Friday, September 30, 2016

مادری زبانوں کو جائز حق اور مقام دینے کی ضرورت ۔ سندھ نامہ



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
مادری زبانوں کو جائز حق اور مقام دینے کی ضرورت



سندھ نامہ سہیل سانگی 


اضلاع کے ڈپٹی کمشنر، بنگالی بابا، عطائی ڈاکٹرز اور مردانہ بیماریوں کے اشتہارات

روزنامہ عوامی آواز ’’اضلاع کے ڈپٹی کمشنر، بنگالی بابا عطائی ڈاکٹرز اور مردانہ بیماریوں کے اشتہارات‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ صوبائی وزیر صحت سکندرو مندھرو نے جمعرات کے روز سندھ اسمبلی میں اعتراف کیا ہے کہ صوبے میں غیر قانونی ہسپتالیں چل رہی ہیں۔ ان غیر قانونی ہسپتالوں کے خاتمے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ جہاں بھی عطائی ڈاکٹرز ہوں عوام ان کی نشاندہی کرے۔ صوبائی وزیر صحت نے محکمہ صحت میں موجود لاتعداد خرابیوں میں سے ایک خرابی خرابی کو بیان کیا ہے ۔ یقیننا یہ خرابی نہایت ہی اہم ہے۔ وزیرصھت کی یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ عوام عطائی ڈاکٹروں کی نشاندہی کریں اور حکومت سے تعاون کریں۔ 


جس طرح سے عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے لئے تاریخ پر تاریخ دے کر شنوائی بھگتائی جاتی رہی ہیں اور برسوں تک یہ سلسلہ چلتے رھنے کے بعد عوام مجبور ہو کر جراگہ کرنے والے وڈیروں کی طرف رجوع کرنے لگے۔ جہاں زیادہ سے زیادہ ایک سال کے اندر معاملہ کو نمٹا کر جزا اور سزا کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ بلکل اس طرح سندھ خواہ ملک کے دیگر صوبوں میں صحت کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اصل اکٹر کے بجائے لوگوں نے عطائی ڈاکٹر کی طرف رخ کیا۔ نقلی ادویات جو اصلی ڈاکٹروں کی پرچی پر ملتی ہیں وہی ادویات نقلی ڈاکٹر کی پرچی پر بھی مل جاتی ہیں۔ 

عوام اس طرح کی بیگانگی کے حکومتی رویے کے بعد خود کو ’’ اوجھڑی کیمپ ‘‘ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ پھر ان کے جسم عطائی ڈاکٹروں کے حوالے ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی اور موت کے فیصؒ ے بغیر ڈگری کے ہوتے ہیں ۔ 


وزیر صحت جو خود بھی پوسٹ کریجوئیٹ ڈاکٹر ہیں ایک عرصے تک بدین خواہ بیرون ملک مریضوں کی شفا کے لے کوشاں رہے ہیں۔ ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ تمام اضلاع میں ڈپٹی کمشنر کا تقرر اس مثبت نتائج کی بنیاد پر کی جائیں کہ صوبے کے تیس اضلاع میں ایک ہی دن میں ان عطائی ڈاکٹروں کو قابو کیا جائے۔ ۔ ایسا کرنے سے سندھ کو ایک بہت بڑے عذاب سے نجات مل جائے گی۔ عطائی ڈاکٹروں کے لئے سزائیں کیا ہیں؟ ان سے سماج کو کتنا ڈر ہے؟ وہ سب سامنے رکھے جائیں س۔ کیونکہ جب تک ان سزاؤں کے بارے میں آگہی پیدا نہ کی جائے گی۔ 

صوبے میں’’ مردانہ اور زنانہ کمزوریوں‘‘ کے اشتہارات سے لیکر بنگالی بابا کے ٹوٹکوں تک کے اشتہارات سے جان نہیں چھوٹتی، تب تک یہ کروبار یونہی چلتا رہے گا۔ صوبے کے ہر شہر میں دیواروں پر ان نیم حکیم خطرہ جا کے اشتہاروں پر پابندی بھی عائد کی جائے۔ 



مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کی ضرورت 

روزنامہ کاوش ’’مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ سمبلی نے متحدہ کی مخالفت کے باوجود سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کی قراردادبل منظور کر لیا۔ فنکشنل لیگ کے ایم پی اے نند کمار کے پیش کردہ قرارداد متحدہ قومی موومنٹ کے سرادر احمد نے اعتراض کیا اور کہا کہ پاکستان صرف ایک ہی زبان کا ملک ہونا چاہئے۔ حکمران جماعت کے بعض اراکین نے ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کی طرف سے انہیں بولنے کا موقعہ نہ دینے کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ 


سندھی زبان کو بقا کے حوالے سے خطرات درپیش ہیں ۔ سرکاری شعبے کے اسکولوں میں سندھی زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن سرکاری اسکولوں کی تعلیم تباہ ہے۔ نجی اسکولوں میں سندھی پڑھانے اور سکھانے پر غیر اعلانیہ بندش ہے۔ اس صورتحال میں جب نئی نسل جوان ہوگی تو وہ سندھ زبان لکھنے اور پڑھنے سے بے بہرہ ہوگی۔ اس ضمن میں مختلف حکمران نمائشی ا علانات سے آگے نہیں بڑھ پائے ہیں۔ یہاں تک کہ قانون موجود ہونے کے باوجود نویں اور گیارہویں جماعت کے غیر سندھی طلبہ کو سندھی کی لازمی تدریس یقینی نہیں بنا سکے ہیں۔لسنای طور پر احساس کمتری کا شکار ہونے کی وجہ سے سندھ کے منتخب ایوان میں تقاریر اور کارروائی بھی سندھی میں نہیں ہوتی۔ صوبائی بجٹ بھی سندھی میں پیش کرنا عیب سمجھا جاتا ہے۔ 

ہم ہمیشہ اس رائے کے رہے ہیں کہ پاکستان کی تمام مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جانا چاہئے۔ لیکن ایک بالادست ذہنیت ہمیشہ اس راہ میں رکاوٹ رہی ہے۔ یہی ذہنیت مشرقی پاکستان سے بنگلادیش تک کے سفر کا باعث بنی۔ قیام پاکستان کے ٹھیک ایک ماہ بعد پندرہ ستمبر 1947 کو ’’ مجلس تمدن‘‘ کے مطالبے کے بعد بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دینے کی تحریک شروع ہوئی۔ کیونکہ بنگالی عوام کا خیال تھا کہ ان کی زبان ملکی آبادی کے نصف سے زیادہ کی زبان ہے۔ اس تحریک کو 1952 میں ڈھاکہ یونیور سٹی کے طلباء نے اپنی جانیوں کا نذرانہ دے کر تقویت بخشی۔ یہ تحریک اردو کو ملک کی واحد قومی زبان قرار دینے کے کے اعلان کے ردعمل میں چلی تھی۔


1954 میں یہ تحریک کامیاب ہوئی اور بنگالی کو اردو کے ساتھ ساتھ قومی زبان قرار دیا گیا۔ یوں پاکستان کا یک زبان ملک ہونے کا مفروضہ بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ اب سندھی سمیت تمام مادری زبانوں کے ساتھ وہی روش رکھی جا رہی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ بھارت میں سندھ کو قومی زبان کی حثیت ھاصل ہے۔ لیکن اپنی دھرتی پر یہ زبان اپنی حیثیت سے محروم ہے۔ 


برطانوی دور میں 29 اگست 1857 میں سندھی کو سندھ کی واحد سرکاری زبان کا فرمان جاری کیا تھا۔ بعد میں اپنے ہی حکمرانوں نے سندھی زبان سے اس کی یہ حیثیت چھین لی۔ 


پاکستان کثیر زبان ریاست ہے۔ یہاں پر مادری زبانوں کو ان کے جائز حق سے محروم کرنا ملکی استحکام اور یکجہتی سے کھیلنے کے برابر ہے۔ ہمارے حکمران ماضی سے سبق لینے کے لئے تیار نہیں۔

آج پیپلزپارٹی بھی سندھ کو قومی زبان قرار دینے کی باتیں کر رہی ہے لیکن یہ سب کچھ نمائشی ہے جب مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، اور اٹھارہویں ترمیم منظور کی جارہی تھی ، کیا اس وقت یہ معاملہ آئینی طور رپ حل نہیں کیا جاسکتا تھا؟ اگر تب تمام مادری زبانوں کو قومی زبان تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا جاتا تو یہ مسئلہ ہی حل ہو جاتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی تمام مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ سندھ میں نجی اسکولوں میں سندھی کی تدریس پر غیر اعلانیہ پابندی ختم کی جائے ۔ سندھ نہ پڑھانے والے نجی ا سکولوں کی رجسٹریشن ختم کی جانی چاہئے۔ کم از کم یہ کام تو سندھ حکومت کر سکتی ہے۔ 




ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن: وزراء اور اسمبلی ممبران حساب دیں

روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے جو شکایات عوام کرتے رہے ہیں اس کے ثبوت ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ امن و مان سے لیکر انفرا اسٹرکچر تک 



جو تباہ حالی ہے اس کی ذمہ داری پیپلزپارٹی پر ہی آتی ہے۔ ترقیاتی کاموں میں جو کرپشن کی گئی اور اس کے ذریعہ نئے ریکارڈ قائم کئے گئے۔ اسکی تازہ مثال سکھر میوزیم ہے۔ جس کے نام پر کروڑہا روپے خرچ کئے گئے لیکن سرزمین پر میوزیم موجود ہی نہیں۔ 


حال ہی میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے شکوہ کیا کہ ریکارڈ میں دکھایا گیا ہے کہ سکھر میں اربوں روپے خرچ کئے گئے ہیں لیکن سرزمین پر کوئی ترقی اور ترقیاتی منصوبہ موجود ہی نہیں۔ 

وزیر اعلی کو چاہئے کہ ترقیاتی منصوبوں میں جو کرپشن ہوئی ہے اس کا حساب وہاپنے وزراء اور اسمبلی ممبران سے ہی لیں۔ کیونکہ یہ کام انہی کی نرانی میں ہوئے ہیں۔ 




روزنامہ نئی بات ۔ یکم اکتوبر

Key words: مراد علی شاہ, سکھر میوزیم، سکھر میں ترقیاتی کام، پیپلزپارٹی، سندھی زبان، مادری زبانوں کا سوال، بنگالی زبان، نجی اسکولوں میں سندھی کی تعلیم، بنگالی بابا، عطائی ڈاکٹرز، مردانہ کمزوری کے اشتہارات

urducolumnsonline
http://www.urducolumnsonline.com/suhail-sangi-columns/239770/gaer-qanooni-hospitalon-kay-khatmay-kay-leye-iqdamaat 

Nai Baat
http://naibaat.com.pk/ePaper/lahore/01-10-2016/details.aspx?id=p13_03.jpg

Monday, September 26, 2016

اندرون سندھ کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ ۔ سندھ نامہ ۔



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi


اندرون سندھ کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ 

سندھ نامہ سہیل سانگی
’’روزنامہ عبرت ‘‘لکھتا ہے کہ سندھ کابینہ نے کالعدم تنظیموں کے کارکنوں اور کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کلین اپ کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ صوفیوں کی دھرتی ہے۔ یہاں کے لوگوں نے ہمیشہ انتہا پسندی کو رد کیا ہے۔ لیکن اب صورتحال کچھ تبدیل ہو گئی ہے۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں مذہبی جماعتوں کے اثر کے بڑھنے، بغیر قانون سازی اور رجسٹریشن کے مدارس کی تعداد میں اضافہ، بلوچستان سے دہشتگردوں کی آمد، غربت اور جہالت دہشتگردی کے اہم وجوہات کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس لئے مجرموں اور ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 



