Tuesday, March 29, 2016

سندھ ایم آرڈی تحریک کے بعد


سندھ ایم آرڈی تحریک کے بعد
سہیل سانگی
ارتقا لیکچر فائنل
یہ امر میرے لئے باعث افتخار ہے کہ ارتقا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز حمزہ علوی فاﺅنڈیشن، اور دیگر ساتھیوں نے یہ موقعہ فراہم کیا کہ میں ملک میں ترقی پسندی اور روشن خیالی فکر کی وکالتو جدوجہد کرنے اور اس کو پھیلانے والے دوستوں سے مکالمہ کر سکوں۔ اپنا تجربہ اور مشاہدہ بیان کر سکوں۔

 اپنی بات کا آغاز کرنے سے قبل یہ واضح کر دیان ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا یہ مکالمہ شاید باقاعدہ تحقیقی مقالہ کے زمرے میں نہ آ ئے ۔ اس کا زیادہ تر حصہ میرے تجربہ، مشاہدہ پر مشتمل ہے۔ میری سایست اور بائیں بازو کی وابستگی 1967 - 68 سے رہی ہے۔ لہٰذا اس تمام دور کے واقعات کا گواہ بھی ہوں اور شریک سفر بھی۔

 سندھ میں تین بڑی تحریکیں اٹھیں جنہوں نے صوبے کی سیاسی ڈئنامکس کو تبدیل کیا۔یہ تبدیلی منفی اور مثبت دونوں طرح کی تھی۔ پہلی سندھ کی بمبئی سے علحدگی کی تحریک تھی۔ یہ تحریک جو بظاہر سندھ کو صوبے کی حیثیت دینے کے لئے تھی۔لیکن اس کا عوامی پہلو یہ بھی تھا کہ سندھ کا کھویا ہوا تشخص بحال ہو جو برطانوی راج نے 1843 میں ختم کیا تھا۔لیکن اس کے پیچھے یہ عوامل بھی شامل تھے کہ سندھ کے بمبئی سے الحاق کی وجہ سے یہاں کا الیٹ کلاس یعنی زمیندارطبقہ، خود کو اقتدار اور اختیار میں شامل نہیں سمجھ رہا تھا۔ جس حد تک شامل بھی تھا تو وہ اس کے لئے ناکافی تھا۔ یاد رہے کہ یہ تحریک صرف بالائی طبقے تک ہی چلی تھی۔

 سندھ کو صوبے کی حیثیت مل گئی۔ اس کے ابھی اثرات اور ثمرات پورے طور پر پہنچے ہی نہیں تھے کہ برصغیر میں تحریک آزادی نے زور پکڑا۔ یوں یہ خواب چند سال تک ہی چلا ۔ برصغیر کی تقسیم ہوگئی۔تقسیم کے نتیجے میںبھارت سے آنے والے لاکھوں مسلمان سندھ میں ہی آکر آباد ہوئے۔ لہٰذا سندھ کا تشخص اس نقل مکانی اور پاکستان کی نوکرشاہی نے مزید عرصے تک چلنے نہیں دیا۔

 سندھ سے کراچی کی علحدگی
 دوسری تحریک ون یونٹ کے خلاف اٹھی۔ 1956 میںبنگالیوں کی اکثریت ختم کرنے کے لئے مغربی حصے کو ایک یونٹ بنایا گیا۔ اس کے نتیجے میں دوسرے صوبوں کی طرح سندھ بھی اپنا الگ تشخص کھو بیٹھا۔ ون یونٹ کی مخالفت پہلے دن سے ہی شروع ہو گئی تھی لیکن اس تحریک نے ساٹھ کے عشرے کے آخری برسوں میں زور پکڑا۔ جب ایوب خان کے خلاف ملک بھر میں ابال آرہا تھا۔ ۔ اس تحریک میں سندھ کے متوسط طبقے نے حصہ لیا ۔ جس میں شعرائ، ادیب اور طالبعلم شامل تھے۔ قیام پاکستان اور سندھ سے ہندو آبادی کی نقل مکانی کے بعد شعراءاور ادیب وغیرہ مقامی لوگوں کا متوسط طبقہ بن گئے ۔شعراءادیب اس لئے بھی شامل ہوگئے تھے کہ ایوب خان نے سندھی زبان سے وہ رتبہ چھین لیا جو اسے برطانوی راج میں حاصل تھا۔بنگالی زبان کا اشو ابھی تازہ ہی تھا۔ یوںذریعہ تعلیم اور دفتری زبان کے معاملات ایجنڈا پر آگئے۔ اس تحریک نے اگرچہ سندھ بھر کے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر کٹھا کیا، پھر بھی یہ تحریک متوسط طبقے تک محدود رہی۔ اور متوسط طبقہ سیاسی طور پر اہمیت اختیار کر گیا۔ اس کی وجہ سے سندھ میں ایک نوجوان کارکن ،ادیب اور شاعر کی حیثیت اور اہمیت وڈیرے سے زیادہ ہوگئی۔ اس کا عکس سماج میں مختلف مواقع پر نظر بھی آنے لگا۔ لیفٹ بھی نظر آنے لگا۔ کسانوں اور مزدوروں کی تحریکیں بھی اٹھنے لگیں۔ ان کی سرگرمی بھی نظر آنے لگی۔ سندھ میں ریڈیکلائزیشن بڑا۔ سوشلزم کا نعرہ نوجوانوں اور سیاسی کراکنوں میںایک مقبول نعرے کے طور پر ابھرا۔
لگ بھگ یہ صورتحال ملک بھر میں تھی۔ لیکن سندھ میں طلبہ، کسان اور مزدور زیادہ متحرک دکھائی دیئے۔ اس ساٹھ کے عشرے ن میں لیفٹ تحریک چین نواز اور ماسکو نواز کی بنیادوں پر دو ھصوں میں بٹ گئی۔

ون یونٹ ٹوٹاا اور اس کے کچھ عرصے بعد جب سندھ اسمبلی بنی تو سندھ کے اندرونی علاقے آئے ہوئے لوگ اور کراچی کے لوگ ایک دوسرے کے لئے اجنبی تھے اور عجیب محسوس ہونے لگے۔

 اس تحریک سے سیاسی ڈائنامکس تبدیل ہوا کہ پیپلزپارٹی وجود میں آئی۔ اس پارٹی نے نہ صرف اس نعرے کو بلکہ متحرک طبقات کو اپنی طرف کھینچا۔ اور اس پوری صورتحال کو کیش کیا۔ کمیونسٹ تحریک پر ایک تنقید یہ بھی ہے کہ اس نے اس نے اس بدلتی ہوئی صورتحال کا ادراک نہیں کیا۔براہ راست سوشلزم کا نعرہ دینے اور تنظیم کو اس طرف لے جانے کے بجائے اور خود کو قوم پرستوں سے بھی زیادہ قوم پرست ثابت کرنے کی کوشش کی۔ لہٰذا صرف نعرہ ہی نہیں بلکہ اسپیس اور کیڈر پیپلزپارٹی بہا لے گئی۔

بھٹو اپنی کرشماتی شخصیت، وسائل اور عملیت کی وجہ سے یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ متوسط طبقے کے ان مطالبات کو عملی طور پر ایڈریس کر سکتے ہیں ۔ بنگال میں فوجی کارروائی کے دوران صورتحال یہ تھی سندھ کی قوم پرست نہ موثر موقف اختیار کر سکے اور نہ ہی اسکا اظہار کر سکے۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ شاید وہ اسٹبلشمنٹ کے پورے کھیل کو سمجھ بھی نہیں پا رہے تھے۔ ڈر کے عنصر کے ساتھ ساتھ یہ بھی عنصر موجود تھا کہ کیا واقعی بنگالیوں کی تحریک آزادی کامیاب ہو سکے گی؟ ۔سندھ سے نحیف سی آواز صرف اگر اٹھ رہی تھی تو وہ کمیونسٹوں کی تھی۔

 بھٹو کی پیپلزپارٹی:
اپنے پورے دور حکومت میں بھٹو اور قوم پرست دو الگ انتہائیں رہیں۔لیکن بھٹو نے متوسط طبقے اور اس کے مطالبات کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی۔ تعلیم، ملازمتیں، دیہی علاقوں میں سہولیات، زبان اور ثقافت کے اشوز کو یا بڑی حدتک حل کیا یا پھر ڈی فیوز کیا۔ یوں سندھ میں قوم پرست اور لیفٹ کی تحریک جن بنیادوں پر کھڑی تھی اس کو بھٹو نے کمزور کردیا۔ لوگ بھٹو کو اپنے ساتھ کھڑا ہوا محسوس کر رہے تھے ۔ خود کو عوامی رنگ دینے کی کوشش کی۔
 جب 1973 کا آئین بنا تو جی ایم سید نے پارلیمانی سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا اور سندھو دیش کا نعرہ لگایا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اپسکتان کے ملکی ڈھانچے میں سندھ کو حقوق کا تحفظ ممکن نہیں ۔ لیکن بھٹو کی پالیسیوں کی وجہ سے یہ نعرہ بعض فکری حلقوں سے ہٹ کرعوامی سطح پر مقبولیت نہیں حاصل کر سکا ۔

 بھٹو کے نئے پاکستان کی بنیاد سندھ اور پنجاب کے اتحاد پر تھی۔ جس سے پنجاب اور۔ مہاجر اتحاد جو قیام پاکستان کے بعد قائم ہوا تھا، ٹوٹ گیا۔

ٓٓٓٓ ٓٓبھٹو دور میں پاکستان کی سیاست میں سندھ کا شیئر یا کلیم شروع ہوا۔ سندھ میں ٹپیکل پنجاب مخالف سیاست تھی اس میں بھٹو پل بنایا۔

 پاکستان قومی اتحاد کی تحریک
یہ سب معاملہ پاکستان قومی اتحاد کی نو ستاروں والی تحریک تک چلتا رہا۔ مسلم ممالک کو کٹھا کرنے، جوہری پروگرام اور مستقبل میں خطے میں پیدا ہونے والی صورتحال جو بعد میں افغان اشو ، ایران ی انقلاب کی شکل میںسامنے آئی۔ان کی وجہ سے امریکہ اورپاکستانی اسٹبلشمنٹ بھٹوکو رکاووٹ سمجھ رہے تھے۔ وہ اسلام آباد میں تبدیلی لانا چاہتے تھے۔اور انہوں پی این اے تحریک کے ذریعے یہ کیا۔ پی این اے اور بھٹو کے درمیان کامیاب مذاکرات کے باوجود ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور ضیاءالحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔ جو اگلے دس سال تک رہا۔

 پاکستان بننے میں سندھ آگے آگے رہا لیکن پاکستان بننے کے بعد وسائل، اختیار، اقتدار، ملازمتوں اور نئے ملک کے دیگر ثمرات میں میں حصہ نہ ملنے کی وجہ سے سندھ ڈپریشن میں چلاگیا۔ بھٹو نے لوگوں کو اس سے نکالا۔ زرعی اصلاحات ، شگر ملیں، کوٹہ سسٹم ، اسوقت سندھ کے دیہی علاقوں کو فائدہ پہنچا۔ سندھ کے لوگوں کو بظاہر بھٹو کی دوسری کسی تحریک سے اختلاف نہیں ہوا۔ اس کے اثرات پی این اے کی تحریک میں بھی نظر آئے۔ ان چیزوں نے سندھ کے عوام کا بھٹو کے ساتھ بانڈ مضبوط کیا۔

 بھٹو کا تعلق سندھ سے تھا اور بھٹو نے بڑی حد تک سندھ کے متوسط طبقے کو اکموڈیٹ کیا تھا۔ سندھ کے لوگوں کو اقتدار میں شمولیت کا احساس دلایا تھا۔قیام پاکستان کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ سندھ کے لوگوں میں حاکمیت کا احساس پیدا ہوا۔ اس لئے بھٹو کو ہٹانے سے سندھ کے لوگوں کولگا کہ ان سے کچھ چھن گیا ہے۔

