پوری کرنا ان کی حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ہونگی۔ اگرچہ سندھ کی حکمران جماعت کے نوجوان سربراہ بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ صوبے کے باسیوں کے معاشی اورسماجی حالات سے اچھی طرح واقف ہیں ، وہ یہ بھی جانتے ہونگے کہ پیپلزپارٹی سے عوام کی ضروریات اور توقعات بھی زیادہ ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پیپلزپارٹی پہلے سے زیادہ ووٹ نہیں لیتی۔ سندھ کے لوگوں نے مسلسل تیسری بار اس پارٹی کو مینڈیٹ دیا ہے۔ لیکن یہاں کے مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کو مقامی سطح پر مسائل حل کرنے ساتھ ساتھ وفاق سے اپنے حصے کا پانی، این ایف سی ایوارڈ، اور وفاقی ترقیاتی فنڈ حاصل کرنے سمیت بڑے چیلنجز ہیں۔ اس مرتبہ بھی سید مراد علی شاہ نے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سندھ کے حقوق اور پانی کی غیرمنصفانہ تقسیم کی بات کی ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔
المیہ یہ ہے کہ عوام کے نام پر ووٹ لئے جاتے ہیں لیکن آج تک جن نمائندوں کو منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجا گیا ان میں اکثر نے عوامی مسائل حلکرنے کے بجائے اپنے ذاتی مفادات حاصل کئے یا اقربا پروری کی اور مختلف مراعات حاصل کیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے شہروں اور دیہی علاقوں خاص طور پر تھر جیسے دوردراز مقامات پر غربت ، بھوک، بدحالی اور بیروزگاری نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔نہ صرف اتنا بلکہ پینے کے صاف پانی، بجلی، گیس، صحت، معیاری تعلیم، سڑکوں اور ڈرینیج کی سہولیات سے محروم ہیں۔ سندھ میں ٹرانسپورٹ کا بھی سستا اور بہتر نظام نظر نہیں آتا۔ نئی سندھ کابینہ کو ان اہم مسائل پر توجہ دینی ہوگی۔
اگر وسائل کی بات کی جائے، کراچی سے لیکر کشمور تک صوبہ تیل، گیس اور کوئلے کے ذخائر سے مالامال ہے۔ حال ہی میں کراچی میں بھی تیل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔افسوس کہ سندھ کا سینہ چیر کر جو وسائل حاصل کئے جاتے ہیں ان میں سے مقامی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ آج بھی اگر صوبے میں موجود کارخانوں اور فیکٹریوں کا سروے کرایا جائے تو پتہ چلے گا کہ بالائی سطح سے لیکر نچلی سطح تک ملازمتوں میں دوسرے صوبوں کے لوگ ملیں گے۔ ان صنعتوں میں سندھ کے لوگ ہونگے تو بہت ہی کم تعداد میں، اور وہ بھی اینٹیں اٹھاتے ہوئے ملیں گے۔ اس ناانصافی پر سندھ کے حکمرانوں کی پراسرار خاموشی معنی خیز ہے، جیسے وہ بھی اس ناانصافی میں شریک جرم ہوں۔ اس معاشی ناانصافی کو روکنے کے لئے اقدامات کرنے پڑیں گے اور اس امر کو یقینی بنانا پڑے گا کہ جو جہاں کا ہے اسکو وہاں پر ہی روزگار مہیا کیا جائے۔ ایسا کرنے سے سندھ سے معاشی بوجھ کم ہوگا اور سندھ کے لوگوں کے لئے روزگارکے مواقع بھی بڑھیں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس مرتبہ پیپلزپارٹی ایسی حکمت عملی بنائے گی اور ایسے فیصلے کرے گی جس سے سندھ کو خوشحالی ملے گی۔ وفاق میں تحریک انصاف نئے پاکستان کے نعرے پر اقتدار میںآئی ہے۔ لیکن نعرہ تب حقیقت کا روپ لے گا جب عوام سے کئے گئے وعدے ایفا ہوں گے۔ عوام کو حقوق ملیں گے۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ کی آٹھ رکنی کابینہ نے حلف اٹھالیا ہے جبکہ دو مشیر بھی مقرر کئے گئے ہیں۔ عید کے بعد دس مزید وزراء، تین مشیر اور آٹھ خصوصی معاون لئے جائیں گے۔ اخبار لکھتا ہے کہ سندھ کابینہ میں شمولیت کے معاملے پر پارٹی کے اندر اختلافات سامنے آئے۔ بعض رہنما ناراض ہوگئے۔ پارٹی قیادت پر مختلف بااثر افراد کے دباؤ کی وجہ سے کابینہ کے اراکین کے ناموں کا اعلان وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے بجائے بلاول بھٹو زرداری نے کیا۔ سید خورشید احمد شاہ اور منظور وسان اپنے دامادوں اور نثار کھوڑو اپنی بیٹی اور اعجاز جکھرانی اپنے چچازاد کے لئے وزارت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سندھ حکومت نے نئی بھرتیوں کے لئے مختلف محکموں میں خالی اسامیوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ صوبائی حکومت نے ایک لاکھ ملازمتیں دینے کے لئے ہوم ورک شروع کر دیا ہے۔ سیکرٹریز کمیٹی کے نام سے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔ ابھی تک جمع کی گئی معلوماتکے مطابق محکمہ داخلہ میں 42 ہزار، محکمہ تعلیم میں 26ہزار، محکمہ محنت میں 1665، لائیو اسٹاک میں 1975، پاپولیشن میں 1100 سمیت مختلف محکموں میں اسامیاں خالی ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ محکمہ تعلیم کے آئی ٹی شعبہ میں ویب ایڈمن آفیسر نے لین دین کر کے بھرتیوں اور تبادلوں کے جعلی نوٹیفکیشن جاری کئے ہیں اور ویب سائیٹ پر اپلوڈ کئے۔ یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ ویب ایڈمن کئی ماہ سے اساتذہ کی بحالی، تنخواہیں بند کرنے اور کھولنے کے جعلی نوٹیفیکشن اپلوڈ کرتے رہے۔ معاملے کی تحقیقات کے لئے ڈپٹی سیکریٹری کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
روز نامہ سندھ ایکسپریس نئے پاکستان میں سندھ کے لئے کیا ہے کے عنوان سے کالم میں لکھتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے انداز گفتگو اور تقاریر کے مواد سے لگتا ہے کہ وہ اپنے پرانے موقف پر ہی قائم ہیں۔ ہم ان سے سوال کرنا چاہیں گے کہ جس پرانے پاکستان کو وہ نیا بنا رہے ہیں اس میں سندھ کےکتنے کھلاڑی شامل ہیں؟ کیا عمران خان بھی مشرف کی طرح یہی سمجھتے ہیں کہ سندھیوں میں صلاحیت نہیں؟ عمران خان کو اپنی ٹیم کو اس حوالے سے بھی دیکھنا چاہئے۔ ویسے منطقی امر یہ ہے کہ افراد کے بجائے کام کو دیکھا جائے۔ ہم جب کسی دکان سے خریداری کرتے ہیں تو دکاندار کو نہیں بلکہ چیز کو دیکھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سندھ کے لوگوں کو بھی نتائج پر نظر رکھنی چاہئے۔ لیکن دنیا صرف نتائج پر نہیں چلتی۔ نتائج کے ساتھ ساتھ طریقہ کار اور فیصلہ سازی ہو، فیصلوں پر عمل درآمد میں شمولیت و شرکت بھی اتنی ہی اہم ہوتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ نئے پاکستان کے مشن میں سندھ کے لوگوں کو بھی کوئی رول دینا چاہئے۔ عمران خان سندھ مین آکر پیپلزپارٹی کو للکارتا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ کیونکہ پاکستان میں اقتدار کا فیصلہ پنجاب کو ہی کرنا ہے۔ لہٰذا عمران خان جان بوجھ کر سندھ نہیں آئے۔ ان کے سندھ نہ آنے اور ان کی پارٹی سندھ میں مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کے علاوہ سندھ میں کسی مقام پر تحریک انصاف حالیہ انتخابات میں نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ اب پیپلزپارٹی سندھ کے حوالے کیوں ہے؟ اس کا بہتر 
جواب عمران خان ہی دے سکتے ہیں۔ 
https://www.naibaat.pk/24-Aug-2018/15984
http://www.awaztoday.pk/singlecolumn/62488/Sohail-Sangi/Sindh-Ke-Masail-Hal-Kis-Ke-Pass-Hai.aspx