کابینہ نے مدارس کی رجسٹریشن، اور امن و امان سے متعلق مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر شکارپور کے واقعہ اور بلوچستان سے دہشتگردوں کی سندھ آمد پر تفصیلی غورکیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ سندھ کے کچے میں مختلف گروہ سرگرم ہونے کے ساتھ کالعدم تنظیموں کے افراد کے سہولت کار بھی موجود ہیں۔ لہٰذا سکھر اور لاڑکانہ ڈویزن کے کچے میں رینجرزاور پولیس کی مدد سے آپریشن کلین اپ کیا جائے گا۔ 


دہشتگرد کئی مرتبہ شکارپور کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ گزشتہ سال جنوری میں جمع نماز کے دوران باہر سے آنے والے دہشتگرد بمبار نے دھماکہ کرنے بھاری جانی نقصان پہنچایا۔ عیدالایضحیٰ کے موقعہ پر خانپور میں کچھ دہشتگرد اس طرح کی کارروائی کرنا چاہتے تھے۔ خوش قسمتی سے دہشتگردوں کو ان کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ اس طرح کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ وزیرستان، کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے بعد انہوں نے اپنی پناہ گاہیں تبدیل کردی ہیں۔ ان کو بعض جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہوگی۔ کیونکہ دہشتگرد اور تخریب کار اس کے بغیر اپنا کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں بنا سکتے۔ 
یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ظہیر انور جمالی نے حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی توجہ منبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ بعض جماعتیں اپنے مفادات کے لئے تخریب کاروں کی حمایت کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے تخریبکاروں کے ساتھ روابط ہیں۔ جس کا فوری تدارک کیا جانا چاہئے۔ ان کا ماننا تھا کہ پاکستان میں دہشتگردی میں غیر ملکی ہاتھ ہونے کے ساتھ اس کو اندرونی مدد اور حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔ حکومت کو چیف جسٹس کے ان ریمارکس کو نظر میں رکھتے ہوئے ایسے علاقوں میں بھی کارروائی کرنی پڑے گی جہاں دہشتگردوں کے سہولتکار موجود ہیں۔ 



حکومت مدارس کی رجسٹریشن کے لئے قانونسازی بھی کی جارہی ہے۔ جس کے تحت رجسٹریشن کا اختیار محکمہ داخلا اور مذہبی امور کو دیا جائے گا۔ جبکہ نئے مدرسے کی تعمیر کے لئے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ڈپٹی کمشنر کی این اور سی ضروری ہوگی۔ 


کابینہ نے اچھے فیصلے کئے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی طرح ان کو پائپ لائن میں ڈال کر چھوڑنے کے بجائے ان پر فوری عمل کیا جائے۔ کیونکہ شکارپور، کشمور اور گھوٹکی اضلاع کے کچے میں بدنام ڈاکوؤں کے گروہ اغوا، تاوان اور دیگر سنگین جرائم میں سرگرم ہیں۔ ممکن ہے کہ یہی گروہ دہشتگردوں کے سہولتکار بنتے ہوں۔ شمالی سندھ میں قبائلی جھگڑوں نے بھی امن وامان کی صورتحال کو خاصا خراب کیا ہوا ہے۔ جس کا شرپسند بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لہیٰذا دہشتگردوں، سہولتکاروں اور اغوا برائے تاوان میں ملوث ملزمان کے خلاف بھرپور کارروائی کی ضرورت ہے۔ 


کرپشن کے خلاف غیر معمولی اقدامات کی ضرورت
روزنامہ کاوش’’ گورننس اور اداروں کی کارکردگی‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ گورننس اداروں کی مجموعی کارکردگی کا نام ہے۔ ہمارے ملک میں ادارے جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس کا اندازہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے مختلف اوقات میں دیئے جانے والے ریمارکس اور فیصلوں سے ہوتا ہے۔ نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس ظہیر انور جمالی نے یاد دلایا ہے کہ آئین میں تمام داروں کے فرائض اور ذمہ داریوں کی وضاحت موجود ہے۔ اگر تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں تو گڈ گورننس کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اور تماما دارے اگر اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں تو کرپشن اور بدامنی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ 



ترتیب اور تنظیم متوازن طریقے کے لئے ضروری ہے۔ یہیراستہ ترقی اور بقا کی طرف جاتا ہے۔ جبکہ انتشار اور بے ترتیبی فنا اور تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ اصول سماج خواہ حکومت پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔ 


عوام کو بہتر حکمرانی سے ہی کچھ دیا جاسکتا ہے۔ یہ تب ممکن ہے جب ادارے آئین میں متعین فرائض اور ذمہ داریوں کے مطابق فعال ہوں۔ جب ادارے اس تعلق سے خود کو دور کر دیتے ہیں تو ملک اداروں کا قبرستان بن جاتا ہے۔ دراصل ملکی آئین اور قانون سے بے خوفی کی وجہ سے کرپشن نے اداروں کو اپاہج بنا دیا ہے۔اب کرپشن کا خاتمہ رواجی اقدامات سے ممکن نظر نہیں رہا۔ حالت یہ ہے جو ادارے انسداد کرپشن کے لئے قائم کئے گئے تھے وہ ادارے بھی کرپشن کا شکار ہیں۔ اس صورتحال میں عوام کی مدد کان کرے گا؟ عوام جب انصاف کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو عدالتی فیصلوں پر بھی عمل نہیں ہوتا۔ اور یہ جواز دیا جاتا ہے کہ اداروں کے کام میں مداخلت کی جارہی ہے۔ 
کرپشن وہ بیماری ہے جس کے خلاف ہر دور کی حکومتیں واویلا کرتی رہی ہیں۔ لیکن اس کے لئے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں لی گئی۔ ملک میں
مسلسل کرپشن کا موسم چھایا ہوا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سرطان سے نجات کے لئے معمولی اقدامات کے بجائے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ 



سندھ مہمان پرندوں کی پناہ گاہ نہیں شکارگاہ
روزنامہ سندھ ایکسپریس سندھ کو شکار گاہ ہونے سے بچایا جائے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ موسم سرما کی چند ہفتوں بعد آمد ہے ۔ جب سائبیریا سے مہمان پرندے یہاں کا رخ رکنے والے ہیں۔ ان پرندوں کا شکار کرنے کے لئے ابھی سے شکاریوں نے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ سندھ بھر میں کارتوسوں کی فروخت میں اضافہ کی اطلاعات ہیں۔ ان مہان پرندوں کا شکار صرف مقامی لوگ ہی نہیں کرتے بلکہ خلیج اور عرب ممالک کے دولتمند بھی یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ ان غیر ملکی شکاریوں کے کیمپ لگانے کے انتظامات کئے جارہے ہیں۔ اب سندھ پرندوں اور نایاب جانوروں کی پناہ گاہ نہیں بلکہ شکارگاہ بن گیا ہے۔ سندھ کے پرانے پروفائل تبدیل کرنے میں حکومت کے ساتھ ساتھ بعض بااثر مقامی لوگوں کا بھی ہاتھ ہے۔ محکمہ وائلڈ لائیف جس کی ذمہ داری ان پرندوں اور اجنوروں کا تحفظ ہے، اس محکمہ کا عملہ خود ان شکاریوں کی مدد کرتا نظر آتا ہے۔ 
حکومت سندھ سے درخواست ہے کہ وہ اس ضمن میں موثر اور عملی اقدامات کرے اور سندھ کو وائلڈ الئیف  
کی شکارگاہ نہیں بلکہ پناہ گاہ بنائے۔

روزنامہ نئی بات 23 ستمبر 

Friday, September 16, 2016

شکارپور میں خود کش بمبار کون لا رہا ہے ۔ سندھ نامہ ۔

شکارپور میں خود کش بمبار کون لا رہا ہے

سندھ نامہ سہیل سانگی 
’’شکارپور میں خود کش بمبار کون لا رہا ہے ‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ کاوش ‘‘ لکھتا ہے کہ 2013 میں حاجن شاہ پر حملے سے کچھ عرصہ پہلے شکارپور میں اس طرح کے حملوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس سلسلے میں عید کے روز خانپور میں رونما ہونے والے واقعہ اضافہ رکدیا ہے۔ شکارپور میں محرم الحرام میں دہشتگردی کی کارروایاں ہوں یا حاجن پر حملہ ہو، یہ تمام واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس علاقے میں دہشت گردی کی رتبیت حاصل کرنے والے، دہشتگردوں کے سہولت کار اور ہمدرد ضرور موجود ہیں۔

خانپور میں امام بارگاہ میں نماز کے دوران حملے کے لئے آنے والے ملزمان میں سے گرفتار ہونے والے ایک نوجوان نے مقامی سہولت کاروں کے نام بتاکر پولیس او دیگر اداروں کی تفتیش کے مرحلے آسان کردیئے ہیں لیکن اس تفتیش کو آگے بھی لے جاا چاہئے اور اس امر کا پتہ لگانا چاہئے کہ وہ کونسے عناصر ہیں جو شکارپور کا تشخص تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ حملے کی ذمہ داری بھلے ایک کالعدم تنظیم نے قبول کرے، حملہ آور خواہ سوات سے تعلق رکھنے والا تحقیقات میں مددگار ثابت ہو، لیکن ارباب اختیار کو یہ ضرور پتہ لگانا چاہئے کہ شکارپور میں ایسا کوئی جال بچھا ہوا ہے جس کی مدد سے اس طرح کی کاررویاں کی جارہی ہیں۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ شکارپور میں صرف شیعہ آبادی کیوں حملوں کی زد میں آرہی ہے؟ 
اس امر کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے کہ عقیدے کے اعتبار سے نفرت کی آگ بھڑکانے سے مقامی آبادی میں سے زیادہ حصہ کس کا ہے؟ کرایے کے خودکش بمباروں کو روکنا چاہئے لیکن اس سے پہلے اپنے گھر کی بھی تلاشی لینا ضروری ہے۔ خود شکارپور کے منتخب نمائندوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو بھی سمجھیں کہ شکارپور میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کے پیچھے کونسے محرکات ہیں؟ کس کے یہاں پر کیا مفادات ہیں یا کونسے حلقے کے مفادات ٹکراؤ میں آتے ہیں۔ یہ سب سمجھنے کے بعد اس معاملے کے مستقل حل کے لئے کوشاں ہوں۔ 

’’تعلیم ایمرجنسی کیا نتائج دے گی ؟‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ عبرت ‘‘لکھتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کی صدارت میں منعقدہ ایک اجلاس میں صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ فیصلے کے مطابق تمام اساتذہ کو متعلقہ یونین کونسلز میں بھیج دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ تعلیم کو دو حصوں یعنی سیکنڈری اور ٹیکنیکل اجوکیشن کو ایک ساتھ رکھا گیا ہے جبکہ پرائمری اور ایلمینٹری کو الگ کردیا گیا ہے۔ ضلع انتظامیہ کو اسکولوں کے معائنے کے اختیارات بھی دیئے گئے ہیں۔ اسکولوں اور کالیجوں کی مانیٹرنگ کے لئے ایم پی ایز، ایم این ایز، ضلع کونسل کے چیئرمن اور ڈپٹی کمشنر پر مشتمل مانیٹرنگ کمیٹیز تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ نے سرکاری اسکولوں میں داخلہ کم ہونے اور صوبے میں 52 فیصد بچے اسکول جانے سے محروم ہونے کی صورتحال پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور سیکریٹری تعلیم کو ہدایت کی کہ اس معاملے پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ تعلیم سے محروم بچوں کو اسکولوں میں لایا جا سکے۔ وزیراعلیٰ نے اساتذہ کی تربیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کینیڈین تربیت کو صحیح طریقے سے لاگو کیا جائے۔