بھٹو کو پھانسی کو سزائے موت سنانے کے بعد اور اس سزا پر عمل درآمد پر سندھ بھر میں احتجاج ہوتا رہا۔ یہ احتجاج کارکنان اپنی سطح پر اور اپنے طور پر کر ہے تھے۔ سوائے شروع کے چند ماہ کے جب بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو دورے کر رہی تھیں۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی کی درمیانی قیادت غائب تھی۔

 ایم آرڈی تحریک
تیسری تحریک ایم آرڈی کی تھی جو جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا کے خلاف چلائی گئی۔ ایم آرڈی کی اپیل ملک بھر میں تحریک چلانے کی تھی۔ لیکن اس نے صرف سندھ میں ہی زور پکڑا۔ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ اس تحریک نے سندھ کے ہر گھر کو متاثر کیا۔ اسکول کی عمر کے بچے بھی گرفتار ہوئے۔ اس تحریک میں سندھ کی مذہبی، سیاسی اور بائیں بازو کی سب جماعتیں شامل تھیں ماسوائے جماعت اسلامی اور پیر پاگارا کے۔ یہ صحیح ہے کہ سائیں جی ایم سید اس تحریک کے حق میں نہیں تھے۔ لیکن قوم پرست کارکن بڑی تعداد میں اس تحریک کا حصہ بنے۔

 ہر پارٹی جو سندھ میں وجود رکھتی تھی اس کو ایم آرڈی تحریک میں حصہ لینا پڑا۔ جے یو آئی ، پلیجو کی عوامی تحریک، ل کمیونسٹ پارٹی ۔ لیفٹ کے دیگر چھوٹے گروپ، قوم پرستوں کے مختلف حلقے اس تحریک کا متحرک حصہ رہے۔ سند ھ میں یہ گلی گلی کی لڑائی یا حتجاج تھا۔ لوگوں نے سکرنڈ ،خیرپور ناتھن شاہ، میہڑ میںفوج سے ٹکر کھائی۔ یہ لوگ مسلح نہیں تھے۔ نہتے تھے۔اسکول اور کالج کے بچوں تک نے قید اور کوڑوں کی سزائیں کھائی۔درجنوں کی تعداد میں خواتین کو گرفتار کیا گیا۔

غلام مصطفیٰ جتوئی خاندان کی خواتین پہلی مرتبی باہر نکلیں۔ مختلف جماعتون اور گروہوں کے سیاسی کارکنوں کے آپس میں اور ایک دوسرے کی قیادت سے رابطے اور تعلق بڑھے۔ ریڈکلائزیشن بڑھی۔ جیل تربیت گاہیں بن گئیں۔ اس سے اشرافیہ اور خود تحریک چلانے والے بھی ڈر گئے کہ تحریک اب ان کے ہاتھوں سے نکل رہی ہے۔ اور عوام کے ہاتھوں میں جارہی ہے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی جو اس تحریک کے روح رواں بنے تھے وہ سینٹرل جیل کراچی کے ریسٹ ہاﺅس میں نظر بند تھے۔ جہاں ان کے مارشل لا ءحکام سے مذاکرات چل رہے تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو سینٹرل جیل میں قید تھیں انہیں کان میں تکلیف تھی۔ اچانک غلام مصطفیٰ جتوئی کا بیان آیا کہ” ماضی کی تلخیوں کو بھلا دو“۔یہ تحریک کے خاتمے کا اعلان تھا۔ اور وہ بیرون ملک چلے گئے۔ چند روز بعد محترمہ بھی علاج کے لئے بیرون ملک چلی گئی۔

 خطرے کی گھنٹی
ضیا کو یہی خوف رہا کہ اگر کچھ ردعمل سندھ ہی سے آنا ہے۔ سندھ کے لوگوں میں اینٹی اسٹبلشمنٹ سوچ آ گئی ہے۔ جب اس اظہار کا ایم آرڈی کی تحریک میں بھرپور اظہار ہوا۔ اسٹبلشمنٹ کو خطرے کی گھنٹی محسوس ہوئی۔ سندھ میں جس نچلی سطح پر سیاست، ایکٹوازم اور ریڈیکلائزیشن ہوئی تھی اس کو توڑنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اور اس کے لئے ایک سے زائد طریقے اختیار کئے گئے۔
ایم آرڈی کی تحریک کے فورا بعد سندھ میں ڈاکو فیکٹر نمودار ہوا۔مارشل لا کے ہوتے ہوئے ڈاکو فیکٹر کا بڑھنا تعجب خیز تھا۔ اس کو ایم آرڈی تحریک سے جوڑنے کی بھی کوشش کی جاتی رہی۔ بعض قوم پرست گروپوں میں اسلح متعارف ہوا۔ اس فیکٹر بعد میں ڈاکو کے نام پر آپریشن کیا گیا، ادیبوں دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔قانون نافذ کرنے والے لوگوں کے گھروں میں ڈاکو کے نام پر گھس جاتے تھے۔

یہ آپریشن اس وجہ سے بھی ضروری بن گیا کہ جس کی بھی کچے میں زمین تھی وہ حکومت کے ساتھ ہوا۔ ان میں نوشہروفیروز اور دادو کے جتوئی، شکارپور اورگھوٹکی کے مہر اور دیگر لوگ شامل تھے ۔مارشل لاءسے ان کے سیاسی اور معاشی مفادات تھے۔

 مذہبیت
 ضیا دور کے اسلامائیزیشن کے اثرات اس حد تک ہوا کہ سندھ میں پہلی بار منظم طریقے سے مدرسے کھلنا شروع ہوئے۔ اس کے اظہار کے طور پر سندھ یونیورسٹی جو اس سر زمین کی سیاست ، فکر اور سوچ کا س سرچشمہ سمجھی جاتی تھی وہاں باب الاسلام کے نام سے ٹاور بنایا گیا۔
 جے یو پی کا بریلوی مکتب فکر سے تعلق ہونے کی وجہسے سندھ میں صوفی کلچر کی موجود گی فکری حوالے سے گنجائش بنتی تھی۔ لیکن اس جماعت نے خود کو ووٹ کی سیاست کی وجہ سے صوبے کے دو بڑے شہروں تک محدودرکھا۔لہٰذا سندھ کی مقامی اور دیہی آبادی اس سے دور رہی۔ 80 کے عشرے میں اسکو سیاسی لحاظ سے ایم کیو ایم نے اور مذہبی حوالے سے دیوبندی مکتب فکر کے نام سے کام کرنے والی گرپوں نے replace کردیا۔

جماعت اسلامی مذہبی جماعت ہونے کے باوجود صوبے کے دو بڑے شہروں میں ہی کام کر رہی تھی اسکا محور بھی ہر پنجاب بیسڈ پارٹی کی طرح سندھ کے شہر تھے، جہاں پر بھارت سے منتقل ہو کر پاکستان میں آباد ہونے والے لوگ تھے۔ اس وجہ سے اس کی شناخت بھی مذہبی اور مہاجر وں کی پارٹی کی طرح رہی۔ اس بات نے جماعت اسلامی کو اندرون سندھ اپنی تنظیم کاری میں دقت پیش آئی۔ جماعت کو بھی جے یو پی کی طرح کے مسائل پیش آئے۔

سندھ مذہبی اور عقیدے کے حوالے سے رواداری کی سرزمین رہی ہے جسے انتہاپسندی نہ ہونے کی وجہ سے صوفیوں کی دھرتی کا نام دیا جاتا ہے۔ سندھ کی صرف اتنی ہی خصوصیات نہیں۔ سندھ میں پچاس کے عشرے میں جو بڑے پیمانے پر بٹئی تحریک، الاٹی تحریک اور سندھ ٹیننسی ایکٹ کی تحریکیں چلیں اور کامیابیاں حاصل کیں ۔ اس ہاری تحریک کے رہنماﺅں کامریڈ نذیر جتوئی، عزیزاللہ جروار، کامریڈ رمضان شیخ، مولانا ہالیجوی ، مولانا عبدالحق ربانی اور دیگرحضرات دیوبند کے سند یافتہ علماء تھے اور سرخے مولوی کہلانے والے یہ حضرات ہمیشہ ترقی پسند اور تحریک کا حصہ اور قوم پرست تحریک کے حامی رہے۔ کھڈہ مدرسہ کراچی کے علماءکا اس حوالے سے خاص کردار رہا ۔

بعد میںپرانے علماءکی یہ کھیپ مر کھپ گئی۔ جمیعت علمائے اسلام جو دراصل جمیعت علمائے ہند کا حصہ تھی اس نے خود کو اپنے بنیادی فکر سے دور کیا۔ ضیاءالحق نے افغان جنگ کے حوالے سے اس مکتب فکر کو استعمال کیا۔ اور اس طرح کی انتہا پسندی کی لائین اختیار کی کہ ان کا ایک دھڑا آگے چل کر مولانا سمیع الحق کی قیادت میں طلباءکا ”باوا“ بنا۔

جے یو آئی کی قیادت پر سیکولر اثرات کم ہوتے گئے۔ کھڈہ کراچی کے روشن خیال اور رواداری رکھنے والے علماءنے علحدگی نے جے یو آئی سے علحدگی اختیار کر لی۔ پرانے فکر کے لوگ مر کھپ گئے۔ اب نئے مدرسوں سے قیادت آرہی تھی۔ الازہریونیورسٹی سے فارغ التحصیل ان کی جگہ لے رہے تھے۔اب ان کو ریشمی رومال تحریک یاد نہیں۔ سمیع الحق، افغان جنگ میں جے یو آئی فریق بنی۔

پاگار ا فیکٹر
 سندھ میں ساٹھ کے عشرے تک جوسیاسی رجحانات پروان چڑھ رہے تھے۔ان میں ایک بھٹو فیکٹر، دوسرا جی ایم سید کی قوم پرستی اور تیسری لیفٹ کی سوچ تھی۔ اس وقت پیر پاگارا کسی حساب میں ہی نہیں تھے ۔ 1970 کے انتخابات میں بھی پیرپاگارا کی سیاسی طور پر یہی صورتحال رہی۔ مستقبل میں صورتحال کچھ یوں بن رہی تھی کہ پیپلزپارٹی، قوم پرست اور ترقی پسند ایک دوسرے کے compititors بن رہے تھے یا سیاسی جوڑ توڑ میں ایک دوسرے کے اتحادی یا مخالف بن رہے تھے ۔ 70 کے بعد پیر پاگارا سے اسٹبلشمنٹ کی انڈر اسٹینڈنگ بنی۔ بھٹو کو جی ایم سید نے ری پلیس نہیں کیا بلکہ پاگارا نے کیا۔ہم دیکھتے ہیں کہ بھٹو کے خلاف بننے والے اتحاد پی این اے میں بھی پیر پاگارا کوابتدائی طور پر سرکردہ کردار دیا گیا۔ آگے چل کرپیر پاگارا کے کہنے پر جنرل ضیا نے محمد خان جونیجو کووزیر اعظم بنایا گیا۔ سندھ میں بھٹو کے بعد پاگارا کو بڑا لیڈر یا نمائندہ بنانے کی کوشش کی گئی۔

ایم رڈی کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے نئی سیاسی حکمت عملی بنائی گئی۔ ڈی فیوز کرنے کے لئے غیر سیاسی جماعتی انتخابات کرائے۔ کچھ وڈیرے پارٹی چھوڑ کر چلے گئے۔۔ پیپلزپارٹی نے غیرجماعتی انتخابات کا بائکات کیا، جس کا نقصان ہوا اس کا اعتراف خود بینظیر نے بھی کیا کہ بائکاٹ کر کے غلطی کی ہے۔ جنرل ضیاء نے ان کو اپنے ساتھ جوڑے کھنے کے لئے ملازمتوں کی کوٹہ اور ترقیاتی فنڈز دیئے گئے۔ یوں سرکاری سطح پر اور بڑے پیمانے پر سیاست میں کرپشن کا آغاز کھلے عام ہو گیا۔

اسکے اثرات یہ ہوئے کہ آگے چل کر بینظیر سمیت بعد میں آنے والی تمام حکومتوں کو کو بھی اس پالیسی کو جاری رکھنا پڑا۔

 غیر جماعتی انتخابات اوراشرافیہ کی نئی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے یہاں سے نئے پاور بروکرز متعارف ہوئے۔