وزیراعلیٰ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد تعلیم کو ترجیحات میں اول نمبر پر رکھا تھا۔ تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ اس ضمن میں پہلا اور اہم قدم ہے۔ اسکولوں کی مانیٹرنگ کے لئے ای این ایز، ایم پی ایز، ضلع کونسل کے چیئرمن اور انتظامی افسران پرعائد کی گئی اضافی ذمہ داری یقیننا کسی حد تک فائدہ دے گی۔ لیکن اساتذہ کو متعلقہ یونین کونسلز میں بھیجنے کے فیصلے کو زیادہ پزیرائی نہیں مل سکے گی۔ایسے کئی اساتذہ ہیں جو کراچی، حیدرآباد، اور دیگر بڑے شہروں میں رہائش اختیار کر چکے ہیں اس فیصلے کے تحت ان اساتذہ کو بھی واپس ان کی یونین کونسلز میں بھیج دیا جائے گا۔ نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں تبادلے کرنے پڑیں گے۔ جس سے لامحالہ تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہونگی۔ نہیں معلوم کہ یہ فیصلہ تعلیم کی بہتری کے لئے کیا جارہا ہے یا شہری آبادی کو خوش کرنے کے لئے کیا گیا ہے؟ حیدرآباد اور رکاچی کی شہری آبادی ایک عرصے سے یہ مطالبہ کرتی رہی ہے۔ اس طرح سے شہروں میں آکر آباد ہونے والی اچھی خاصی آبادی کو واپش منتقل ہونے پر مجبور ہو جائے گی۔ مجموعی طور پر تعلیمی ایمرجنسی اچھا عمل ہے شرط یہ ہے کہ اس عمل کو انتقامی کارروایوں کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ 

روزنامہ سندھ ایکسپریس منچھر جھیل کی بحالی میں رکاوٹیں کے عنوان سے لکھتا ہے کہ مچھر جھیل ایک عرصے سے زہریلے پانی کی وجہ سے اپنی فطری حسن کھو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں آباد ماہیگیروں کی بربادی اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ اس صورتحال پر مسلسل آواز اٹھانے کے باوجود اس کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ اس سپریم کورٹ حکومت کو متعدد بار متنبیہ کر چکی ہے کہ منچھر میں آلودگی کے معاملے کو نظرانداز نہ کیا جائے۔
حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے اپنے پہلے کے احکامات کی روشنی میں دو وفاقی سیکریٹریوں کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان دونوں سیکریٹریوں کو عدالت نے پہلے بھی حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔ 
اب عدالت نے خزانہ اور منصوبہ بندی وزارتوں کے سیکریٹریز کے ناقابل ضمانت گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے ہیں۔اور انہیں 18 اکتوبر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ دونوں سیکریٹریز نہ عدالت کے حکم پر حاضر ہوئے تھے اور نہ ہی انہوں قابل اعتماد جواب داخل کیا تھا۔ عدالت نے 17 اکتوبر 2015 کو سیکریٹری خزانہ کو حکم دیا تھا کہ منچھر کو آلودگی سے پاک کرنے کے لئے فنڈ جاری کئے جائیں۔ لیکن اس افسر نے عدالت کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ عدالت کے اس حکم سے لگتا ہے سرکاری افسران منچھر کی حالت بہتر بنانے میں سنجیدہ نہیں۔ 
منچھر سے ہزاروں لوگوں کی زندگی اور روزگار وابستہ ہے۔ اس کی بحالی کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے نہ صرف اس جھیل میں آلودہ پانی نہ ڈالا جائے بلکہ تازہ پانی بھی مہیا کیا جائے۔ 

سولہ ستمبر 2016
روزنامہ نئی بات

سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کا فیصلہ ۔ سندھ نامہ ۔

سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی
سندھ نامہ سہیل سانگی 
’’روزنامہ کاوش ‘‘ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کا فیصلہ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام جدید تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔ یہ رپورٹ اقوام متحدہ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق نہ صرف ملک میں شرح خواندگی کم ہے بلکہ یہاں کا تعلیمی نظام موجودہ تقاضوں سے 60 سال پیچھے ہے۔ فاٹا اور بلوچستان کو چھوڑ کر سندھ کا تعلیمی معیار ملک کے باقی صوبوں اور علاقوں میں بہت پیچھے ہے۔ یہاں تک کہ کشمیر اور بلتستان میں بھی تعلیمی معیار کے حوالے سے سندھ سے آگے ہیں۔ 
صوبے میں تعلیم کی اتنی ابتری پر تنقید کے بعد اکابرین نے یہ حل نکالا ہے کہ صوبے میں دو سال کے لئے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ اس کی حتمی منظوری وزیراعلیٰ سندھ دیں گے۔ تعلیمی ایمرجنسی کے بعد کالج، اور اسکولوں کے اساتذہ کے احتجاج اور بائکاٹ پر پادبندی ہوگی۔ گریڈ 20 تک کے افسران کو وزیر تعلیم برطرف یا معطل کرنے کا مجاز ہوگا۔ ڈپٹی کمشنر تعلیمی اداروں پر چھاپے مار سکیں گے۔ تعلیمی اداروں میں کلاسوں کے بائکاٹ پر پابندی ہوگی۔ 

ملکی آئین کے آرٹیکل 25 A کے مطابق پانچ چھ سال سے سولہ سال تک بچوں کی تعلیم مفت اور لازمی ہے۔ اور اس کے لئے ریاست ذمہ دار ہے۔ یہ ذمہ داری ریاست کتنے احسن طریقے سے نبھاتی رہی ہے ، اقام متحدہ کی رپورٹ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اقوام متحدہ نے 2000 میں ملینیم گول کا تعین کیا تھا جس میں سے ایک گول تعلیم بھی تھا۔ 2015 تک اس گول کو حاصل کرنا تھا۔ اس مقصد کے لئے پاکستان ایجوکیشنل ٹاسک فورس بھی قائم کی گئی۔ لیکن یہ اقدامات بستر مرگ تک پہنچنے والے تعلیمی نظام کو تندرست نہیں کر سکے۔ ترقی یافتہ معاشرے تعلیم پر سرمایہ کاری کر کے سماج پر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ تعلیم کسی بھی ملک میں دفاع کے برابر ہی اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن جس ملک میں مجموعی پیداور کا 2 فیصد تعیلم پر خرچ ہو، وہاں تعلیم کے پھیلاؤ، کی کیا امید کی جاسکتی ہے؟ جس ملک کے پان سے سولہ سال تک کی عمر کے بچے کوئی متن یا کہانی نہ پڑھ سکتے ہوں۔ جبکہ پچاس فیصد بچے ایک جملہ بھی نہ پڑھ سکتے ہوں، وہاں تعلیمی معیار کیا ہوگا؟ ٹاسک فورس کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ حکومت تعلیم پر اتنی بھی رقم خرچ نہیں کرتی جتنی پی آئی اے، اسٹیل مل، یا پیپکو کو سبسڈی دیتی ہے۔ 
دنیا کے 26 ملک جو پاکستان سے زیادہ غریب ہیں وہ بھی بچوں کو پاکستان کے مقابلے میں زیادہ تعلیم دلا رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم عام کرنے یا اس کا معیار بہتر کرنے کے لئے وسائل اتنے اہم نہیں جتنی نیت اہم ہے۔ سندھ میں صورتحال اور بھی بدتر ہے۔ جس کے لئے منتظمین نے تعلیم ایمرجنسی کا نسخہ تجویز کیا ہے۔ اس پر دو رائے نہیں کہ تعلیم کی جتنی تباہی گزشتہ آٹھ سال کے دوران ہوئی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ میڑت کو ایک طرف پھینک کر اہلیت کا جنازہ نکالا گیا۔کرپشن کو فروغ دیا گیا۔ حکومت مختلف وقت پر غیر قانونی بھرتیوں اور کرپشن کے اعترافات بھی کرتی رہی۔ محکمہ تعلیم کے منتظمین کی اہلیت، صلاحیت اور نیک نیتی کا اندازہ اس سے لگالیں کہ وہ بند اسکول بھی نہیں کھلوا سکے۔ صرف اساتذہ کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلانے یا ان کی توہین کرنے سے بہتر نہیں ہوگی۔ تعلیم کی تباہی کے اسباب انتظامی ہیں۔ 
نجی اسکولوں کے فروغ نے بھی سرکاری اسکولوں کی تعلیم کو تباہ کرنے میں بھرپور کردار دا کیا۔ کرپشن عروج پر پہنچ گئی۔ ہزاروں اساتذہ ’’ویزا‘‘ پر چلے گئے ۔ جس سے انتظامی افسران کی کامئی کا ایک اور ذریعہ نکل آیا۔ سرکاری اسکولوں کے استاتذہ کو غیر ھاضر، غائب اساتذہ کا نام دے کر نجی اسکولوں کے لئے سازگار ماحول بنایا گیا۔ یہ صورتحال مدارس کے فروغ کا بھی باعث بنی۔ عاملی بینک اور دیگر عالمی اداروں کی جانب سے مہیا کئے گئے فنڈز کہاں گئے؟ سندھ کی تعلیم کو اس نہج پر پہنچانے کے ذمہ دار صرف اساتذہ نہیں منتظمین بھی ہیں۔ کیا تعلیمی ایمرجنسی اعلیٰ منتظمین کے لئے بھی ہوگی؟ یا وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہونگے؟ 

ہم تعلیم کے اصلاح احوال کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات پر ناخوش نہیں۔ لیکن معاملات کو جتنا سہل سمجھا جارہا ہے اتنے سہل نہیں ہیں۔ تعلیم کی بہتری کے لئے ہنگامی اور انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ گورننس کا ہے۔ لیکن اس اہم اور اصل معاملے کو نظرانداز کای جارہا ہے۔ جب تک گورننس کا معیار بہتر نہیں ہوتا تب تک یہ ایمرجنسی بھی مطلوبہ مقاصد نہیں دے سکے گی۔ 

منچھر جھیل کو آلودگی سے بچائیں کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ کے آبی ذخائر کی خراب صورتحال پر نہ صرف ماحول دوست بلکہ سماجی حلقے آواز اٹھاتے رہے ہیں ۔ اس وقت صوبے کی جھیلوں اور دیگر آبی وسائل کی صورتحال بہت خراب ہے۔
کینجھر سے لیکر منچھر تک کئی جھیلیں اپنی خوبصورتی کھو بیٹھی ہیں۔ منچھر کو پانی آلودہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے ماہیگیر عذاب کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 
کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے بھی ہدایت کی تھی کہ منچھر کو آلودگی سے بچایا جائے۔ لیکن عدالت عظمیٰ کے اس حکم پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ اس جھیل میں مسلسل زہریلا پانی چھوڑا جارہا ہے جس سے حالت مزید ابتر ہو رہی ہے۔ حال ہی میں کمشنر حیدرآباد نے منچھر کا دورہ کیا اور بتایا کہ اس جھیل کی بحالی کے لئے ایک جامع منصوبہ بنا کر سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔ طویل عرصے سے ماہیگیر منچھر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کی تشویش کا کبھی اہمیت نہیں دی گئی۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ دوسرے صوبوں کا زہریلا پانی سندھ میں خراج کیا جاتا ہے یا یہاں کے آبی ذخائر میں ڈالا جاتا ہے جس سے یہاں کے آبی ذخائر آلودہ وہتے جارہے ہیں۔ 

یہ صورتحال نہ صرف لوگوں کے ذرائع روگار پر بلکہ مجموعی معیشت، غربت اور زندگیوں اور صحت پر بھی اثرانداز ہو رہی ے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر س منچھر سمیت صوبے کے دیگر آبی ذخائر میں دوسرے صوبوں کے آلودہ پانی کا اخراج بند کیا جائے اور اس صوبے کے آبی ذخائر کو بچانے اور ان کی بحالی کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ 

روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ گزشتہ روز کراچی میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے جلسے کے موقعہ پر شاہراہ فیصل چھ گھنٹے تک بلاک رہا۔ اس بلاک کی وجہ سے ایک لاکھ سے زائد افراد گھروں تک پہنچنے کے لئے پریشان رہے سینکڑون افراد پروازوں پر پہنچ نہ سکے۔
یہ صورتحال آئے دن ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے ہزاوں لوگوں کو بلاوجہ زحمت اٹھانی پڑتی ہے۔ احتجاج اپنی جگہ پر لیکن اس سے عام لوگوں کو تکلیف دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ احتجاج کرنے والوں کو عوام کے اس تکلیف اور پریشانی کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے۔ 
دس ستمبر 2016
روزنامہ نئی بات

کوٹا سسٹم کا کیا قصور؟ ۔ سندھ نامہ ۔ سہیل سانگی

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
Sep 2, 2016


کوٹا سسٹم کا کیا قصور؟
سندھ نامہ سہیل سانگی 
’’ترقی کا رکا ہوا سفر جاری رہنا چاہئے‘‘ کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں بلدیاتی نمائندگان کی حلف برداری کے بعد یہ نظام بحال ہو چکا ہے ۔ اس نظام کو نچلی سطح تک عوام کو اختیارات کی منتقلی، مقامی سطح پر اپنے مسائل حل کرنے کے لئے مقامی قیادت کو اہمیت دی جارہی تھی۔ آج سندھ کے چھوٹے بڑے شہر مسائل کے جس دباؤ میں ہیں وہاں ان اداروں کا خص کردار بنتا ہے۔ جو عیاسی جماعتیں یا گروپ جیت کر آئے ہیں انہیں ان کو اس نظام میں بلاامتیاز وہ کام کر کے دکھانا ہے جو عوام کی بھلائی میں ہو۔ اور یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ ادارے نچلی سطح پر عوام کی نمائندگی کا حقیقی کردار ادا کر رہے ہیں۔ سندھ کا تمام انفرا اسٹرکچر اس وقت کھنڈر بنا ہوا ہے۔ 
بیشمار ایسے مسائل ہیں جن کے لئے کوئی اقدام کرنے کے بجائے بلدیاتی ادارو ں کی بحالی کا انتظار کیا جارہا تھا۔ اب جب یہ نظام بحال ہو چکا ہے ، کراچی سمیت سندھ بھرکے نمائندوں کو ہم کیا بتائیں کہ ان کے شہروں اور دیہات کا کیا حال ہے؟ ان نمائندگان کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علاقے کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر اور بلاامتیاز حل کریں۔ ماضی میں اکثر مقامات پر ایسا ہوتا رہا کہ جو گروپ جہاں سے جیتا اس نے صرف وہیں پر ترقیاتی کام کرائے۔ جس کی وجہ سے بہت سارے معاملات اور چھوٹے موٹے منصوبے بلاوجہ متنازع ہوگئے۔ 
یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ ماضی میں ان بلدیاتی اداروں کی کارکردگی اور شفافیت کی وجہ سے کچھ اچھی ساکھ نہیں رہی۔ 
اس موقعہ پر ہم صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کے آپس کے تعلقات کا ذکر بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ ایسے کئی مسائل ہیں جو بلدیاتی اداروں کو حکومت سندھ کے علم میں لانے پڑیں گے۔ بعض معاملات میں ان اداروں کو صوبائی حکومت کی رہنمائی کی بھی ضرورت پڑے گی۔ سندھ کے عوام چاہتے ہیں کہ اس مرتبہ بلدیاتی ادارے بلا تفریق کام سرانجام دے کر مثال قائم کریں کہ واقعی ان اداروں کی نچلی سطح کے کاموں کے حوالے سے بڑی اہمیت ہے۔ 

روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ ارسا نے پانی میں کٹوتی کے خلاف سندھ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے سندھ کو پانی معاہدے کی شق 2 یعنی دستیابی کی بنیاد پر دیا جائے گا۔ اس درخواست پر فیصلے کے دوران بلوچستان نے بھی پنجاب کا ساتھ دیا۔ درخواست میں حکومت سندھ نے یہ موقف اختیار کیا کہ حالیہ بارشوں کے بعد سندھ نے پانی کی ضرورت ایک لاکھ 80 ہزار کیوسکس کے بجائے ایک لاکھ 70 ہزار کیوسکس کردی ہے ۔ اگر اس مقدار سے بھی کم پانی ملا تو صوبے کی زراعت کو نقصان پہنچے گا جس کے معیشت پر منفی اثرات پڑیں گے۔ 
سندھ کے نمائندے نے ارسا کے ممبران کو بتایا کہ واپڈا کی جانب سے ڈیم نہ بھرنے کی سزا سندھ کو نہ دی جائے۔ سندھ کو اس وقت پانی کی شدید ضرورت ہے۔ جب کہ پنجاب کے نمائندے کا کہنا تھا کہ اس وقت ڈیم بھرنا ضروری ہیں۔ اس کے بعد صوبوں کو پانی دیا جائے گا۔ اس موقعہ پر بلوچستان کے نمائندے نے شکایت کی کہ سندھ اس کے صوبے کے پانی میں کٹوتی کر رہا ہے۔ ارسا کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سندھ میں لاسز 20 فیصد سے بھی کم ہیں۔ 

یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں۔ پنجاب اس سے پہلے تقریبا ہر مرتبہ کسی نہ کسی بہانے سے دریائے سندھ سے پانی لیتا رہا ہے اور اس کے ذریعے اپنی لاکھوں ایکڑ زمین آباد کرتا رہا ہے۔ اس کے عوض سندھ کی زمینیں غٰر آباد اور بنجر بنتی گئی۔ صورتحال یہ جا ٹہری کہ 1991 کے پانی کی تقسی کے معاہدے کے باوجود ڈاؤن اسٹریم کوٹری پانی نہیں چھوڑا گیا۔ نتیجے میں بدین اور ٹھٹہ ضلع میں لاکھوں ایکڑ زمیں نمکیات سے بھر گئی اور اتنی ہی زمین سمندر برد ہوگئی۔ سندھ بھر لوگ پینے کے پانی کے کئے ترس رہے ہیں۔ مختلف کینالز، شاخوں میں وارابندی چل رہی ہے۔ سکھر خیرپور اور دیگر اضلاع میں کاشتکار احتجاج کررہے ہیں۔ 

سندھ کئی بار یہ مطالبہ کر چکا ہے کہ ارسا چشمہ جہلم لنک کینال اور پنجند بند کرائے۔ مگر پنجاب کسی طور پر یہ بات سننے کو تیار نہیں۔ پنجاب چشمہ جہلم کینال کے ذریعے ہزاروں ایکڑ پانی اٹھا رہا ہے۔ کوئی پوچھنے واالا نہیں۔ ایسے میں سندھ اگر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس کو پانی دیا جائے تو پہلے ڈیم بھرنے کی بات کی جاتی ہے۔ ارسا کا کام صوبوں کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے۔ لیکن جس انداز میں فیصلے کئے جارہے ہیں اس سے ہر مرتبہ جانبداری جھلکتی ہے۔ پنجاب کا محل وقع دریائے سندھ کے بالائی حصے میں ہے۔ لہٰذا پانی کے معاہدے خواہ کچھ بھی ہوں اس کے لئے کسی بھی وقت اضافی پانی لینا مشکل نہیں رہا۔ سندھ اس حوالیس مسلسل شکایات کرتا رہا ہے۔ یہ رویہ ایک اور رکاوٹ بن رہا ہے بین لاصوبائی ہم آہنگی میں۔ 

روزنامہ کاوش کوٹا سسٹم کا کیا قصور کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں دیہی علاقوں کی پسماندگی کے پیش نظر شہری اور دیہی فرق ختم کرنے کے لئے کوٹہ سسٹم رائج کیا تھا۔ جس کی مدت میں ہر حکومت توسیع کرتی رہی ہے۔ اس کوٹہ سسٹم کی وجہ سے کسی حد تک دیہی علاقوں کے نوجوان کسی حد تک تعلیمی اداروں میں داخلے سے لیکر ملازمتوں تک حق حاصل کر سکے ہیں۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف اب تک صرف متحدہ قومی موومنٹ ہی آواز اٹھاتی رہی ہے۔ جس کا مینڈیٰٹ بمشکل دو یا تین شہروں تک محدود ہے۔ لیکن اس مرتبہ کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی تجویز ایپیکس کمیٹی میں ڈٰ ی جی رینجرز کی طرف سے پیش کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں سے احساس محرومی ختم کرنے کے لئے کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ضروری ہے۔ 

سندھ کے دیہات میں حالت ابتر ہے۔ غربت کی صورتحال یہ ہے کے لوگوں کو جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ دیہی علاقوں کی معیشت مکمل طور پر زراعت پر مبنی ہے۔ پانی کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے اور دیگر عوامل کی وجہ سے یہ شعبہ معیشت میں مطلوبہ کردار ادا
نہیں کر پا رہا ہے۔ دیہات میں معیار زندگی دن بدن گرتا جارہا ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کا میڈیٹ ، خواہ منتخن دور ہو یا آمریت، ایم کیو ایم کے پاس ہی رہا ہے۔ لہٰذا یہ جماعت براہ راست یا بلواسطہ طور پر ہر دور میں اقتدار میں شریک رہی ہے۔ ایسے میں شہری علاقوں میں احساس محرومی کی بات کرنا ناقابل فہم ہے۔

شہری علاقوں میں صنعتی ملازمتوں سے لیکر کاروبار تک تمام مواقع موجود ہیں۔ لیکن سندھ کے دیہی علاقوں میں کونسے مواقع ہیں؟ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ دراصل دہشتگردی کا خاتمہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اس میں کوٹہ سسٹم کا کیا قصور؟ 

Sunday, August 28, 2016

سندھ بہت بڑی تبدیلی سے گزرہا ہے ۔ سندھ نامہ ۔

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ بہت بڑی تبدیلی سے گزرہا ہے

سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
گزشتہ ہفتہ سے سندھ بہت بڑی تبدیلی سے گزرہا ہے۔ یہ تبدیلی بظاہر چانک تھی لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ اس کے لئے میدان پہلے سے تیار کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی طے تھا کہ کس کردار کو کب اور کیا رول ادا کرنے ہے۔ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رہنما فارق ستار نے لندن کی قیادت سے لاتعلقی کا اظہار کر کے عملی طور پر پارٹی کو بچا لیا اور اس کے ساتھ ساتھ کراچی اور حیدرآباد میں میئر کے انتخابات بھی جیت لئے۔ اخبارات میں یہ خبریں اور تبصرے بھی شایع ہوئے کہ فاروق ستار کے اس عمل نے پارٹی پر پابندی لگنے سے بچا لیا۔ کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے باقی شہروں میں جہاں جہاں ایم کیو ایم کا وجود تھا وہاں دفاتر سیل کردیئے گئے ہیں۔ الطاف حسین کی تصاویر اتار دی گئی ہیں۔ اس پورے عمل پر ایم کیو ایم جس کا نعرہ تھا ’’قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے ‘‘ خاموش رہی۔ ایک بہت بڑی تبدیلی بہت ہی خاموشی کے ساتھ اور پر امن طور پر آ گئی۔ پورا ہفتہ اس تبدیلی سے متعلق خبریں، تبصرے، مضامین، اور اداریے شیاع ہوتے رہے۔ اس ہٹ کرواقعہ یا خبر کم اہمیت اختیار کر گئی۔ 



روزنامہ عوامی آواز سرکاری زمینیں اور پارک چھڑانے کا فیصلہ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ کے مختلف شہروں میں خاص طور پر کراچی، حیدرآباد، سکھر میں سرکاری زمینوں، پارکوں ، سرکاری دفاتراور اسکولوں میں قائم یونٹ اور سیکٹر آفیسوں کو مسمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لئے اپنے ذاتی یا کرایے کی عمارتیں استعمال کرے۔ یہ فیصلہ السام آباد میں وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کی مشترکہ اجلاس میں کیا گیا۔ جو دو روز تک جاری رہا۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر داخلا چوہدری نثار علی خان نے کراچی کا دورہ کیا اور گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ سے ملاقاتیں کر کے ضروری ہدایات دیں۔ چوہدرینثار علی نے کراچی کے عوام کو شاباش دی کہ 25 سال میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ وہ کسی کی دھمکیوں میں نہ آئے۔ انہپوں نے کہا کہ ایم کیو ایم دو یا تین دھڑوں میں تقسیم ہو جائے گی اس کا پتہ ایک دو روز میں چل جائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ایم کیو ایم کی سوچ سے متعلق انہیں (وفاقی حکومت) کو کئی برسوں سے پتہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نے پاکستان کے خاف بعض قوتوں کا پتہ ہونے کے باوجود ان کی طرف نرم رویہ رکھا۔ پاکستان کے خلاف کام کرنے والے کسی شخص، گروپ یا پارٹی میں وفاقی حکومت نے بعض چھوٹے مفادات و معاملات کی وجہ سے ہاتھ نہیں ڈالا۔ 
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ کابینہ نے مدرسوں کی رجسٹریشن اور این جی اوز کی آڈٹ اور مانیٹرنگ کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معلومات تک رسائی کے بل کی بھی منظوری دے دی ہے۔ کابینہکو بتایا گیا کہ صوبے میں 8 ہزار مدارس بغیر رجسٹریشن کے کام کر رہے ہیں۔ ان کی رجسٹریشن کے لئے نیا قانون متعارف کرایا جائے گا۔ والنٹیئر سوشل ویلفیئر ایجنسیز کے قانون میں ترمیمی بل کی بھی منظوری دی گئی۔ بنیادی طور پر سندھ کابینہ نے جو فیصلے کئے ہیں ا کا تعلق امن و مان سے ہے۔ جہاں تک مدارس کی بات ہے، سندھ میں صدیوں سے مدارس چل رہے ہیں جس کا کوئی بھی مخالف نہیں۔ لیکن اعتراض تب شروع ہوا جب بعض مدارس کو امن و مان بگاڑنے میں ملوث پایا گیا۔ مدارس میں جو تعلیم دی جاتی ہے اور جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس پر صرف سندھ میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان اور دنیا میں بحث چل رہی ہے۔ دینی تعلیم الگ چیر ہے اور دینی تعلیم کے نام پر کچے ذہنوں کو غلط راہ پر لگانا بلکل ہی الگ بات ہے۔ مدارس کے اس بدلے ہوئے رول کو سمجھنے کے لئے ہمیں سرد جنگ کے دور میں جانا پڑے گا۔ جب ہمارے خطے میں مدارس دینی تعلیم کے ساتھ ایک کاص ایجنڈا پر کام کرنے لگے۔ خرابی میں شدت تب آئی جب ان کے قیام اور پروان میں غیر ملکی پیسہ آنا شروع ہوا اور اس کی بھی کوئی تحقیقات اور مانیٹرنگ نہیں ہو رہی تھی۔ اگر کوئی ادارہ رضاکارانہ طور پر بغیر کسی آمدن کے چلتا ہے تو وہ کسی اور طریقے سے چلتا ہے۔ اگر اس میں بعض دیگر ذرائع سے رقومات آنا شروع ہوں اور حکومتی اداروں کے کو بھی اس کا نہ پتہ ہو تو پھر ایسے نتائج نکلیں گی جس طرح کے نتائج بعض مدارس کی صورت میں ہمارے سامنے آئے ہیں۔ مدرسہ ایک ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ادارہ بغیر رجسٹریشن کے کیسے چل سکتا ہے؟ کوئی بھی ادارہ ہو اس کی نہ صرف رجسٹریشن ضروری ہے بلکہ اس کے بارے میں حکومت خواہ عوام کو بھی پورے طور پر آگاہی ہو نی چاہئے۔ ہمارے ہاں حکومتی سطح پر کوئی مانیٹرنگ اور چیک نہ ہونے ک وجہ سے بعض غیر ملکی عناصر نے اپنے ایجنڈا پر کام کرنا شروع کیا۔ اگرچہ اس ضمن میں خاصی دیر ہوچکی ہے تاہم اب بھی اگر بلاامتیاز یہ کام کیا جائے تو اس کے مجموعی طور پر ہمارے معاشرے پر سیاسی، مذہبی، اور امن و مان کے حاولے سے بھی بہتر اثرات پڑیں گے۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس پانی کی تقسیم میں سندھ کے ساتھ امتیازی سلوک کے عنوان سے لکھتا ہے کہ حال ہی میں ارسا کے اجلاس میں پانی کی موجودہ صورتحال، تربیلا ڈیم کے نہ بھرنے، صوبوں کے حصے اور دیگر معاملات پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ ارسا نے 28 جولائی کو تربیلا ڈیم بھرنے کے لئے واپڈا کو ہدایات جاری کی تھیں۔ ان ہدایات کو نظرانداز کیا گیا۔ جس کے بعد صورتحال خراب ہو گئی۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ پنجاب اب تریمو اور پنجند کیالز کے لئے منگلا سے پانی لے گا۔ دوسری طرف چشمہ جہلم لنک کینال کو بند کردیا گیا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سندھ اور پنجاب کو ان کی ضروریات کے بجائے معاہدے کے پیرا 2 کے تحت پانی ملے گا۔ لیکن یہ پانی 20 فیصد لاسز کے حساب سے ملے گا۔ سندھ نے یہ موقف اختیار کیا کہ عملی طور پر لاسز 40 فیصد ہیں کیونکہ چشمہ سے پانی گڈو تک پہنچتے ہوئے کم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا چالیس فیصد لاسز طے کر کے اس کے حساب سے سندھ کو پانی دیا جائے۔ 

سندھ میں حکمرانی کا صرف تاثر ہی خراب نہیں ۔ سندھ نامہ ۔ سہیل سانگی


Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi


سندھ میں حکمرانی کا صرف تاثر ہی خراب نہیں

سندھ نامہ   سہیل سانگی


روزنامہ کاوش سندھ میں حکمرانی کا صرف تاثر ہی خراب نہیں کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ سندھ اور ان کی ٹیم جو نئے وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم کے لئے جو مسائل کے ڈھیر ورثے میں دے گئی ہے ان میں سے ایک مسئلہ افسران کی میرٹ پر، ضرورت اور معیار کی بنیاد پر تقرر اہم ہے۔ صرف وزیراعلیٰ ہاؤس میں 25 ہزار سمری ہی بغیر نمٹائے رہ گئی ہیں اس طرح کے کئی انتظامی مسائل حل ہونے سے رہ گئے ہیں۔ یا انہیں جان بوجھ کر التوا ڈالا گیا تھا۔ جنہیں موجودہ وزیراعلیٰ حل کریں گے۔ ایک چھوٹی سی مثال عطا محمد پنہور کا ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی میں تقرر ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود سندھ حکومت نے ان کی خدمات واپس وفاق کے حوالے نہیں کی ہیں۔ سوال صرف اس افسر کا نہیں۔ سندھ میں ایک عرصے سے اپنے حق کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والے افسران کو در در رسوا کیا جارہا ہے ۔ انہیں گریڈ 18 سے 17میں اور پھر نافرمانی کرنے پر گریڈ 14 میں سزا کے طور پربھیج دیا گیا۔


انتظامی نا انصافی کی یہ مثال صرف سندھ میں ہی ملتی ہے۔ کہ عدالت کے منع کرنے کے باوجود من پسند افسران کو پسندیدہ عہدوں سے نوازا گیا۔ جن توہین عدالت کی درخواستیں دائر ہوتی ہیں اور ان کی سماعت کے دوران جب عدالت حکومت سندھ کے دل پسند افسران کے بارے میں سوال کرتی ہے تو س سرکاری وکیل لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔ یوں ایک افسر دوسرے پر کوتاہی کا الزام لگتا ہے ، پھر دوسرا تیسرے پر ، اور یوں یہ سلسلہ آگے چیف سیکریٹری تک چلا جاتا ہے۔ یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں کہ سندھ میں افرسان کے تقرر، تبادلے اور ترقی کا معاملہ عدالت عظمیٰ تک پہنچا ہے۔ اس سے پہلے بھی متعدد درخواستیں انصاف کے لئے عدالت میں دائر کی جاتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ تبصرے اور ریکامرکس بھی سننے کو ملتے ہیں کہ سندھ میں چھانٹ چھانٹ کے غلط افسران کو اہم عہدوں پرؓ تھایا گیا ہے۔ سندھ کے انتظامی ڈھانچے کی بدانتظامی کا عالم یہ ہے کہ محکمہ پولیس میں ایس پی لیول کے عہدوں پر غلط ترقیاں دی گئی ہیں۔ جنہیں بعد میں عدالت کے حکم پر واپس کیا گیا۔ ایک محکمے کے افسران کو دوسرے محکمے میں ضم یا تقرر کیا گیا۔ محکمہ بلدیات میں ملازمت اتنی چمک والی چابت ہوئی کہ پی آئی اے کے بعض ملازمین بھی اس محکمے میں آکر موج کرنے لگے۔ اس کا اعتراف سابق وزیر بلدیات آغا سراج درانی کر چکے ہیں۔


وزیراعلیٰ سندھ بھلے یہ کہتے رہیں کہ سندھ میں اتنی خراب حکمرانی نہیں ہے۔ جتنا اس کے بارے میں تاثر دیا جارہا ہے۔ اچھا یا خراب تاثر تب بنتا ہے جب کوئی عمل ہوتا ہے۔ تاثر تبدیل کرنے کے لئے تحرک اور سرگرمیاں ہی کافی نہیں ہوتی، میرٹ کو رائج کرنا، ضرورت کے مطابق افسران کی تقرری اور تبادلے ، انتظامی ڈحانچے کے حوالے سے ہونے والی ناانصافیوں کی آواز کو مدھم کر سکتے ہیں۔ حکمرانی سے متعلق اچھا تاثر تب بن سکتا ہے جب ورثے میں ملنے والے مسائل کو حل کرنے کے لئے ماضی کی رپیکٹس سے نکالا جائے گا۔ پرانی ٹیم سے ممکن ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ ڈرے ہوئے نہ ہوں لیکن سندھ کے عوام ضرور ڈرے ہوئے ہیں۔ جس نے عوام کو گزشتہ آٹھ سال تک خراب حکمرانی کا مزہ چکھایا ہے۔ 
روزنامہ ایکسپریس سندھ وفاق تنازع کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے بعد نواز لیگ کی حکومت تیسری مرتبہ اقتدار میں آئی ہے۔ جب بھی نواز شریف کی حکومت آتی ہے وفاق اور صوبوں کے درمیان کشیدگی بڑھ جاتی ہے۔ ان کی حکومت صوبوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ کبھی کالا باغ کے متنازع آبی منصوبے کو چھیڑا جاتا ہے۔ 
کبھی پانی کے معاہدے کو ایک طرف رکھ کر مختلف فارمولے سامنے آالئے جاتے ہیں۔ چیئرمین واپڈا اخباری مضامین کی سیریز کے ذریعے کالا باغ ڈٰم کا معاملہ نئے سرے سے کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن وفاقی حکومت ان سے پوچھ ہی نہیں رہی کہ آخر اسکو کیوں چھیڑا جارہا ہے۔ صندھ کے مشیر اطلاعات مولابخش چانڈٰو کہتے ہیں کہ اگر سندھ حکومت کو ہلایا گیا تو پورا وفاق ہل جائے گا۔ وفاقی وزیرداخلا چوہدری نثار علی خان سندھ حکومت کو مختلف آپشنز کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ دوسرے صوبوں سے بھی جو موقف سامنے آرہے ہیں ان سے لگتا ہے کہ صوبوں اور وفاق کے درمیاں دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی کا لازمی طور پر فائدہ غیر سیاسی قوتوں کو ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ اور وفاق کے درمیان جو بھی اختلافات اور کشیدگی ہے اس کو بات چیت کے ذریعے اور ٹھنڈے دماغ کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ 