جونیجو دور میں اسکول کھلے، ملازمتیں ملیں۔ترقیاتی کام بھی ہوئے۔زیادہ تر ترقیاتی کام نچلی سطح پر کرائے گئے تاکہ لوگ دیکھ سکیں اور اس کا فوری فائدہ محسوس کریں ۔ 85 کی اسمبلی میں سب کے سب غیر سیاسی نہیں تھے۔ وہ بھی تھے جو سیاست کا اچھا خاصا تجربہ رکھتے تھے۔ لوگوں کو کرپٹ کرنے کے لئے فنڈز، ملازمتوں میں کوٹہ اور دیگر مراعات ملنے لگیں ۔ جب یہ لوگ اکموڈیٹ ہونے لگے تو غلام مصطفیٰ جتوئی اور بعد میں میر ہزار خان بجارانی وغیرہ نے پیپلزپارٹی چھوڑ دی۔

جونیجو نے جینیوا معاہدہ سمیت جب سیاسی اثرات دکھانے کی کوشش کی تو انہیں گھر بھیج دیا گیا۔
88ع کے انتخابات میں ایک بار پھر لوگوں نےاپنی رائے کا بھرپور اظہار کیا۔ پاگارا، غلام مصطفیٰ جتوئی جیسے بڑے بڑے بت گرا دیئے گئے۔

 بینظیر دور میں ملازمتوں کے دروازے کھل گئے۔ کمیشن کو بائی پاس کر کے ملازمتیں دی گئیں۔ اس دور کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ
سیاسی خاندانوں کی بیوروکریسی میں شمولیت ہوئی۔آج سندھ میں بعض اہم سیاسی خاندان بشمول ہالہ کی مخدوم فیمیلی، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، گھوٹکی کے بااثر شخصیات کی فیملی کے افراد سرکاری ملازمتوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔

جونیجو دور میں ہی سندھی مہاجر تضاد بڑھا۔ تیس ستمبر کا حیدرآباد کا سانحہ اور اسکے جواب میں کراچی کا سانحہ صرف انتخابات ملتوی کرانے کے لئے نہیں تھا بلکہ سندھ کی آبادی کو مستقل بنیادوں پر تقسیم کرنے کا فارمولا بھی تھا۔ اسٹبلشمنت کی جانب سے مہاجرقیادت کو یہ ذہن میں ڈالا گیا کہ واپس پیپلزپارٹی اقتدار میں آرہی ہے۔اس کے تور کے لئے ایم کیو ایم کو پروموٹ کیا۔

سندھی مہاجر تضادبعد میں حکومت کو ٹربل میں رکھنے اور جمہوری عمل کو عدم استحکام میں رکھنے کے لئے جاری رکھا گیا۔سندھ کی دو کمیونٹیز دیہی اور شہری کا آپس میں ٹکراﺅ کسی بھی طور ان کے مفاد میں نہیں تھا۔اس دراڑ کی وجہ سے سندھ کا متحدہ موقف ختم ہو چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو اسپیس بنا وہ باہر کی آبادی نے پر کیا۔ایم کیو ایم کو اگرچہ احساس ہوا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

 نوے کے عشرے کا یہ بھی المیہ ہے کہ اس میں کمیونسٹ پارٹی جو سیاسی کارکنوں کے نزدیک رول ماڈل تھی وہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ انقلاب کے ساتھ رومانس کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ سندھ میں کمیونسٹ تحریک جو بنگال کے بعد کبھی ملک بھر میں مثالی اور مضبوط سمجھی جاتی تھی وہ دم توڑنے لگی۔ سینکڑوں کی تعداد میں اس کا کیڈر پہلے گومگو کی حالت میں رہا۔ بعض مایوس ہو کر بیٹھ گئے کچھ مین اسٹریم کی سیاست کی طرف گئے۔ یہ توڑ پھوڑ سیاسی طور پر سندھ کا اتنا بڑا نقصان تھا جس کا ازالہ آنے والے وقتوں میں شاید ہی ہو سکے۔

جام صادق فارمولا :
پانی کا معاہدہ، مردم شماری ، نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ جیسے بعض امور جن کا تعلق بین الصوبائی تھا۔ ان کا فیصلہ کرنا پیپلزپارٹی کے بس میں نہیں تھا۔ وہ نہ پنجاب کو ناراض کرنا چاہتی تھی اور نہ سندھ میں اپنی مقبولیت کو کم کرنا چاہتی تھی ۔ پنجاب میں نواز شریف جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا رہا تھا۔ ایسے میں دیگر پیپلزپارٹی مخالف قوتیں بھی سرگرم ہو گئیں ۔ اور بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کردی گئی۔

 نواز شریف کا دوسرا دور حکومت جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا۔انہیں پنجاب میں فائدہ ضرور ہوا لیکن سندھ میںانہوں نے خود کو تنہا کردیا۔ یہ نعرہ یہاں پرپیپلزپارٹی کے لئے فائدہ مند ہوا۔ پیپلزپارٹی پر قوم پرست جماعت قرار دے دی گئی۔ سندھ میں اکیلی نشست رکھنے والے جام صادق علی کو وزیراعلیٰ مقرر کردیا گیا ۔ اس نے اسٹبلشمنٹ کی حمایت اور ڈنڈے کے زور پر اکثریت حاصل کرلی۔ یہ نیا فارمولا تھا کہ کس طرح سے مقبول سیاسی جماعت کو اقتدار سے دور رکھا جائے۔ اس فارمولے پر بعد میں گاہے بہ گاہے عمل ہوتا رہا۔
مظفر حسین شاہ، لیاقت جتوئی، علی محمد مہر اور ارباب غلام رحیم اسی فارمولے کے تحت وزیراعلیٰ بنے۔ یاد رہے کہ بغیر پیپلزلپارٹی کے سندھ میں جو بھی سیٹ اپ بنے ان سب کو پیر پاگارا کی آشیرواد حاصل رہی ۔

 افغان جنگ کے منفی اثرات ملک بھر میں پڑے۔ سندھ میں اضافی اثر یہ پڑا کہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے ساتھ سا تھ کو ٹری اور عمرکوٹ جیسے چھوٹے شہروں میں بھی افغان پناہ گزین آکر آباد ہوئے۔ اس کی وجہ سے مجموعی طور پر صوبے کے مختلف علاقوں کا مزاج جو پہلے کبھی سافٹ ہوا کرتا تھا، وہ اب ہارڈ ہو گیا۔ صوبے کے دو بڑے شہروں خاص طور پر کراچی میں ریاستی اداروں کی پشت پناہی کی وجہ سے افغانیوں اور دیگر غیر قانونی تارکین وطن کے لئے دروازے کھلے رہے، لیکن اندرون سندھ سے آنے والے لوگوں کو متحدہ اور دیگر گروپوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا بڑا اظہار 2010 اور 2011 کے سیلابوں کے موقعہ پر دیکھنے میں آیا۔ یوں سندھ کا بے گھر اور بے روزگار ہونے والا کسان اپنے صوبے کے دارلحکومت اور صنعتی شہر میں روزگار ڈھونڈنے یا بسنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کے کراچی کی ڈیموگرافی، سماجیت ، سیاست کے علاوہ دیہی معیشت اور کسان جو مزدور طبقے میں شامل ہو سکتا تھا اس پر بھی اثرات پڑے۔

 مشرف دور کے بلدیاتی نظام اور طرز حکمرانی نے سندھ میں قبائلی سسٹم کو نئی جان دے دی۔ ایک بار پھر سندھ جو ساٹھ اور ستر کے عشرے میں سیاسی طور پر شعور حاصل کر چکا تھا، سماجی طور پر واپس قبائلی سسٹم میں دھکیل دیا گیا۔ اس کے صوبے کی سیاست، سماجیت اور معیشت پر اثرات پڑے ، اس کے ساتھ ساتھ امن و مان کا مسئلہ بھی شدید تر ہو گیا۔ سندھی سوسائٹی کو متحد ہونے میں ایک اور رکاوٹ کھڑی ہوگئی۔بڑے وڈیروں کو ان کے اضلاع ففڈم کے طور پر مل گئے۔ سیاسی کارکن ، متوسط طبقے اور کسان کی حالت اور اثر رسوخ اور طاقت مزید کمزور ہوگئی۔

سندھی اربن مڈل کلاس کا ظہور اور اس کے اظہار :
 قیام پاکستان کے بعد جو اسپیس خالی ہوا تھا اس نے ساٹھ سال کے بعد ایک شکل اختیار کی۔ ملازم پیشہ اور ابھرتا ہوئے سندھی اربن کلاس کلاس کے تقرر تبادلے، ٹھیکہ وغیرہ کے مفاد ات ہیں۔ اس لئے وہ اپنا سیاسی نقطہ نظر بیان نہیں کر رہا۔ اگرچہ اس کا سیاسی حوالے سے دہرا کردار ہے جو مڈل کلاس کا خاصہ وہتا ہے لیکن اس طبقے نے دو کام کئے شہروں میں گھر بنائے۔ اور بچوں کو بہتر تعلیم دلائی۔ سکھر وغیرہ میں بچے پہنچے ہیں ایک نئی کھیپ آرہی ہے جس سے مڈل کلاس کا سائیز اور بڑھے گا۔

سندھ میں اب بڑی تعداد میں اربن مڈل کلاس پیدا ہو چکا ہے ۔ سرکاری خواہ نجی اداروں میں ملازمتوں اور چھوٹے موٹے کاروبار میں موجود ہے۔ کاروبار کرنے والے وہ لوگ ہیں جو بھٹو دور اور بینظیر دور میں بھرتی ہوئے تھے اب ریٹائر ہیں۔ مشرف دور میں ملازمتوں پر پابندی کی وجہ سے پرائیویٹ جاب کی طرف رجحان بڑھا۔ دیہات سے آنے والے اب شہروں میں آکر رکشہ، چلانا ٹھیلہ لگانے اور دوسرےاس طرح کے چھوٹے موٹے کام کرنے لگے ہیں اب یہ لوگ کسی وڈیرے کے اثر میں نہیں۔

سیلاب کی وجہ سے یا پھر لوگ تعلیم اور صحت کی سہولیات کی لئے شہروں کا رخ کیا۔ برادری اور قبیلے سے نکلے شہروں میں دکانداری یا دوسرے خود ملازمت والے کاموں میں آئے۔

 طلبہ سیاست
 سندھ میں اب طلبہ سیاست تقریبا ختم ہو چکی ہے۔ سندھ کی یونیورسٹیاں کبھی قوم پرست سیاست کے لئے آکسیجن ہوا کرتی تھیں۔ اب سیاسی جماعتوں کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے شہری علاقوں میں ایک ایسا حلقہ دستیاب ہے جو کسی جلسے جلوس اور مظاہرے وغیرہ میں کام آ جاتا ہے۔ طلبہ سیاست کے ویسے بھی سو بکھیڑے ہیں۔ لہٰذا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں طلبہ سیاست سے عملا دستبردار ہو گئی ہیں۔ جو گروپ طلبہ میں سرگرم ہیں وہ عموما اپنی مدر آرگنائزیشن کے ڈسپلین میں نہیں۔ بس دونوں فریق ایک دوسرے کا نام استعمال کر کے فائدہ لے رہے ہیں ۔

ضیاءدور کے بعد جو اشوز سندھ کی سیاست کا محور رہے ہیں ان میں میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ زیادہ وزنی ہے۔ جونیجو دور میں سندھ اسمبلی نے پہلی مرتبہ اس آبی ذخیرے کے خلاف قرارداد منظور کی۔اس کے بعد کم از کم دو مرتبہ صوبائی اسمبلی اس کو مسترد کر چکی ہے۔ جنرل مشرف تمام تر زور لگانے کے باوجود سندھ اسمبلی سے یہ قرارداد منظور نہیں کرا سکے۔ اس متنازع ڈیم کے خلاف پیپلزپارٹی اور قوم پرست اتحاد میں بھی رہے ہیں۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بینظیر بھٹو زیر قیادت میں سندھ کے تمام پارٹیوں نے بشمول قوم پرست جماعتوں کے، سندھ پنجاب بارڈر پر کموں شہید کے مقام پر تاریخی دھرنا دیا تھا۔