روزنامہ عبرت وزیراعلیٰ سندھ کے حیدرآباد دورے کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ان کے دورے نے حیدرآباد کی انتظامیہ کو بڑی پریشانی میں مبتلا کردیا کیونکہ سڑکوں کی زبون حالی، گلیوں کی صفائی، سیوریج کے پانی کی ناقص نکاسی کے معاملات ان کی کارکردگی کی چغلی لگا رہے تھے۔ اخبار لکھتا ہے کہ سندھ بھر کے شہروں کو تفصیل سے دیکھنے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس طرح کا مکینزم بننا چاہئے کہ وزیراعلیٰ نہ بھی دورہ کر سکیں تو بھی نظام چلنے لگے اور لوگوں کو سہولیات اور انصاف ملتا رہے۔ 

Saturday, August 13, 2016

چھوٹے صوبوں میں زیادہ لوڈ شیڈنگ کا اعتراف ۔ سندھ نامہ ۔


سندھ نامہ ۔۔۔۔ سہیل سانگی

 سندھ کو پانی، مالیاتی امور، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اورترقیاتی منصوبوں میں نظرانداز کرنے کے حوالے سے شکایات تھی ہی، لیکن اب رینجرز کو منتخب سندھ حکومت کی مرضی کے برعکس پولیسنگ کے خصوصی اختیارات دینے کے حوالے سے بھی شکایت پیدا ہوگئی ہے۔ اس شکایت کو اب ایک سال ہونے کو ہے۔ ہر تین ماہ بعد جب اختیارات کی میعاد میں توسیع کا معاملہ آتا ہے وفاق اور صوبائی حکومت میں اختلافات شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ روان ہفتہ بھی اخباری اداریے اور مضامین کا زیادہ تریہی موضوع رہا۔ 

اخبارات کے مطابق رینجرز کو کیا اور کتنے اختیارات ہونے چاہئیں یہ طے کرناسندھ حکومت حق ہے۔ اخبارات نے اس حوالے سے وفاقی وزیر داخلا چوہدری نثار علی خان کے بیانات اور رویے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس شبہ کا اظہار کیا ہے کہ یہ چوہدری صاحب کی اپنی خواہش یا مرضی ہے یا نواز شریف حکومت کی۔ 

 سندھ میں وزارت اعلیٰ کے منصب میں تبدیلی اور نئے وزیراعلیٰ سے وابستہ امیدیں بھی اخبارات کا موضوع رہا، جس میں مختلف اخبارات نے صوبے کے ابھرے ہوئے مسائل کی طرف نئے وزیر اعلیٰ کی توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ 

”چھوٹے صوبوں میں زیادہ لوڈ شیڈنگ کا اعتراف “کے عنوان سے” روزنامہ عبرت “لکھتا ہے کہ بجلی بلوں کی کم ادائیگی اور لائن لاسز کے بارے میں جاری کردہ تفصیلات میں پانی و بجلی ک وزارت نے اعتراف کیا ہے کہ وسطی پنجاب کے اضلاع میں بجلی کے بلوں کی کم ادائیگی اور ہیوی لاسز کے باوجود باقی تینوں صوبوں کی نسبت کم لوڈ شیڈنگ کی گئی۔ وزارت کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں 14گھنٹے، قبائلی علاقوں کی چھ ایجنسیوں میں 18گھنٹے ، حیسکو کے صار اضلاع میں 12 گھنٹے، سیپکو کے ایریا میں 16 گھنٹے، جبکہ بلوچستان کے اکثر ایریاز میں 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔

 ایک عرصے سے چھوٹے صوبوں میں محرومیاں پل رہی ہیں کہ وفاقی حکومت بڑے صوبے کے مقابلے میں ان پر کم توجہ دے رہی ہے۔ دوسرے صوبے اگرچہ اس حوالے سے شکایات کرتے رہے ہیں۔ جبکہ کے بلوچستان کے لوگوں نے باقاعدہ اس ضمن میں مزاحمتی عمل اختیار کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس صوبے میں بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی نقل و حرکت بھی مشکل بن گئی ہے۔ اگرچہ آج کل حالات میں امن ہے۔ کچھ عرصے سے کوئی ناخوشگوار خبر نہیں ملی ہے۔ لیکن کچھ عرصہ قبل جو خبریں آرہی تھیں وہ بڑے صوبے کے لئے یقیننا پریشانی کا باعث تھیں۔ 
سندھ میں بھی ایک بڑے حلقے کو شکایت ہے کہ وفاقجان جوبجھ کر یہاں کے عوام کو نظرانداز کر رہا ہے۔ جبکہ کچھ عرصے سے سندھ حکومت بھی وفاق سے ناراض نظر آتی ہے۔ انہیں شکایت ہے چھوٹے صوبوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جارہا ہے۔ پانی اور مالیاتی امور اپنی جگہ پر، بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر سندھ کے ذمہ داران نے پریس کانفرنس کے ذریعے وزیراعظم کے سامنے دھرنا دینے کی دھمکی بھی دی تھی۔ تب موجودہ وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ وفاق نہ مطلوبہ بجلی فراہم کر رہا ہے اور نہ سندھ میں پیدا ہونے والی بجلی خرید کرنے کے لئے تیار ہے۔ بلکہ وفاق نے سندھ میں پن بجلی بنانے پر پابندی عائد کردی ہے۔ 

اس احتجاج اور دھمکی کے بعد امید یہ کی جارہی تھی کہ وفاقی حکومت کا کوئی ذمہ دار نمائندہ یا وزیراعظم حکومت سندھ کی اس شکایت کا ازالہ کرے گا۔ لیکن تاحال ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے جس سے اندازہ ہو سکے کہ وفاقی حکومت نے سندھ کے شکوے کا نوٹس لیا ہے۔ حکومت سندھ اور میڈیا صوبے میں لوڈ شیڈنگ کے جو اعداد وشمار بتاتے رہے ہیں ان کو وفاقی وزیر ”مبالغہ“ قرار دے کر مسترد کرتے رہے ہیں۔ مگر اب پانی و بجلی کی وزارت نے خود اعتراف کیا ہے کہ سندھ سمیت تینوں چھوٹے صوبوں میں پنجاب کے مقابلے میں زیادہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔

 اب تینوں صوبوں کی حکومتوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ وفاق کے اس امتیازی رویے کے خلاف احتجاج کریں کہ یہ کس جرم میں بطور سزا انہیں کئی گھنٹے بجلی کے بغیر رکھا جارہا ہے۔ ہم اس پر اعتراض نہیں کہ وسطی پنجاب کے لوگوں کو لوڈشیڈنگ سے محفوظ رکھا جارہا ہے۔ لیکن یہ کہنے کا حق ضرور رکھتے ہیں کہ اگر بڑے صوبے کے عوام کو رلیف دیا جارہا ہے تو چھوٹ صوبوں کے عوام نے کیا قصور کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں موسمی سختی زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں ریکارڈ گرمی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ان لوگوں پر لوڈ شیڈنگ کا عذاب بڑھانا کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔ ایسا کرنے سے جو محرومیاں بڑہیں گی وہ نفرتوں کو جنم دیں گی۔ 

ہونا تو یہ چاہئے کہ جو علاقے زیادہ سختی میں ہیں یا جہاں لوگوں کی مالی حالت رہی نہیں کہ بھاری بل ادا کر سکیں ان کو رعایت دے کر ان کی زندگی آسان بنائی جائے۔ سندھ کو بھی آواز اٹھانی چاہئے کیونکہ وہ گیس خواہ مالیات میں دیگر صوبوں سے زیادہ حصہ دیتا ہے۔ اس لئے بھی یہاں کہ لوگوں کو حق بنتا ہے کہ انہیں دیگر سہولیات کے ساتھ بجلی کی بھی سہولت دی جائے۔ 

 روزنامہ عوامی آواز نے بحریہ ٹاﺅن کراچی کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو قابل تحسین قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے عدالت نے بحریہ ٹاﺅن میں تب تک کام بند کردیا جائے جب تک سندھ میں مکمل طور پر روینیو ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہیں ہو جاتا اور یہ معلوم نہیں ہو جاتا کہ کہ کونسی زمین سرکاری ملکیت ہے اور کونسی نجی ملکیت ہے۔ سپریم کورٹ نے 28 نومبر 2013 کو سندھ میں خاص طور پر کراچی ڈویزن میں سستے داموں زمین کی فروخت کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سرکاری زمین کی الاٹمنٹ پر پابندی عائد کردی تھی۔ 
یہ امر قدیمی باشندوں کے لئے یقیننا امید افزا تھا۔ کیونکہ زمین پر قبضے کی سوچ نے اصلی باشندوں کو اپنی ہی سر زمین پر اجنبی اور بینگانہ بنادیا تھا۔ 1948 کے بعد اس شہر کی زمین ، وسائل اور قدیم بستیوں پر قبضے اور قدیمی باشندوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے مختلف منصوبے بنتے رہے۔

 جب سپریم کورٹ نے پابندی لگائی تو قدیمی باشندوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اب شاید اپنی زمین سے بے زمین ہونے کی سازشیں ختم ہو جائیں گی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا توڑ یہ نکالا گیا کہ صوبائی حکومت نے دمبر 2013 میں ملیر اور لیاری ڈولپمنٹ اتھارٹیز کے 2002 میں منسوخ کئے گئے ایکٹ دوبارہ بحال کر دیئے۔ لہٰذا 2002 سے 2013 تک جو غیر قانونی الٹمنٹ کی گئی اس کو قانونی تحفظ دے دیا گیا۔ 

یہ ایکٹ بحال ہونے کے بعد بحریہ ٹاﺅن تعمیراتی منصوبے کے لئے ملیر کی 45 دیہوں میں الگ الگ موجود زمین یکمشت کر دی گئی تاکہ بحریہ ٹاﺅن کا تعمیری منصوبہ باآسانی مکمل ہو سکے۔ ویسے بحریہ ٹاﺅن کو 22 ہزار 156 ایکڑ پ زمین لاٹ کی گئی ہے لیکن علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ تعمیراتی کام 23 ہزار ایکر پر چل رہا ہے۔ جبکہ مزید 42 ہزار ایکڑ زمین بھی طلب کی گئی ہے۔ اس علاقے میں 45 سے زائد انسانی بستیاں ہیں، اور پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی کی چراگاہوں کے طور پر یہ کام آتا ہے۔ مزید یہ کہ نصف درج سے زائد برساتی نالے ان پہاڑوں سے نکل کر سمندر میں جا گرتے ہیں ۔ اس درمیانی علاقے میں یہ نالے زراعت اور پینے کے پانی کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس علاقے میں بعض تاریخی مقامات بھی واقع ہیں۔ 
سندھ حکومت کو چاہئے کہ ایسے اقدامات اٹھائے جن سے قدیم باشندوں ، ان کی املاک، چراگاہوں وغیرہ کے لئے تحفظ کا احساس ہو۔ 

نئی بات ۹ اگست 


سپريم ڪورٽ جو ساراهه جوڳو فيصلو


سپريم ڪورٽ جي ٻه رڪني بينج، سنڌ خاص ڪري ان جي راڄڌاني ڪراچيءَ جي زمينن جي الاٽمينٽ وارو ڪيس ٻڌندي بحريا ٽائون کي ان وقت تائين پنهنجو ڪم بند ڪرڻ جو حڪم ڏنو آهي، جيستائين سنڌ اندر مڪمل طور روينيو رڪارڊ ڪمپيوٽرائيزڊ نه ٿو ٿئي ۽ اها خبر نه ٿي پئي ته ڪهڙي ۽ ڪيتري زمين سرڪاري ملڪيت آهي ۽ ڪيتري خانگي.
سپريم ڪورٽ سنڌ خاص ڪري ڪراچيءَ ڊويزن اندر زمينن جي سستي اگهه تي غير قانوني الاٽمينٽ جو پاڻمرادو نوٽيس وٺندي 28 نومبر 2013ع تي سرڪاري زمينن جي الاٽمنيٽ تي پابندي  هڻي ڇڏي هئي، جيڪا يقيني طور ڌرتي ڌڻين لاءِ هڪ اتساههَ جي ڳالهه هئي، ڇو جو قبضي واري سوچ هن شهر کي ڌرتيءَ ڌڻين لاءِ اوپرو بنائڻ ۾ وسان ڪين گهٽايو آهي، 1948ع کان پوءِ هن شهر جي زمين تي وسيلن  تي ۽ قديم ڳوٺن تي قبضي جي ۽ ڌرتي ڌڻين کي اقليت ۾ تبديل ڪري هن شهر  تي ڀانت ڀانت جي ڪاٺيءَ جي دعوائن جو دڳ فراهم ڪرڻ لاءِ جيڪي سازشون ۽ منصوبابنديون ٿينديون رهيون آهن، سي ڪنهن کان ڳجهيون ڪونهن، سو سپريم ڪورٽ جڏهن زمينن جي الاٽمينٽ تي پابندي هنئي هئي ته ڪراچيءَ جي مقامي ماڻهن ان ڪري به سُک جو ساههُ کنيو هو ته هاڻي شايد پنهنجي ئي ڌرتيءَ تان سندن پاڙون پٽڻ لاءِ ٿيندڙ سازشون  ختم ٿينديون پر ايئن نه ٿيو.
سپريم ڪورٽ جي طرفان هنيل پابنديءَ جو توڙُ وري 19 ڊسمبر 2013ع تي سنڌ اسيمبليءَ مان ايڪٽ منظور ڪرائي ملير ۽ لياري ڊولپمينٽ اٿارٽين جا 2002ع ۾ ختم ٿيل ايڪٽ بحال ڪري ڪڍيو ويو، اهڙي طرح انهن جا 2002 کان 2013ع تائين جيڪي غير قانوني حيثيت وارا ڪم هئا، تن کي قانوني تحفظ ڏنو ويو، اهي ايڪٽ بحال ٿيڻ کانپوءِ بحريا ٽائون کي پنهنجي تعميراتي منصوبي لاءِ ملير جي 43 ديهن ۾ ڇڙوڇڙ زمين يڪمشت ڪري فراهم ڪئي وئي، ته جيئن ان جو تعميراتي منصوبو آسانيءَ سان شروع ۽ مڪمل ٿي سگهي.
چوندا آهن ته اُٺ تڏهن ٿي رڙيا جڏهن ٻورا ٿي سبيا، سو سنڌ جا ماڻهو، خاص ڪري ڪراچيءَ جا اصلوڪا رهاڪو اهڙن تعميراتي منصوبن خلاف اهو چوندي رڙندا پئي رهيا آهن، احتجاج ڪندا پئي رهيا آهن ته اهي منصوبا سندن گهرتڙ ۽ سنڌي ماڻهن جي ڪراچيءَ تي دعويٰ ۽ سڃاڻپ ختم ڪرڻ جي سازش آهن پر انهن جي انهن دانهن تي نه ته انهن ڌيان ڏنو آهي جيڪي ڌاريا آهن، نه ئي  انهن جيڪي چوڻ ۾  ته پنهنجا آهن ۽ پنهنجي هٿان ئي ووٽ ڏئي چونڊي اسيمبلين ۾ موڪليا ويا آهن.
سپريم ڪورٽ ۾ ڪالهوڪي ٻڌڻيءَ دوران نيب طرفان جيڪا رپورٽ پيش ڪئي وئي آهي، تنهن ۾ ته چيو ويو آهي ته بحريا ٽائون کي 22 هزار 156 ايڪڙ زمين الاٽ ڪئي وئي آهي، پر جنهن علائقي ۾ بحريا ٽائون وارو منصوبو اڏجي رهيو آهي، اتان جي وارثن ۽ ڌرتي ڌڻين جو چوڻ آهي ته ملير جي جن قديم ديهن ۾ بحريا ٽائون جي اڏاوت هلندڙ آهي اتي جي پکيڙ 23 هزار ايڪڙ آهي، جڏهن ته اڳتي لاءِ وڌيڪ 42 هزار ايڪڙديهه حدر واهه، ديهه لٺ ڪرمتاڻي ۽ پراڻي يونين ڪائونسل موندان جي ديهن ۾ گهري وئي آهي، 23 هزار ايڪڙ ايراضيءَ واري جنهن علائقي ۾ بحريا ٽائون جو منصوبو اڏجي رهيو  هو، سو علائقو جابلو علائقو آهي، جيڪو هڪ ته چراگاهن تي مشتمل آهي، ٻيو ته اتي 45 قديم ڳوٺ به آهن، انهن جبلن مان ٿڌو، ملير جرندو، لنگهجي، ٻوهاڙي، ڪرڪٽي، ميلو، ٻاڙو، برساتي نئيون ۽ ڍورا ڪاٺوڙ، ملير، گڏاپ ۽ ڀرپاسي کان وهي سمنڊ ۾ ڇوڙ ڪن ٿا، انهن واهڙن ڍورن ۽ نئين جي ڪري ئي ملير زرعي حوالي سان سرسبز ۽ شاداب آهي، بحريا ٽائون واري منصوبي تي جنهن تي تيزيءَ سان ڪم به هلي پيو سو هڪ ته هتان جا جبل تباههُ ڪندو، ٻيو هتان جي زراعت به ختم ٿي ويندي، ان سان گڏوگڏ هن جي حدن ۾ جيڪي قديم ۽ تاريخي ماڳ اچن ٿا، سي به مٽجي ويندا، پوءِ هن شهر ۾ سنڌين سان به اهڙو ئي حشر ٿيڻو آهي جهڙو فلسطين ۾ فلسطينين سان.
هئڻ ته ايئن گهرجي ته ڌرتيءَ ڌڻين جا جبل، زراعت، قديم ماڳ ۽ ايتري تائين جو سڃاڻپ به ميساري ڊاهڻ لاءِ ههڙن منصوبن لاءِ جنهن ڪوڙ، بدوڙ، جعلسازي ۽ هيرا ڦيريءَ ذريعي، داٻي ۽ دٻاءَ سان بندش باوجود زمين الاٽ ڪئي وئي، تنهن جو ازالو اهڙي جعلبازيءَ ۾ ملوث ڪردارن خلاف اثرائتي قانوني ڪارروائيءَ ذريعي ٿيڻ گهرجي، نه رڳو ايترو پر حڪومتي سطح خاص ڪري سنڌ سرڪار جي سطح تي اهڙن قدمن جي به ضرورت آهي، جنهن سان هن شهر جي قديم وسندين ۽ ماڳن کي خطرو محسوس نه ٿئي پر تحفظ جو احساس ٿئي، سپريم ڪورٽ جو فيصلو يقيني طور سنڌ جي ماڻهن، خاص ڪري ان علائقي واسين، جن جي زمينن جا کاتا ڦيرائي هي نئون شهر اڏيو ٿي ويو، تن لاءِ آٿت جو سبب ته بڻيو آهي پر اهي سُک جو ساههُ ان صورت ۾ ئي کڻي سگهن ٿا، جڏهن سندن زمين، زراعت، جبل ۽ قديم ماڳ ۽ وسندين جي تحفظ جو ڪو مستقل بندوبست ٿئي.

Tuesday, August 2, 2016

وزیراعلیٰ کی تبدیلی اور سندھی میڈیا : سندھ نامہ - سہیل سانگی


وزیراعلیٰ کی تبدیلی اور سندھی میڈیا
سندھ نامہ سہیل سانگی 
ہر شعبے میں انتظامی، نااہلیت، امن و امان، کرپشن کی مسلسل شکایات کے بعد صوبے میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کو تبدیل کردیا ہے ۔ ان کی جگہ پر جواں سال سید مراد علی شاہ کو یہ منصب سونپا گیا ہے۔ 

اکثر اخبارات نے سندھ میں معاملات خراب ہونے کے لئے سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو کم اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو زیادہ ذمہ دار ٹہرایا ہے۔ اخبارات میں شایع ہونے والے مضامین تجزیوں اور تبصروں کے مطابق شاہ صاحب کے پاس اختیارات نہیں تھے اور پردے کے پیچھے کچھ اور لوگ فیصلے کرتے تھے۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب تک پیپلز پارٹی کی قیادت حکمرانی کے حوالے سے اپنی روش تبدیل نہیں کرے گی تب تک نیا وزیراعلیٰ بھی وہی کرتا رہے گا جو سابق وزیراعلیٰ کرتے رہے۔ بلکہ بعض مبصرین نے سید قائم علی شاہ کو ان کے روش، سیاسی کردار ، پارٹی کے ساتھ طویل وفاداری، اور جدوجہد کو سراہا ہے اور 83 برس کی عمر میں بھی ان تھک محنت کرتے رہے۔ 

 روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ کسی بھی پارٹی کو نئے فیصلے کرنے کی ضرورت کارکردگی کی وجہ سے پڑتی ہے۔ ہمارے پاس اگرچہ ان تبدیلیوں کے لئے گرمجوشی کے ساتھ توقعات نہیں کی جاری لیکن پھر بھی عوام جو صرف امید رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا ، وہ اس تبدیلی سے بھی امیدیں وابستہ کرتا ہے۔ صوبہ جن متعدد مسائل کی لپیٹ میں ہے وہ نئے ویزراعلیٰ کے لئے بڑا چیلینج ہیں۔ ان کے حل کے لئے محنت، کردار، ارادے کی پختگی، برداشت، رواداری کی روش از حد ضروری ہے۔ پیپلزپارٹی خواہ دیگر جماعتویں وقتا فوقتا عوام سے جو وعدے کرتی رہی ہیں وہ نامکمل ہی رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ میں یہ تبدیلی حقیقی معنوں میں عوام کے لئے تبدیلی واقع ہوتی ہے یا نہیں۔ 

 روزنامہ عبرت نے ” نئے وزیر اعلیٰ کی ترجیحات“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سید مراد علی شاہ نے نامزدگی کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ امن و مان ان کی اولین ترجیح رہے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سول ادارے صحیح طریقے سے کام کریں تو دوسرے اداروں کو بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کے علاوہ انہوں نے صحت اور تعلیم کو بھی اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے اور کہا ہے کہ ان دو شعبوں یعنی صحت اور تعلیم میں ایمرجنسی نافذ کرنی پڑے گی۔ صحت اور تعلیم میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے عزم کو عوام میں مثبت قرار دیا جارہا ہے۔ 

 اخبار لکھتا ہے کہ اب لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے آئینی مدت حکمرانی کے باقی اٹارہ انیس ماہ کے دوران واقعی عوام کو کچھ ڈلیور کرے گی۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پارٹی کی حکمرانی کی باقی مدت کے دوران وہ اتنا کام کرنا چاہتے ہیں کہ نہ صرف سندھ میں بلکہ باقی صوبوں میں بھی ان کی کارکردگی مثال بن جائے۔ سید مراد علی شاہ نے جن نکات کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے، یہ وہ نکات ہیں جو معاشرے کو پستی سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر لے آتے ہیں۔ کوئی بھی خطہ چاہے کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو، اگر وہاں امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں، لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں، تو یہ ترقی کچھ زیادہ عرصہ چل نہیں پائے گی۔ اس کے لئے ہم دور کیوں جائیں، آج سے تین عشرے پہلے تک حیدرآباد ملک کا تیسرا بڑا شہر تھا۔ جہاں ملک بھر کے لوگ روزگار کے لئے آتے تھے۔ لیکن جیسے ہی لسانی جھگڑوں کی آگ کی لپیٹ میں آیا تو اب وہ ساتویں نمبر پر آگیا۔ بدامنی کسی بھی آباد علاقے کو برباد کرنے میں دیر نہیں کرتی۔ سندھ اگر ملک کے دیگر علاقوں سے ترقی کے معالے میں پیچھے رہ گیا ہے ، اس میں دیگر عوامل اپنی جگہ پر لیکن بدامنی سب سے بڑی وجہ سمجھی جاتی ہے۔ قبائلی اور برادریوں کے جھگڑے، کارو کاری کے واقعات، ڈاکے اور لوٹ مار ، انتہا پسندی، دہشتگردی وہ عوامل ہیں جنہوں نے خوشحال سندھ کو کنگال اور غریب بنادیا ہے۔ 
اگر مرادعلی شاہ کابینہ اس حوالے سے واقعی کچھ کرتی ہے تو یہ سندھ کے عوام پر بڑا احسان ہوگا۔ اس اس لئے بھی ضروری ہے کہ باتیں تو ہر کوئی آکر کرتا ہے ی لیکن عمل کرنا ہی اصل ضرورت ہے۔ 