مذہبی فکر اور مدرسوں کا اس انداز میں پھلاﺅ نوے کی دہائی کے بعد ہوا۔ خاص طور پر مشرف دور میں ۔ اس کے نیتجے میں صوبے کے چھوٹے چھوٹے گاﺅں تک یہاں تک کہ تھر کے دور دراز علاقے میں بھی مدرسے پہنچ گئے ہیں ۔ یہ مدرسے قائم کرنے والوں کا تعلق سندھ سے نہیں ۔ ان مدارس کے منتظمین یا مالکان کا تعلق پنجاب سے ہے۔

خواتین اور اقلیتیں
بینظیر بھٹو نے خواتین کو آگے لے آئیں۔ اس سیاسی عمل میںدرجنوں خواتین سیاسی جدوجہد کی وجہ سے اسمبلیوں تک پہنچیں۔ لیکن اب اقلیتوں اور خواتین کو مین اسٹریم کا حصہ نہیں بنایا گیاان کی کوٹہ معذوروں کی طرح کوٹہ مقرر ہو گئی ہے۔

 شدت پسندی
شدت پسندی مذہبی طور پر اور دوسری جقوم پرست تحریک میں بھی آئی ۔ آزادی کا نعرہ تو پرانا ہے ۔لیکن اس میں اب ملیٹنیسی کا ٹرینڈ آیا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اس پرقوم پرست شدت پسندی پر اسٹبلشمنٹ نے ری ایکٹ اسی طرح کیا جس طرح بلوچستان میں کیا۔ لاشیں ملتی ہیں کارکن لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ انہوںنے کوئی بڑی کارروائی نہیں کی ہوئی ہوتی ہے۔

 سیاسی کارکنوں کی عام لوگوں تک رسائی
نوے کے عشرے کے بعد واقعات اور حالات کی وجہ سے سیاست میں ترقی پسند فکر بہت ہی سکڑ گیا۔اس کے ساتھ وہ حلقہ بھی سکڑ گیا جو تبدیلی کا خواہشمند تھا۔

خدمت اور تبدیلی کی جدوجہد کرنے والاسیاسی کارکن ختم گیا۔ نیا کارکن وہ ہے جو کرپٹ ہے یا اس کا ایجنڈا تبدیلی یا خدمت نہیں بلکہ اس پروسیس سے ذاتی مفادات حاصل کرنا ہے۔ ایک بار پھر وڈیرہ اور بااثر شخصیات مضبوط ہوگئیں۔ بلدیاتی انتخابات میں نہ ایم پی اے نہ ایم این اے ، وہ یو سی کا ناظم بھی نہیں بن سکتا۔

کبھی سیاسی کارکن خواہ ہو ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوتے تھے یا قوم پرست ۔ وہ دیہاتوں میں باقاعدگی سے جاتے تھے۔ عام لوگوں سے کسانوں سے ملتے تھے۔ روز مرہ کے امور اور واقعات پر بات چیت کرتے تھے۔اس سے عام لوگوں کا سیاسی خواہ عام زندگی کے بارے میں روشن خیال نقطہ نظر بنتا تھا۔ کم از کم دو تین دہائیوں سے یہ عمل رک گیا ہے۔ اس اسپیس کا ملاں فائدہ اٹھایا ہے۔اب وہ سندھ کے ہر گوٹھ میں موجود ہے۔ مدرسوں کا جال بچھ چکا ہے۔ یہ ملاں اپنی تقاریر اور واعظ میں گورننس کے بھی اشو اٹھا کرلوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ان کی فکر اور سوچ کو ایک مخصوص کفر کی طرف لے جارہا ہے۔ لوگوں اس سوچ میں بھی ڈال رہا ہے کہ ان مسائل کا حل ان کے پاس ہے۔
سندھ میں ایک عرصے تک دو نصاب چلتے تھے۔ ایک وہ نصاب جو سرکاری طور پر اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا تھا۔ دوسرا وہ جو ترقی پسند اور قوم پرست گروپ اپنے اسٹڈی سرکلز، باقاعدگی سے دیہات کے دوروں ، ادبی و ثقافتی سرگرمیوں وغیرہ کے ذریعے پڑھایا کرتے تھے۔ یہ دوسرا نصاب ساٹھ کے عشرے سے لیکر اس صدی کے خاتمے تک بھاری رہا۔ لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔

 پیپلزپارٹی سے امیدیں زیادہ تھیں جسے موقعہ بھی ملا لیکن یہ بد ترین ثابت ہوا ہے۔
 تمام پارٹیوں نے ان کی طرف رجوع کیا ہے جن کا قبیلہ ہے برادری ہے ۔ پی پی ، نواز لیگ اور تحریک انصاف کو بھی ایسے ہی لوگوں کی تلاش
 ہے۔

 قوم پرست متبادل دینے میں ناکام رہے ہیں جبکہ ان کے کاﺅنٹر پارٹس بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حکومت میں آچکے ہیں۔ ان کا آپس میں اتحاد نہیں اور صلاحیت بھی نہیں۔ سندھ کے جذبات کو جب ٹھنڈا کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو اقتدار پیپلزپارٹی کو دے دیا جاتا ہے۔ سندھ کے لوگوں کی کشتی ایک جھیل میں پھنسی ہوئی ہے اسی میں چکر کاٹتی رہتی ہے۔

 جب بھی سندھ سے کچھ چھینا گیا تو لوگوں کو سیاسی رشوت کے طور پر مختلف چیزیں دینے اور ان کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں متوسط طبقہ اور اس کی موقعہ پرستی آگے آگے ہوتی ہے۔ زمینوں پر قبضے جام صادق کے بعد کی پیداوار ہیں۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی چلتا رہا۔ جو اب عروج پر ہے۔

 یہاں ایم آرڈی آخری تحریک تھی جس نے بڑے پیمانے پر کارکن پیدا کئے ۔ جس کو بھی اب پینتیس سال ہونے کو آئے ہیں۔ اس تحریک میں ھصہ لینے والا اس وقت پندرہ سے تیس سال کی عمر کا تھا۔ اب وہ بوڑھا ہو چکا ہے ۔ تھک چکا ہے۔ یا وقت کے ساتھ مین اسٹریم سیاست کا حصہ بن کر موقعہ پرستی کا شکار ہو گیا ہے۔

فکری تبدیلی اصطلاحوں اور ان کی معنی تبدیل ہوگئے۔ ان میں 180 ڈگری کا فرق فرق آیا۔ پچاس کے عشرے سے لیکراسی کی دہائی تک کامریڈ ایک قابل تعریف اور قابل احترام لفظ تھا۔ لیکن بعد میں اس کی معنی بھتہ خور اور غنڈہ کی ہوگئیں۔ سیاست کا مطلب لوگوں کی خدمت کرنا تھا۔ لیکن بعد میں اس کی معنی چالبازی اور دھوکہ ہو گئیں۔

 کالاباغ ڈیم، پانی کی منصفانہ تقسیم، این ایف سی ایوارڈ ، وفاقی ملازمتیں، تیل،گیس اور معدنی وسائل، نج کاری، مردم شماری ، واپڈا کے ساتھ سندھ کا تنازع، ریلوے اور اس کی زمینیں، بندرگاہ، پر پنجاب کی بالادستی محسوس کی جاتی ہے۔ ان پر حکومتی خواہ سیاسی سطح پر وقتا فوقتا اٹھایا جاتارہا ہے۔ آئین کے مطابق ان معاملات کو مشترکہ مفادات کی کونسل دیکھے گی۔ مشرف اور بیظیر بھٹو کے دور میں کونسل کا ایک بھی اجلاس نہیں بلایا جا سکا۔

 طلبہ تحریک کی طرح سندھ میں اس وقت نہ کسان تحریک ہے اور نہ مزدور تحریک۔ لہٰذا یہ دونوں طبقات کسی سیاسی پارٹی کے ایجنڈا کا حصہ بھی نہیں ۔ کسانوں اور مزدوروں کے مسائل شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔ اکادکا گروپ کام کرنے کی کوشش کر بھی رہا ہے ، لیکن ان کی نہ capacity ہے اور نہ ہی کوئی بڑا ویزن۔

 تیل گیس، معدنی وسائل اور بندرگاہیں موجود ہیں۔ اس کے باوجود بدترین حکمرانی ٹوٹی ہوئی ہیں۔ غربت کا نظارہ گزشتہ دو سیلابوں
 میں پوری دنیا نے کیا جب صوبے کے دور دراز علاقوں سے لوگ سڑک کنارے جھگیاں ڈال کر بیٹھے۔ جن میں سے اکثر کی واپسی اور آبادکاری نہیں ہو سکی ہے۔

گزشتہ بیس سال کے دوران بڑے پیمانے پر اربنائزیشن ہوئی ہے۔ نئے شہر بنے ہیں۔ چھوٹے شہر بڑے ہوئے ہیں۔ اور بڑے شہروں میں بڑٰ تعداد میں پہنچا ہے۔ دولپمنٹ سیکٹر میں خاصی موجودگی کی وجہ سے کچھ صلاحیتین کچھ اہلیتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
 چھوٹی زمیندار جو سرکاری زبان میں پروگریسو زمیندار کہلاتے ہین اس میں اضافہ ہوا ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو نیم اربن اور نیم دیہی ہیں جن کا اپنا سماجی اثر رسوخ بھی ہے اور ایک حد تک مالی وسائل بھی۔

اختتامیہ
سندھ کے پاس اب پہلے والا متوسط طبقہ نہیں جس کو صرف ملازمت چاہئے۔ یا سرکاری ٹیلیویزن پر سندھ پروگرام کا وقت بڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اب اس کے پاس ایسا بھی طبقہ ہے جس کی capacity built ہوئی ہے۔ ایسا بھی ہے جس نے ملازمتوں کے دوران جائز اور ناجائز فوائد حاصل کر کے اپنی معاشی اور مالی پوزیشن کو بتدیل کیا ہے۔ اورسے ریٹائر ہونے کے بعد کاروبار وغیرہ کیا ہے۔ ایک مختلف قسم کا اربن مڈل کلاس وجود میں آیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر غریب کسان نے بھی شہر کا رخ کیا ہے۔

صوبہ بدترین خراب حکمرانی کے دور سے گزر رہا ہے۔ سندھ کی مقبول جماعت اور عوام کے درمیان گیپ بڑھ گیا ہے۔بائیں بازو کے ”بوڑھے کارکن “ کچھ عمل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ وہ خود میں اتنی سکت نہیں پاتے یا تھک چکے ہیں یا پھر کسی کرشمے کے انتظار میں ہیں۔ یہی صورتحال قوم پرست حلقوں کی ہے۔
 بائیں بازو اور قوم پرستوں نے جو اسپیس چھوڑا اس کی جگہ مولوی لے رہے ہیں۔ یہ مولوی صرف مذہبی نہیں بلکہ منظم سیاسی ایجنڈا رکھنے والی تحاریک کا حصہ ہیں ۔ انتہا پسندی، عدم برداشت تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ سندھ ایک نئے چیلینجوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔







Friday, March 25, 2016

فضیلا سرکی کی تلاش



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
فضیلا سرکی کی تلاش اور گھوٹکی کا واقعہ 
 ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی کو دی گئی زمین پر حکومت سندھ کا موقف

سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 

 رواں ہفتے اخبارات نے ٹنڈو محمد خان میں ہولی کے موقعہ 
پر کچی شراب کے استعمال سے ہونے والی پچاس کے لگ بھگ ہلاکتوں کو خاص طور اپنا موضوع بنایا ہے۔ اخبارات کا کہنا ہے کہ وقفے وقفے سے اس طرح کے واقعات رونماہوتے رہتے ہیں۔ پولیس اور محکمہ ایکسائیز کچی شراب کی تیاری اور اور اس کی فروخت کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔

اخبارات نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس اور ایکسائیز اہلکار خود اس کاروبار میں ملوث ہوتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ یہ بٹھیاں کہاں کہاں ہیں اور ان کو کون فروخت کرتا ہے۔ اس واقعہ میں ایک پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ پولیس افسران کے درمیان کشیدگی بھی جرائم کا سب بنتی ہے۔ 

روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ گزشتہ روز گھوٹکی میں اس وقت انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا جب شکارپورپولیس نے کئی سال پہلے اغوا ہونے والی لڑکی فضیلا سرکی کی بازیابی کے لئے گھوٹکی میں کارروائی کر کے شہر کو میدان جنگ بنا دیا۔ فائرنگ میں ایک راہگیر سمیت تین افراد ہلاک ہو گئے۔ آپریشن کے بعد پولیس نے دعوا کیا کہ فضیلا کو بازیاب کرالیا گیا ہے۔ لیکن بعد میں یہ دعوا جھوٹی ثابت ہوئی۔ بازیاب ہونے والی دونوں لڑکیاں لولائی برادری کی نکلی۔

فضیلا سرکی کو تقریبا نو سال پہلے اغوا کیا گیا تھا۔ جسے پولیس بازیاب کرانے میں ناکام رہی ہے۔ شکارپور پولیس کی ایک بڑی نفری نے گھوٹکی شہر کے محلہ انورآباد پر چھاپہ مارنے کی کوشش کی اور گھر کے اندر موجود افراد نے مزاحمت کی۔ پولیس نے زبردست آنسو گیس کے گولے پھینکے اور فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک معصوم بچہ جو دکان سے چیز لیکر واپس جا رہا تھا ہلاک ہو گیا۔ ایس ایس پی گھوٹکی کا کہنا ہے کہ یہ بچہ ڈاکوﺅں کی فائنگ میں ہلاک ہوا ہے۔ جبکہ پولیس کی فائرنگ میں مبینہ ڈاکو سانول اور حق نواز لولائی ہلاک ہو گئے ہیں۔ شکپارپور پولیس نے بھی تقریبا یہی دعوا کیا ہے۔ لیکن ہلاک ہونے والوں کے مجرم ہونے کا ریکارڈ پیش نہیں کر سکی ہے۔ 

ذارئع کہا کہنا ہے کہ ایس ایس پی بازیاب ہونے والی دو لڑکیوں پر دباﺅ ڈالتے رہے کہ ان میں سے کوئی ایک یہ اقرار کریں کہ وہ فضیلہ سرکی ہے۔ لیکن ان لڑخیوں کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق لولائی برادری ے ہے۔ جبکہ فضیلہ کے والد نے بھی ان میں سے کسی کو بطور فضیلہ پہچاننے سے انکار کردیا۔ اس طرح کے مختلف واقعات گاہے بگاہے پوتے رہتے ہیں جس میں پولیس مجرموں یا ڈاکوﺅں کے نام پر کارروائی کرتی ہے لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ مارے جانے والے افراد عام شہری تھے جن کا ڈاکوﺅں یا جرائم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ 

 روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ غیر مصدقہ اطلاعات پر اس طرح کی کارروائی کرنے کے مزید منفی اثرات پڑتے ہیں۔ پولیس نامزد ملزمان کو گرفتار کرنے کے بجائے دوسرے لوگوں کو مار دیتی ہے۔ 

اس واقعہ سے فیضیلہ کے والد پر دباﺅ بڑھ گیا ہے کہ وہ اپنی بچی کی بازیابی کے مطالبے سے دستبردار ہو جائے۔ ممکن ہے کہ پولیس میں موجود بعض حلقے بھی یہی چاہ رہے ہوں۔ 

 ڈیفینس اتھارٹی کو زمین دینے پر حکومت سندھ کا سیاسی بیان کے عنوان سے اداریے میں عوامی آواز لکھتا ہے کہ حکومت سندھ نے دعوا کیا ہے کہ ڈفینس ہاﺅسنگ اتھارٹی کراچی کی ساحلی پٹی پر 9850 ایکڑ زمین پر قابض ہے جس میں سے لگ بھگ ساٹھ فیصد زمین یعنی 6234 ایکڑ زمین پر اس ادارے نے غیر قانونی طور پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ سمندر کو دھکیل کر خشک کر کے یہ زمین بنائی گئی ہے۔ اس زمین کو ڈی ایچ اے اپنے استعمال میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ، روینیو بورڈ کے افسران، ایڈیشنل کمشنر کراچی، اور دیگر متعلقہ افسران اور اداروں نے کلفٹن کینٹونمنٹ بورڈ کو ہاں پر کسی بھی تعمیرات کرانے سے روک دیا ہے۔ اس ضمن میں مزید اقدام کے طور پر سندھ ہائی کورٹ سے بھی رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی کے ترجمان نے حکومت سندھ کے اس بیان کو سیاسی بیان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیٰ ایچ اے کے پاس اس زمین کی الاٹمنٹ کے تمام قانونی کاغذات موجود ہیں۔ روزنامہ عوامی آواز ایک انگریزی اخبار کا حوالہ دیتے ہوئے مزید لکھتا ہے کہ حکومت سندھ کے عدالت میں داخل کئے گئے بیان کے مطابق تا حال ڈیفینس کے فیز ون سے فیز 7 تک میں 3520 ایکڑ زمین بغیر پیسے کے حاصل کی گئی۔ اسی طرح سے پورٹ قاسم کی توسیع کے لئے مختص کی گئی 736 ایکڑ زمین کراچی پورٹ ترسٹ نے ڈیفینس فیز 8 کے لئے غیر قانونی طور پر دی۔ کے پی ٹی کا کہنا ہے کہ یہ زمین وفاقی حکومت کی ہدایت پر دی گئی ہے۔ پورٹ قاسم اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اس زمین سے سندھ حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔ 

 حکومت سندھ کو چاہئے کہ وہ زمین سے متعلق اپنی پالیسی واضح کرے۔ تاکہ کسی بھی ادارے اور حکومت کے درمیان تصادم کی صورتحال نہ بنے۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں ڈی ایچ اے نے ہزاروں ایکڑ زمیں مفت میں حاصل کی ہے ۔ اس ضمن میں اد دور کی حکومتوں کی خط و کتابت کو سمانے لایا جائے یہ ریکرارڈ کی درستگی کے لئے اور عام لوگوں کی جانکاری کے لئے بھی ضروری ہے تاکہ فضول میں پیدا ہونے والی غلط فہمیاں دور ہو سکیں ´ ۔ 

مارچ ۲۵ 
نئی بات 

Saturday, March 19, 2016

کرپشن کے گہرے بادل


March 18, 2016 
کرپشن کے گہرے بادل
سندھ ایک بار پھر سیاسی سرگرمی کا مرکز
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 
 سندھ ایک بار پھر سیاسی سرگرمی کا مرکز بن گیا ہے۔ جہاں ایک طرف کراچی میں دہشتگردی کےخلاف آپریشن جاری ہے، دوسری جانب نیب نے کرپشن کے خلاف کاروائیاں تیز کردی ہیں۔ ایم کیو ایم میں مصطفیٰ کمال کی قیادت میں ایک دھڑے نے الطاف حسین سے بغاوت کردی ہے۔ پیپلزپارٹی سے ناراض بعض رہنماﺅں کو منایا جارہا ہے کہ کہیں وہ باضابطہ فاروڈ بلاک نہ بنا لیں۔ سندھ پولیس کو عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نیا سربراہ اے ڈی خواکہ مل گئے ہیں۔ جس کے ماضی کے ریکارڈ کو دیکھ کر بہت امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں۔ صوبے میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہونے کے باوجود ان اداروں کے سربراہاں کا انتخاب نہیں ہو سکا ہے۔ جس کی وجہ سے شہری ہسولیات کا معاملہ بھی جوں کا توں ہے۔ 

روزنامہ کاوش اپنے اداریے” کرپشن کے گہرے بادل“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ اگرچہ کرپشن کہیں کم کہیں زیادہ لیکن ملک بھر میں ہے۔کرپشن کے بوجھ نے ملکی معیشت کو بالکل نحیف کردیا ہے۔کئی ادارے اس داغ سے خود کو بچا نہیں سکے ہیں۔بعض اداروں کو کرپشن کے کنیسر نے کھوکھلا کر دیا ہے۔لہٰذا اکثر ادارے اپنے وجود کا جواز بھی کھو بیٹھے ہیں۔ملک بھر میں کرپشن ہونے کے باوجود سندھ میں اس حوالے کاروائیاں کچھ زیادہ نظر آتی ہیں۔

کچھ عرصے تک ڈاکٹر عاصم سے لیکر شرجیل میمن تک خبروں میں رہے۔ اب فشرمین کوآپریٹیو سوسائٹی کے چیئرمین نثار موارئی خبروں میں ہیں۔ گزشتہ روز انسداد دہشتگردی عدالت نے نثار موارئی کو 90 روز کے لئے رینجرز کی تحویل میں دے دیا۔ انہیں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔

 رینجرز کے وکیل کا کہنا ہے کہ نثار مورائی ناجائز طور پر کمائی کے پیسے سمندری لانچوں کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنے میں ملوث ہیں۔ان پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ دہشتگردی کی کاروایوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کی مالی اعانت کرنے میں بھی ملوث رہے ہیں۔ عدالت نے سندھ حکومت کو پندرہ روز کے اندر جے ٹی آئی تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔ 

دوسری جانب نیب نے اربوں روپے کی مالیت کی 12 ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ کر کے چائنا کٹنگ کے ذریعے فروخت کرنے کے الزام میں صدر ممنون حسین کے بیٹے سمیت دیگر افراد کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہے۔ نیب کی کاروائیاں یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اس ادارے کی تحقیقات کا ارخ منرل ایند مائینز ڈپارٹمنٹ اور محکمہ توانائی کے زیر انتظام چلنے والے کوئلے کے منصوبوں میں مبینہ کرپشن کی طرف بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آتھ ہزار ایکڑ زمین پر موجود کوئلے پر بجلی گھر قائم کرنے کا منصوبہ بغیر ٹینڈر طلب کرنے کے غیرقانونی طور پر الفتح گروپ کو دیا گیا۔ لیکن سرمایہ کاروں نے وہاں پاور پلانٹ لگانے کے بجائے کوئلہ نکال کر مارکیٹ میں بیچنا شورع کردیا۔ نیب نے اہم معاملے کی تحقیقات کے دوران وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری کا بیان قلمبند کر لیا ہے۔ 

 کرپشن ایک ایسا مرض ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملکی معیشت کمزور ہوتی ہے بلکہ اس سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے۔ کرپشن کی وجہ سے ادارے کمزور اور کنگال ہو جاتے ہیں۔ ان کا حشر پی آئی اے جیسا ہو جاتا ہے۔ ملکی معیشت تباہ ہونے سے مہنگائی، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ کئی اہم ادارے عوام کے لئے لاھاصل ہو جاتے ہیں۔اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کرپشن کئی بنیادی مسائل کی جڑ ہے۔ اگر صرف کرپشن پر ہی کنٹرول کیا جائے تو کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ 

سندھ میں ایک بار پھر نیب کی کاروئیاں تیز ہوئی ہیں ظاہر ہے کہ اس پر اب سندھ حکومت کے اعتراضات بھی سامنے آئیں گے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ صوبائی ادارے جو کرپشن کی روک تھام کے لئے کام کرتے ہیں اور چیک اینڈ بیلنس رکھتے ہیں وہ بہت پہلے سرگرم ہو جاتے۔ ایسی صورت میں نیب کے وفاقی ادارے کو مداخلت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگرچہ وقت گزر چکا ہے تاہم اب بھی یہ ادارے اپنا رول چاہیں تو ادا کر سکتے ہیں۔ بلاشبہ نچلی سطح پر ہونے والی چھوٹی موٹی کرپشن کو بھی روکنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری اوپر کی سطح کی کرپشن کو روکنا ہے جو اربوں اور کروڑوں میں ہوتی ہے۔ اور عوام کے خون پسینے کی کمائی ہتھیا کر بیرون ملک منتقل کردی جاتی ہے۔ اس کا سختی سے احتساب ہونا چاہئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کرپشن کے خلاف کاروائی کرتے وقت ان اداروں کو اپنے آئینی حدود میں رہنا چاہئے۔ایسا نہ کیا گیا تو آخری نتیجے میں اس کا فائدہ ملزمان کو ہی پہنچے گا۔ 

 روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ گزشتہ روز گڑھی یاسین تھانے کی حدود میں کوریجا گوٹھ کے قریب پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم پر نامعلوم افراد نے حملہ کر دیا ۔ ملزمان کی فائنگ کے نتیجے میں پولیہو ورکر افشاں مہر شدید زخمی ہوگئیں لیڈی ہیلتھ ورکر افشان کے بھائی کو کہ ان کے ساتھ تھے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ ابتدائی طبی امدا کے بعد افشاں مہر کو نازک حالت کی وجہ سے چانڈکا ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
 گڑھی یاسین کے ہی علاقے میں گوٹھ نوشہرو ابڑا میں پولیو ٹیم پر کتے چھوڑے گئے۔ اور ٹیم سے پولیو کا تمام سامان، موبائل فون اور دیگر قیمتی اشیاءچھین لی گئیں۔ ٹیم کے اراکین کو دھمکیاں دی گئیں کہ آئندہ اگر وہ لوگ گاﺅں میں آئیں گے تو ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جائے گا۔ 

یہ ہمارے سماج کی ایک شکل ہے جس کو ان واقعات کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیو ورکرز کا کام معصوم بچوں کو قطرے پلانا ہے تاکہ وہ مستقبل میں کسی جسمانی معذوری سے بچ سکیں۔ اور خود کو صحتمند معاشرے کا حصہ بنا سکیں۔ لیکن اس طرح کے واقعات گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل ہو رہے ہیں۔

 کیا یہ سندھی سماج کی بے حسی نہیں کہ خواتین پر کتے چھوڑ دیئے جائیں ؟ وہ بھی ان خواتین پر جو مسیحا بن کر آتی ہیں اور بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلاتی ہیں۔ 

سندھ میں اسطرح کے رویوں کے جنم لینے کا مطلب یہ ہے کہ سندھی سماج اب انتہاپسندی اور طالبانزیشن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات وقفے کے ساتھ ہوتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ لیڈیٰ ہیلتھ ورکرز اور پولیو ورکرز کو قتل بھی کیا گیا ہے۔ لیکن حخومت کی جانب سے انہیںکوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ یہ ان خواتین کی ہمت ہے کہ اس کے باوجود وہ پولیو کے قطرے پلانے پنچ جاتی ہیں۔ پولیو سے تحفط کے قطروں کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈا کر کے ایسی سوچ پیدا کردی گئی کہ لوگ ان قطروں کو خراب سمجھیں۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ کیونکہ یہ پولیو ورکرز کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ اگر یہ خواتین کل اس خطرے کے پیش نظر قطرے پلانے سے انکار کردیں تو ہزاروں بچے اس دائی سے محروم ہو جائیں گے اور ان کی جسمانی معذوری کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

 یہ ضروری ہے کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور ملزمان کو گرفتار کر کے قرار واقعی سازئیں دے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو جسمانی معذوری سے بچانے والی ان خواتین کو تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنا فریضہ بغیر کسی 
 Nai Baat March 19, 2016خوف کے سر انجام دے سکیں۔ مطلب حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ پولیو کی مہم جاری رہ سکے۔ 

Friday, March 11, 2016

ترقیاتی رقم کیوں خرچ نہ ہو سکی


 سندھ نامہ سہیل سانگی
 ۱۱ مارچ 
 صوبے کے سیاسی افق پر متحدہ قومی موومنٹ میں باغی گروپ کے پیدا ہونے ، رینجرز اور سندھ حکومت کے درمیان اختلافات کی جنگ کا عدالت تک پہنچنا اور اس طرح کے سیاسی و اقتداری معاملہ موضوع بحث رہے۔ تاہم اخبارات سندھ حکومت کی کارکردگی پر بھی بحث کی ہے۔ 

روزنامہ کاوش ترقیاتی رقم کیوں کرچ نہ ہو سکی کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ حکومت رواں مالی سال کے لئے مختص 168 ارب روپے کی ترقیاتی رقم میں سے صرف 56 فیصد خرچ کر پائی ہے۔ تعلیم، صحت، خوراک، امور داخلہ، لائیو اسٹاک، فشریز اور کچی آبادی جیسے اہم محکموں سمیت 256 اسکیموں پر ایک ٹکہ بھی خرچ نہیں کر پائی ہے۔ 

اس کے علاوہ ہیپٹائٹس،  چائلڈ کیڑئر، ملیریا، ڈینگی، اور تھیلسمیا کے کنٹرول پر رکھی گئی سوا ارب روپے میں سے بھی کوئی رقم خرچ نہیں کی گئی۔ جو ملک ترقی کر رہے ہیں وہ ان ممالک کے حکمرانوں کی محنت اور نیک نیتی کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ وہ عوام کے سامنے خود کو جوابدہ بھی سمجھتے ہیں اور عوام انکا ووٹ کے ذریعے احتساب بھی کرتا ہے۔ 

ہمارا ملک ترقی کے سفر میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ کرپشن ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے ادارے بظاہر بہت مضبوط نظر آتے ہیں۔ درحقیقت ان کو کرپشن کی دیمک نے چاٹ کر کھوکھلا کر دیا ہے۔ کسی ادارے کو کرپشن کا روگ لگتا ہے اور اسکا بروقت علاج نہیں کیا جاتا اس ادارے کا ترقی میں کوئی کردار ادا کرنا تو در کی بات اپنے وجود کا جواز بھی کھو بیٹھتا ہے۔ یہی صورتحال مجموعی طور پر ملک کے تمام اداروں کی ہے۔

 سندھ کے حوالے سے یقیننا یہ حقائق حیران کن ہیں کہ مالی سال کے ختم ہونے میں باقی بہت ہی کم وقت ہے، اس کے باوجود ترقیاتی بجٹ میں سے بشمکل آدھی رقم خرچ ہو سکی ہے۔ باقی اداروں کو چھوڑیں صحت جیسے اہم اور تعلیم جیسے حساس معاملے پر بھی خرچ کرنے میں کاہلی سے کام لیا گیا ہے۔ 

حقیقت کی آنکھ سے اگر دیکھا جائے تو محکمہ صحت سندھ خود ایک بیمار محکمہ ہے۔ جس کی مناسب علاج کی ضرورت ہے۔ سرکاری شفا گھر غریب لوگوں کے لئے شفا کا باعث کم اور کوس گھر زیادہ بنے ہوئے ہیں۔ اکثر سرکاری ہسپتالوں میں غرب لوگوں کا مفت میں علاج نہیں ہوتا۔ نتیجة لوگوں کو علاج کے لئے نجی ہسپتالوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ ان نجی ہسپتالوں کے بھاری بل غریب لوگ تو کیا متوسط طبقہ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس محکمے کی بجٹ خرچ کرنے میں کیوں سستی کی گئی؟ نہ حکومت سے یہ سوال کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی حکموت اس کے جواب دینے یا عوام کے سامنے وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ 

ہپیٹائٹس، تھلسمیا، ملیریا اور ڈینگی جیسے امراض کے لئے جو رقم خرچ ہونی تھی وہ جاری ہی نہیں کی گئی ہے۔ سندھ میں تعلیم آکسیجن پر سانس لے رہی ہے۔ دوسرے محکموں میں ”وقت کے بادشاہ“ کرپشن کے ذریعے اپنا منہ میٹھا کر لیتے ہیں۔ ان بادشاہوں نے محکمہ تعلیم کو بھی نہیں بخشا۔ اس محکمے کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے تا حال رقم جاری نہیں کی گئی ہے۔ 

 ہمارے پاس ہر سال اربوں روپے کی بجٹ آتی ہے۔ اگر بجٹ کی رقم کو سرزمین پر موجود ترقی یا صورتحال سے موازنہ کیا جائے تو صورتحال انتہائی مایوس کن ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے پاس اکثر ترقیاتی کام صرف کاغذوں میں دکھائے جاتے ہیں۔ روڈ بھی کاگذوں پر بنتے ہیں، تعلیم بھی کاگذوں پر ترقی کرتی ہے۔ محکمہ صحت بھی کاغذوں میں صحتمند ہے۔ جبکہ زمینی حقائق کچھ اور ہوتے ہیں۔ اس کا یقیننا احتساب ہونا چاہئے کہ مطلوبہ رقم کیوں جاری نہیں کی گئی، اور جو رقم جاری کی گئی وہ خرچ کیوں نہیں ہو سکی؟

 روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتاہے کہ ہمارے پاس اقتداری سیاست کے نئے اور پرانے بحران حل ہونے کا نام لیں تو شاید عوامی زندگی کے لئے عذاب بنے ہوئے مسائل پر کسی کی نظر پڑے۔ عام آدمی شدید مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے ایوانوں تک ان مسائل کی ب بھی نہیں پہچتی۔ جو کہ تھوڑی سی انتظامی صلاحیت بہتر کرنے سے حل ہو سکتے ہیں۔ ایک اہم مسئلہ گندگی کے ڈھیر بنے ہوئے شہر ہیں۔ ہمارے شہروں میں باقی ترقیاتی کام دور کی بات گند کچرہ بھی نہیں اٹھایا جاتا۔ سندھ کے ہر چھوٹے بڑے شہر کی حالت یہ ہے کہ بدبو ہی بدبو ہے۔

 گزشتہ روز کارچی میں سیاسی مقابلے کے طور پر صفائی کی مہم کی بازگشت سننے میں آئی ہے۔ سندھ کے باقی شہروں کا کیا حال ہے؟ اس کا اندازہ حیدرآباد ک میں گندگی سے متعلق شایع ہونے والی رپورٹوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ صوبے کے دوسرے نمبر پر بڑے شہر میں روزانہ 700 ٹن کے لگ بھگ کچرہ جمع ہوتا ہے۔ ایسا کوئی بندوبست نہیں کہ اس کچرے کو شہر سے باہر لے جا کرکہیں ضیاع کیا جائے کہ عام شہری کی صحت پر اس کے مضر اثرات نہ پڑیں۔ 

روزانہ ٹنوں کے حساب سے جمع ہونے والا یہ گند کچرہ حیدرآباد کے شہریوں کے لئے عذاب بنا ہوا ہے۔ سٹی، لطیف آباد اور قاسم آباد سے جمع کیا گیا کچرہ کوہسار اور نسیم نگر کے پاس کھلے میدانوں میں جلانے کی وجہ سے کئی امراض پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ جن کو کچرہ اٹھانے کے ٹھیکے دیئے گئے ہیں ان کو ادائگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کچرہ بھی نہیں اٹھایا جاتا۔ شہر کی ہر گلی اور ہر چوک کچرے کا ڈھیر بنی ہوئی ہے۔ 

کراچی سے شروع ہو کر حیدرآباد سے ہوتے ہوئے ہم اگر سندھ کے مختلف شہروں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں نہیں لگتا کہ یہاں بھی کچھ ایسے ادارے ہیں جو صفائی ستھرائی کے نام پر ہر ماہ کروڑوں روپے کی بجٹ لیتے ہیں۔ ان کے پاس سینکڑوں اور ہزاروں میں عملہ بھی بھرتی کیا ہوا ہے جو باقاعدگی سے تنخواہیں لے رہا ہے۔ اس عملے اور افسران کو باقی سب کچھ یاد ہے۔ اگر یاد نہیں تو صرف یہ کہ ان کے بھی کچھ فرائض ہیں۔ 

Saturday, March 5, 2016

یونیورسٹیوں کی رینکنگ ۔۔ کراچی کا ٹرانسپورٹ نظام


سندھ نامہ مارچ 4 
یونیورسٹیوں کی رینکنگ ۔۔ کراچی کا ٹرانسپورٹ نظام

 رواں ہفتے سندھ کے اخبارات میںآصف علی زرداری کا فوج سے متعلق ”یو ٹرن“ والا بیان، ، مردم شماری، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 
محکمہ انسداد رشوت ستانی کی صوبے میں مختلف کاروایاں، پیٹرول کی قیمتوں میں کمی اور ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی کا اعلان، کرپشن مقدمات میں سندھ کے بعض وزراءکی طلبی کے معاملات زیر بحث رہے۔ 