 ہم صوبے میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اور عوام سے بھی توقع رکھتے یں کہ یہ دو اہم شعبے جن کا تعلق براہ راست عام آدمی سے ہے، اس میں حکومت سے تعاون کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان ترجیحات کو پورا کرنے کے لئے پیپلزپارٹی کی قیادت نئے وزیراعلیٰ کا ساتھ دے گی؟ اب تک سندھ حکومت کے معاملات میں جو مداخلت دیکھنے میں آئی ہے ، اس س کے پیش نظر یہ سب کچھ مشکل نظر آتا ہے۔ لیکن چونکہ دنیا امید پر قائم ہے۔ ہم بھی اسی طرح امیدوں کا دامن ہاتھوں میں لئے ہوئے انتظار کریں گے کہ پارٹی کی قیادت ان ترجیحات کو پورا کرنے کے لئے نئے صوبائی سربراہ کو فری ہینڈ دے گی۔ اس سے نہ صرف سندھ اور یہاں کے لوگوں کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی آئے گی بلکہ خود پیپلزپارٹی کی بھی نیک نامی ہوگی۔ 

 روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ بلاشبہ چینی اقتصادی راہداری منصوبے کی مد میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملک کے لئے بہت بڑی اقتصادی امداد ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ متنازع بنا ہوا ہے۔ اس ضمن میں مختلف وقت میں آوازیں اٹھتی رہی ہیں کہ وفاقی حکومت نے تاحال اس منصوبے کے اہم فیچرز عوام خواہ صوبائی حکومتوں کے سامنے ظاہر نہیں کئے ہیں۔ بدھ کے روز سنیٹ میں جب اس منصوبے کے ارے میں بحث ہو رہی تھی تو تین صوبوں کے سنیٹرز ایک طرف تھے اور پنجاب کے سنیٹرز دوسری طرف تھے۔ بحث میں اتنی تلخی آگئی کہ تینوں چھوٹے صوبوں کے نمائندگان کو کہنا پڑا کہ” راہداری منصوبہ دھوکہ ہے۔ وزیراعظم نے اگر خدشات دور نہیں کئے تو وفاق کو خطرہ درپیش ہوگا۔“ 

 کسی بھی وفاقی نظام میں اس طرح کی دوریاں اچھی علامت نہیں ہوتی۔ اگر چار بھائیوں میں تین بھائی ایک طرف ہوں اور اپنے ساتھ ناانصافی کی شکایت کر رہے ہوں، ایسے میں بڑے بھائی کو ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ شکایات اور تحفظات دور کرنے چاہئیں۔ اگر یہ پورے ملک کا منصوبہ ہے، جیسا کہ کہا جا رہا ہے، تودوسرے صوبو ں کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ اس منصوبے کی صحت کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کریں۔ 
 جب سے راہداری منصوبہ شروع ہوا ہے، وفاقی حکومت اس کے کئی فیچرز اور معلومات صوبوں کو بتانے سے گریز کرتی رہی ہے۔ ہم سمجھت ہیں کہ راہداری منصوبہ اس ملک کا نہایت ہی اہم منصوبہ ہے۔ لیکن مرکزی حکومت کے رویہ کی وجہ سے متنازع بن رہا ہے۔ جس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اس منصوبے میں جو مبہم امور ہیں ان کے بارے میں صوبوں کو آگاہی دی جانی چاہئے۔ اگر 
صوبوں کو اس طرح کی شکایات رہیں تو وفاق کے مفاد میں نہیں

http://naibaat.com.pk/ePaper/lahore/30-07-2016/details.aspx?id=p13_03.jpg


Friday, July 15, 2016

تیزبارش کی پیش گوئی اور سندھ



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ سہیل سانگی 
رواں ہفتہ اخبارات نے نامور انسان دوست اور بے لوث خدمت گار عبدالستار ایدھی کی زندگی کے مخلتف پہلوﺅں پر اداریے، کالم اور مضامین شایع کر کے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ بلاشبہ ایدھی صاحب بہت بڑے آدمی تھے۔ اخبارات نے ان کو اسی حساب سے اپنے کالموں میں جگہ دی۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ 
اخبارات نے سیاسی حوالے سے وزیراعظم کی وطن واپسی، پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے کمیشن کے ٹی او آرز کی تیاری میں ڈیڈ لاک ، الیکشن کمیشن کے اراکین کی تقرر کے معاملات پر بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
 سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے اویس شاہ ابھی تک اغواکاروں کے قبضے میں ہیں۔ اس حوالے سے مختلف تبصرے کئے جارہے ہیں۔ ایک اور اہم واقعہ یہ رونما ہوا ہے کہ سندھ کے وزیر داخلہ انور سیال کے بھائی طارق سیال نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے کہ انہیں رینجرز اور پولیس سے تحفظ دیا جائے۔ 
سندھ حکومت وفاقی حکومت سے مسلسل ناراضگی کا اظہار کرتی رہی ہے۔ گزشتہ دنوں حیدرآباد سمیت صوبے کے بعض شہروں میں پیپلزپارٹی نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔ یہاں تک کہ حیدرآباد کے قریب کئی گھنٹوں تک ہائی وے بھی بلاک کیا گیا۔ 

دوسرا اہم معاملہ امکانی سیلاب اور تیز بارشوں کا ہے جس کو اخبارات نے موضوع بحث بنایا ہے۔ سندھ کے تمام اخبارات نے امکانی سیلاب اور مون سون کی تیز بارشوں کی پیش گوئی پر اداریے لکھے ہیں۔ اور حکومت پر سخت تنقید کی ہے کہ سیلاب یا تیز بارشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی امکانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئی عملی تیاری نہیں کی گئی ہے۔ اخبارات کا خیال ہے کہ یہ عمل صرف سال میں ایک بار دیکھنے کا نہیں بلکہ پورا سال اس پر نظر رکھنے اور اس کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے۔روزنامہ عوامی آواز ، سندھ ایکسپریس اور روزنامہ عبرت نے اس موضوع پر اداریے لکھے ہیں کہ حکومت صرف اس وقت ایکشن میں آتی ہے جب ہنگامی صورتحال شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ جبکہ ہنگامی صورتحال سے بچنے کے لئے جن پیشگی اقدامات کی ضرورت ہے اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ 

 روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ ایک طرف محکمہ موسمیات سندھ کے مختلف حصوں میں تیزبارشیں ہونے کی پیش گوئی کر رہا ہے۔ دوسری طرف حفاظتی پشتوں کی صحیح مرمت نہ ہونے اور بعض کینال میں شگاف پڑنے پر وزیراعلیٰ سندھ نے سیکریٹری آبپاشی سے جواب طلب کیا ہے کہ ابھی دریاءمیں نچلے درجے کا سیلاب ہے اتنی رقومات خرچ کرنے کے باوجود اس وقت بھی اگر شگاف پڑ رہے ہیں۔ سندھ میں دریائی پشتوں کی بجٹ ہی نہیں بلکہ مونسون میں تمام پشتوں کی مرمت اور مضبوطی کے لئے مختص کی گئی رقم آبپاشی کے اہلکار ہضم کر جاتے ہیں۔ اس سے متعلق خبریں وقتا فوقتا اخباری صفحات پر شایع ہوتی رہی ہیں۔ 
بینظیر آباد ضلع میں ایس ایم بند کے پشتوں کو پانی کاٹ رہا ہے یہی صورتحال حیدرآباد میں لطیف آباد کے قریب واقع بند کی ہے جہاں
 60 فٹ تک دریائی پشتہ پانی کی نذر ہو گیا ہے۔ اونے درجے کے سیلاب اور تیز بارشیں ابھی آنی باقی ہیں۔ لیکن بدانتظامی ابھی سے کھل کر سامنے آگئی ہے۔ 
محکمہ آبپاشی کی سالانہ رپورٹ ہر مرتبہ قادرپور لوپ بند، شینک بند، الرا جاگیر بند، اور دیگر پشتوں کے مزور ہونے کی بات کرتی ہے۔ محکمہ آبپاشی کے لئے پانی کی قلت کے دن بھی بہت سنہری ہوتے ہیں۔ تو پانی میں اضافے کے بھی۔ پانی کی قلت کے دنوں میں غیر منصفانہ تقسیم کے ذریعے چھوٹے زمینداروں اور کاشتکاروں کی فصلیں تباہ کی جاتی ہیں اور منظور نظر زمینداروں کی زمینیں اور فصلیں سر سبز و شاداب رہتی ہیں۔ 

 سندھ میں محکمہ آبپاشی کی کارکردگی اتنی مثالی ہے کہ پانی کی قلت ہو یا سیلاب زراعت سے وابستہ طبقہ پریشان ہی رہتا ہے۔ محکمہ موسمیات کی تیز بارشوں کی پیش گوئی کے بعد زراعت سے وابستہ لوگ ہی نہیں بلکہ دیہی خواہ شہری علاقوں میں آباد لوگ خوف میں مبتلا ہیں۔ 
اس خوف کی صورتحال کو کم کرنے کے لئے ویزراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے دو اہم شکایات کی ہیں۔ اول یہ کہ وفاق دریا کے حفاظتی پشتوں کی مرمت اور مضبوطی میں مدد نہیں کر رہا ہے جبکہ یہ کام بنیادی طور پر وفاقی حکومت کا ہے۔ دوسرے یہ کہ محکمہ موسمیات کی تیز بارشوں کی پیش گوئی کے پیچھے حکومت سندھ دوڑ دوڑ لگا کر تھک گئی ہے ۔ سندھ کے دریائی علاقے میں بارش کی بوند بھی نہیں پڑی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ حفاظتی پشتوں پر کام ہو رہا ہے۔

اگر زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو نکاسی آب سے لیکر بجلی کی فراہمی تک تمام نظام معطدرہم برہم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی رویت ہے جس کو آج تک توڑا نہیں جاسکا ہے۔ عوام بلدیاتی اداروں سے لیکر محکمہ صحت تک کی بد انتظامی کی ان رویات سے خوفزدہ ہے۔ دنیا بھرمیں بارشیں رحمت سمجھی جاتی ہیں۔ اور لوگ ان بارشوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کے دیہی علاقے ہوں یا شہری علاقے بارشوں کا پورا موسم خوف کے عالم میں گزارتے ہیں۔ 

یہ درست ہے کہ کسی امکانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اجلاس بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان اجلاسوں کے نتائج عوام تک تب پہنچ سکیں گے جب شگاف پڑنے بند ہونگے، شہروں کی سڑکوں پر کئی ہفتے تک پانی کھڑا نہیں ہوگا۔ بحالیات اور صحت کے محکمے بھی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ بہتر کارکردگی باتوں سے زیادہ عملی شکل میں نظر آئے۔


http://naibaat.com.pk/ePaper/lahore/16-07-2016/details.aspx?id=p13_11.jpg
http://naibaat.com.pk/Pre/lahore/Page13.aspx