 روز نامہ عوامی آواز سندھ کی یونیورسٹیوں کی صورتحال پر لکھتا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کی جاری کردہ ریٹنگ لسٹ کے مطابق ماسوائے زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے سندھ کی کوئی بھی یونیورسٹی اس قابل نہیں رہی ہے کہ وہ اس مقابلے کی دوڑ میں اپنی جگہ حاصل کر سکے۔ ایک وقت تھا کہ سندھ یونیورسٹی جنرل یونیورسٹی کے طور پر اور لیاقت میڈیکل کالج طب کی تعلیم میں مثالی اداروں کے طور پر تسلیم کئے جاتے تھے۔ ان اداروں کو ایسا گرہن لگ گیا ہے کہ اب یہ ادارے اہم شمار ہونا دور کی بات غیر اہم فہرست میں بھی کھڑے نظر نہیں آتے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے سال 2015 کے دوران دس یونیورسٹیوں کی نمبر وار فہرست جاری کی ہے ۔ جس میں قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، آغا خان یونیورسٹی، کامسیٹس یونیورسٹی، پاکتان انسٹیٹیوٹ آف انجنیئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز، کراچی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور، اور وٹنریری یونیورسٹی لاہور سر فہرست ہیں۔ کمیشن کے چیئرمین کے مطابق کارکردگی کی کسوٹی معیار تعلیم، تحقیق، معاشی سہولیات، اور سماجی کردار کے پہلوﺅں کو نظر میں رکھ کر مختلف کیٹیگریز بنائی گئی تھیں۔ 

 زرعی شعبہ میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد پہلے نمبر پر ، وٹرنری یونیورسٹی لاہور دوسرے نمبر پر اور سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام تیسرے نمبر پر آئی ہیں۔ بزنیس کٹیگری میں آئی بی اے سکھر کوئی پوزیشن نہیں لے سکا۔ 

میڈیکل کے شعبے میں آغا خان یونیورسٹی پہلے نمبر پر، لاہور میڈیکل یونیورسٹی دوسرے نمبر پر اور ڈاﺅ میڈیکل یونیورسٹی تیسرے نمبر پر آئی۔ انجنیئرنگ کے شعبے کی 21 یونیورسٹیز میں اسلام آباس انجنیئرنگ یونیورسٹی سب سے آگے رہی۔ جنرل کٹیگری کی 73 یونیورسٹیز میں قائداعظم یونیورسٹی پہلے نمبر پر، پنجاب یونیورسٹی دوسرے نمبر پر اور نیشنل یونیورسٹی اسلام آباد تیسرے نمبر پر آئیں۔ 

 کسی بھی تعلیمی ادارے کی اہلیت پرکھنے کی کسوٹی تعلیم کے حصول، اس کے لئے موجود ماحول، اور انتظامی صالاحیت ہوتی ہیں۔ سندھ کی سرکاری یونیورسٹیز کی ریٹنگ پوزیشن کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ان اداروں کو مذکورہ بالا نکات کو سامنے رکھ کر از سرنو ٹارگیٹ متعین کرنے پڑیں گے۔ 
 سندھ کی یونورسٹیوں میں سب سے بڑا مسئلہ وائیس چانسلرز کے تقرر کے قانون، اس قانون پر عمل درآمد، غیر ضروری عناصر کی یونورسٹیز کے معاملات میں مداخلت سے چھٹکارا پانا ہے۔ جب تک سندھ میں قانون اور اخلاقیات کو ایک ساتھ رکھ کر تعلیم کو اولیت نہیں بنایا جائے گا، اپنی ذات اور ذاتی خوشنودی سے آگے بڑھ کر سوچا نہیں جائے گا، تب تک اگر سورج مغرب سے بھی نکلے گا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس لئے جو اہلیتیں تسلیم شدہ ہیں ، جو قانون موجود ہے، اس کی بنیاد پر سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں کے وائیس چانسلرز کو فارغ کردیا جائے، جو علم اور اہلیت کی بناید پر نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے اس عہدے پر براجماں ہیں۔ سندھ حکومت کو چاہئے کہ ایسے نااہل اور ریٹائرڈ وائیس چانسلرز سے یونیورسٹیز کوچھٹکارا دلایا جائے جواس عہدے پر دو یا تین میعاد مکمل کرنے کے باوجود اس اہم شعبے میں کارکردگی نہیں دکھا سکے ہیں۔ 

اکثر پڑھانے والے خود اپنے مضمون کے بارے میں لاعلم ہیں یا پھر اپنی ذات کے آگے نہیں سوچتے۔ بی اے پاس انتظامیہ کو پروفیسرز اور تربیت کاروں کا انتظام چلانے کا کام دیا گیا ہے۔ تدریس کے کام میں وہ مخلوق بھی شامل ہے جو طلباءمیں سائنس، جدید علوم کی تحقیق میں ایک قدم بھی آگے بڑھنے کے لئے تیار نہیں ۔ اب سندھ حکومت کو اس ضمن میں آغاز کر ہی دینا چاہئے۔ 

 روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے کراچی میں گرین لائین بس سروس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس منصوبے کے تحت کراچی میں بائیس مقامات پر اسٹیشنز قائم کی اجئیں گی۔ اس منصوبے کے تحت تین لاکھ مسافر سفر کر سکیں گے۔ سندھ کے عوام سفر کرنے کی سرکاری اور معیاری سہولیات سے محروم ہیں۔ بیس سال پہلے صوبائی حکومت نے سندھ کے لوگوں کو معمولی قسم کی سفری سہولت مہیا کرنے والے ادارے سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کو مختلف وجوہات کی بناءپرختم کردیا تھا۔ یہ سرکاری بسیں فروخت کردی گئیں۔ زیادہ تر ان لوگوں نے خرید کیں جو یہاں کے مالزمین کی یونین کے عہدیداران تھے۔ بعد میں یہ بسیں سندھ ٹرانسپورٹ کمپنی کے نام پر چلنے لگیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سرکاری ٹرانسپورٹ کے اس ادارے کو کس طرح سے تباہ کیا گیا۔ 

1976 میں وزارت ریلوے نے کراچی ماس ٹرانزٹ سسٹم کی تجویز دی تھی۔ لیکن یہ منصوبہ بھی اعلان کی حد تک رہا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کراچی میں جب بھی ہنگامے ہوتے ہیں تو سب سے بڑا نقصان ٹرانسپورٹ کا ہوتا ہے۔ اس میٹروپولیٹن شہر کے ٹرانسپورٹ نظام کو جدید بنانے کے بجائے یہاں کوچز متعارف کرائی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ مافیا کی سرپرستی بھی کی گئی۔ ناقص حکمت عملی اور مخصوص مفادات کے میلاپ نے کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن اور کراچی سرکلر ریلوے کو بند کردیا گیا۔ دس سال پہلے شہری نظام کے تحت جاپان کی کمپنی نے نجی اور سرکاری شعبے کے اشتراک سے شہر میں چار ہزار نئی سی این جی بسیں متعارف کرانے کا منصوبہ بنایا۔ مگر اس پر بھی عمل نہ ہو سکا۔
 کراچی کا ٹرانسپورٹ نظام مکمل طور پر تباہ ہے۔ شہر میں ڈھائی سو سے زائد روٹس بند ہیں۔ جس کی وجہ سے اسلو جانے والے بچوں، خواتین اور بڑی عمر کے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اب عموما رات گیارہ بجے کے بعد کسی عوامی ٹرانسپورٹ کا ملنا محال ہے۔

 نوز شریف حکومت نے لاہور میں میٹرو بس سروس شروع کی۔ اس منصوبے کو اب صوبے کے دوسرے شہروں تک بھی پھیلایا جارہا ہے۔
 کراچی میں گرین لائین ٹرانسپورٹ منصوبہ خوش آئند بات ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پر جلد اور موثر طور پر عمل ہو، اور یہ منصوبہ بے ضابطگیوں سے پاک ہو۔
March 4, 2015 

کالا باغ ڈیم پر ضد ۔


سندھ نامہ سہیل سانگی 
کالا باغ ڈیم پر ضد ۔ حکومت شہروں کی وارث بنے
مردم شماری، مادری زبانوںا دن، نیب کے حوالے سے وفاقی حکومت کا موقف ،ڈاکٹر عاصم کے خلاف ریفرنس اور آصف علی زرداری کا حالیہ بیان جس میں انہوں نے آرمی چیف کے ریٹائرمنٹ کے اعلان کو قبل از وقت قرار دیا ہے اخبارات میں موضوع بحث رہے۔ عذیر بلوچ کے انکشافات کی ریکارڈنگ بھی میڈیا میں بحث کا موضوع رہے۔ 

روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ ملک میں جب بھی حالات اچھائی کی طرف جانے لگتے ہیں تو بعض حلقے ایسے تنازعات کو ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے نفرتیں اور فاصلے بڑھیں۔ نہیں معلوم کہ ان حلقوں کو ملک کے حالات بہپتری کی طرف جانے میں کیا اعتراض ہے۔ حال ہی میں حکمران جماعت کے نمائندے نے قومی اسمبلی میں ایک بار پھر کالاباغ ڈیم تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے پہلءپاکستان کسان اتحاد کے زرعی تباہی کے موضوع پر منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں بھی حکمران جماعت کے نمائندوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو ناگزیر قرار دیا۔ اور سندھ اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں اور جماعتوں کو ڈیم کی تعمیر کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی دعوت دی۔ 
بلاشبہ پانی کے ذخائر ملک کے لئے ضروری ہیں لیکن کالا باغ ڈیم پر ضد کرنا سمجھ سے باہر ہے۔ یہ متنازع منصوبہ ہے۔ جس کو تین صوبے کم از کم تین مرتبہ مسترد کر چکے ہیں۔ ایسے میں اس متنازع اشو کو ترک نہ کرنے میں کونسی دانشمندی ہے؟ کچھ ہزار میگاوات بجلی کے پیچھے کسی تہذیب، قوم یا دھرتی کو تباہ کرنا دانشمندی نہیں۔ اس دلیل میں وکئی سچائی نہیں کوٹری سے نیچے پانی ضایع ہو رہا ہے۔ کوٹری کے نیچے بھی ایک وسیع علاقہ ہے جس کی معیشت کا انحصار اس دریائی پانی پر ہے۔ اس کے علاوہ خود سمندری کٹاﺅ کو روکنے کے لئے بھی پانی ضروری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس بحث کو اب ہمیشہ کے لئے دفن کر دینا چاہئے۔ کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں سندھی میڈیا یک آواز ہے اور سب نے اس کےخلاف اداریے لکھے ہیں۔ 

 روزنامہ کاوش نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے اس بیان پر اداریہ لکھا ہے کہ و فاقی حکومت نیب کے پر کاٹنے نہیں جارہی۔ سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان گزشتہ چند ماہ سے تنازعات چل رہے ہیں خاص طور پر ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور کرپشن کے نام پر وفاقی اداروں کے چھاپے قابل ذکر ہیں ۔ سندھ حکومت مسلسل شکایت کرتی رہی ہے کہ وفاق صوبائی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ لیکن اس کی یہ بات نہیں سنی گئی۔ کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے تو پورے ملک میں کیا جائے۔ اس ضمن میں کچھ استثنا کویں چھوڑے جارہے ہیں۔ یہ سلیکٹیو احتساب اور سلیکٹیو انصاف کے زمرے میں آئے گا۔ 

روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ حکومت کو چاہئے کہ کراچی سے لیکر کشمور تک ان شہروں کی مالک بنے اور وہاں شہری سہولیات پہنچانے کے لئے عوام د دوست اور شہر دوست پالیسیاں بنائے۔ پالیسیاں طے کرنے سے پہلے ان تمام امکانی رکاوٹوں کو بھی اپنے مشاہدے کا حصہ بنائے جن کی وجہ سے ان پالیسیوں پر عمل درآمد میں دیر ہو سکتی ہے۔ اس لئے سندھ حکومت کو ذات کے بجائے اپنے رویے شہروں کی طرف رکھنے ہونگے۔ کراچی میں شہری سہولیات کے لئے قائم کردہ سب سے اہم ادارے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے بارے میں یہ معاملات سامنے آ رہے ہیں کہ مختلف سیاسی و نیم سیاسی تنظیموں کے رویوں کی وجہ سے اس ادارے میں خود زندہ رکھنے کی طاقت موجود نہیں۔اس لئے جو بھی پالیسیاں بنائی گئی ابہوں نے اس ادارے کو ڈبونے کا پورا بندوبست کیا ہوا تھا۔ حکومت جب کسی ادارے کی بہتری کے لئے کوئی اقدام اٹھاتی ہے تو ایک شور اور طوفان اٹھ کھڑا ہو جاتا ہے۔ 

حال ہی میں سندھ اسمبلی اور شہری اصلاحات کے ماہرین نے بعض پالیسیاں مرتب کی ہیں۔ تاکہ بلدیاتی اداروں کا فائدہ عام آدمی تک پہنچ سکے۔ اس ضمن میں کراچی میونسپل کارپوریشن کی سالہا سال سے قائم اجارہ داری کو ختم کردیا ہے۔ اس حوالے سے شہر میں چھ ضلعی میٹرو کونسلز، اور اسیک ضلعی کونسل کے اختیارات بحال کر دیئے گئے ہیں۔ ان ہر ضلع کو فنڈز الگ سے ملا کریں گے۔ ایسا کرنے سے
 رقومات کے استعمال، اور امکانی کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کے ایم سی کے سچے اور گھوسٹ ملازمین کی کل ماہانہ تنخواہ ایک ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔

 2013 کے بلدیاتی ایکٹ کے بعد یہ تنخواہیں بھی ہر ضلع کو الگ الگ بھیجی جارہی ہیں۔ وہ ملازمیں جو سرزمین پر بھی نہیں تھے، کسی بھی ضلع میں ان کی انٹری نہیں تھی۔ ان کی تنخواہوں کا معاملہ سامنے آیا۔ جب یہ لوگ کے ایم سی کی شیٹ پر نہیں تھے تو سالہا سال تک کیسے تنخواہیں وصول کرتے رہے اور کون وصول کرتا رہا۔ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئے۔
Feb 26,2016

تھر کے لوگوں کی وارثی کی جائے


سندھ نامہ ۔۔۔ تھر کے لوگوں کی وارثی کی جائے ۔۔ غوا انڈسٹری دوبارہ سرگرم 
 سہیل سانگی
مردم شماری، پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال اور اس کی ، ریلوے کریوں میں اضافے کی تجویز کے معاملات سندھ کے اخبارات کا موضوع رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تھر کے قحط پر حکومت کا ردعمل اور اغوا کی نئی لہر کو بھی اخبارات نے اپنا موضوع بحث بنایا۔ 

 ”عدالتی کمیشن کی تشکیل کے ساتھ ساتھ تھر کے لوگوں کی وارثی کی جائے “کے عنوان سے” روزنامہ کاوش“ لکھتا ہے کہ سندھ حکومت نے تھر میں بچوں کی اموات سمیت تمام صورتحال کاجائزہ لینے کے لئے دو ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمیشن تشکیل دے دی ہے۔ یہ کمیشن اس معاملے کی تحقیقات کرے گی کہ تھر میں بچوں کی اموات کے اسباب کیا ہیں۔ اس تمام صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں اور مزید کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ یا حکومتی پالیسی پر عمل درآمد کرنے میں کوئی کمی بیشی ہے یا نہیں؟ کمیشن پندرہ روز کے اندر اپنی رپورٹ چیف سیکریٹری سندھ کو پیش کرے گی۔ اس ضمن میں وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ تھر کی صورتحال پر سندھ حکومت کو تششویش ہے اور وہاں پر غربت کم کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ صحت کی بہتر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اور تھر کے ہسپتالوں میں ادویات کا بجٹ دگنا کردیا گیا ہے۔ 

 اس ریگستان کو اگر دکھوں کی سرزمین کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ تھر کے تپتے ریگزاروں پر جن کے پاﺅں میں چھالے پڑ جاتے ہیں جن کو پینے کے صاف پانی کی سہولت میسر نہیں۔ جہاں دوردراز دیہاتوں میں لوگوں کو مختلف امراض بے بس کرتے ہوں، لیکن ان کے علاج کے لئے علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہوں، اگر کچھ سہولیات ہوں تو اتنا دور اور مشکل کہ یہ عمل ہمالیہ کی چوٹی سر کرنے کے برابر ہوں۔ ایسے میں مفلسی کے مارے یہ لوگ کسی ماہر ڈاکٹر سے کس طرح رجوع کر سکتے ہیں؟ یہ درست ہے کہ یہاں کے لوگ جدت کی دنیا سے ناآشنا ہیں۔ آج بھی تھر میں اکثر بچوں کی پیدائش ہسپاتولوں میں نہیں ہوتی۔ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جس علاقے کے لوگوں کے ووٹ حکومتی نمائندوں کے لئے قیمتی ہیں لیکن ان لوگوں کے دروازے تک علاج کی بہتر سہولیات دینا اور جہالت کے اندھیروں کو علم کی روشنی دینا حکومت وقت کے فرائض میں شامل کیوں نہیں؟ 

 چند برسوں سے تھر مسلسل قحط کی لپیٹ میں ہے۔ سینکڑوں بچے اپنی مﺅں کی جھولی خالی کر کے قبرستاوں میں مسکن بنا چکے ہیں ۔ کئی گھر اجڑ چکے ہیں۔ ان گھروں کے اجڑنے کا سبب حکومت کی سستی ہے کہ تھر میں معصوم گلاب مسلسل مرجھا رہے ہیں۔ لیکن مسند نشینوں کو تھر میں مہیا کی گئی” سہولیات“ گنوانے سے فرصت نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالتی کمیشن جب رپورٹ دیتی ہے تو حکومت کس حد تک اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ 

 روزنامہ سندھ ایکسپریس داکوﺅں کی فریق بنی ہوئی پولیس اور حکومت کی بے بسی کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ غریب لوگوں کے لئے ڈاکولا کا کردار بنی ہوئی پولیس اور ڈاکوﺅں کے معاملے میں ان کا ساتھ دینے یا پھر ان کو دیکھ کر راستہ تبدیل کرنے کا کردار عام لوگوں کے لئے نیا نہیں ہے۔ جرائم کا وجود، در اصل مجرموں، بھوتاروں اور پولیس کی ٹرائیکا کی بناءپر ہے۔ بااثر وڈیرے اپنا رعب اور دبدبہ برقرار رکھنے کے لئے اپنے علاقے میں اپنی مرضی کے پولیس اہلکار تعینات کرتا ہے۔ جرم اور مجرم کی سرپرستی کرنے والے اس اشرافیہ اور پولیس کی معیشت بنی ہوئی ہے۔ اغوا انڈسٹری اس ٹرائکا کی آکسیجن کے ذریعے ہی سانس لنتی ہے۔ سازگار حالات میں یہ انڈسٹری ابھرتی ہے اور ترقی کرتی ہے جبکہ ناسازگار حالات میں وہ عارضی طور پر ہائبرنیشن میں چلی جاتی ہے۔ 

 کچھ عرصے کی خاموشی کے بعد اغوا انڈسٹری دوبارہ سرگرم ہو گئی ہے۔ پولیس شہدادکوٹ سے اغوا ہونے والے دو افراد ایک ماہ گزرنے کے بعد بھ بازیاب نہیں کرسکی تھی کہ میروخان سے دوافراد کو اغوا کیا گیا۔ جس کے بعد شہدادکوٹ ضلع میں مغویوں کی تعداد چار ہو گئی ہے۔ ایس یس پی شہدادکوٹ نے نصیرآباد اور قمبر کے تھانیداروں کو داخوﺅں سے گٹھ جوڑ کے الزام میں ریورٹ کردیا ہے۔ اس پولیس افسر کا کہنا ہے کہ جب بھی پولیس ڈاکوﺅں کے خالف کارروائی کا فیصلہ کرتی تھی تو یہ دونوں تھانیدار انہیں پہلے سے مطلع کر دیتے تھے۔ 

 وہ بھی زمانہ تھا جب جرائم کی خبریں سندھ کے اخبارات میں کسی کونے تک محدود ہوتی تھیں۔ پھر بڑھتے جرائم کے ساتھ یہ خبریں زیادہ جگہ لیتی گئیں اور اب پورا اخبار ان خبروں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ان خبروں پر ایک نظر ڈالنے سے سندھ میں گورننس اور پولیس کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ تمام پولیس افسران خان ہیں۔ یقیننا ایسے فرض شناس افسران کی بھی کمی نہیں ہے جنہوں نے پولیس کا مزاج تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ فورس کی مزاج تبدیل کرنے کی اس کوشش کے دوران ان کا بااثر افراد کے ہاتھوں تبادلہ ہوگیا۔ باقی افسران ان بااثر افراد کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں ۔

 معصوم بچی فضیلہ سرکی کے اغوا کو اب کئی برس بیت گئے لیکن پولیس اسے بازیاب کرانے میں ناکام رہی۔ حالنکہ وزیراعلیٰ سندھ اس ضمن میں احکامات اور ہدایات بھی جاری کرچکے تھے۔ لیکن پولیس کے انتظامی سربراہان اس حکم کو کسی حساب میں لانے کو تیار نہیں۔ عوام کا تحفظ ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہاں قانون کا ہاتھ فالج زدہ بنا ہوا ہے۔ کیا وزیر داخلہ کو معلوم ہے کہ شہدادکوٹ سے اغوا ہونے والوں کو پورا ایک ماہ ہوگیا؟ اگر نہیں معلوم تو بے خبری ایک بڑیٰ خبر ہے۔


 شہدادکوٹ سے اغوا کی واردات کے بعد مجرموں نے انتظامیہ کے ردعمل کو پرکھ لیااو میروخان سے اغوا کی دوسری واردات کی۔ آخر ڈاکو سندھ حکومت کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ انہوں نے تو اپنا پیغام دے دیا، دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت اس کا کیا جواب دیتی ہے ۔ 

 فروری 12 , 2016

رینجرز کو پولیسنگ کے اختیارات



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
 رینجرز کو پولیسنگ کے اختیارات دینے کا معاملہ۔ 
سانگھڑ میں بلدیاتی انتخابات سے پہلے قتل ۔۔ 
گنے کی قیمتیں

 سندھ میں رینجرز کو پولیسنگ کے اختیارات دینے کا معاملہ پورا ہفتہ میڈیا اور سیاسی حلقوں میں زیر بحث رہا۔رینجرز اگرچہ صوابئی حکومت کے کہنے پر دارلحکومت میں گزشتہ دو دہائیوں سے تعینات ہے جسے پولیس کی مدد کے لئے ملک کے اس معاشی حب میں جرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے بلایا گیا تھا۔ لیکن کراچی میں موجودہ نواز شریف حکومت کے دور میں آپریشن کرنے کے لئے اس کوکو رواں سال جولائی میں پولیسنگ کے اختیارات چار ماہ کے لئے دیئے گئے تھے۔ جس کی مدت چھ جولائی کو ختم ہو گئی تھی۔ 

کراچی آپریشن میں بڑی کامیابیاں حاصؒ ہوئیں جس کا اعتراف صوبائی خواہ وفاقی دونوں حکومتیں کر رہی ہیں ۔ رینجرز اور وفاقی حکومت کا خیال تھا جو کہ بعد میں دباﺅ کی صورت میں بھی ظاہر ہوا کہ رینجرز کے ان خصوصی اختیارات میں مزید توسیع کردی جائے۔ صوبائی حکومت کو اس ضمن میں بعض تحفظات تھے کہ رینجرز اپنے میڈیٹ اور حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ جس سے سویلین اتھارٹی میں مداخلت ہو رہی ہے۔ 

یہ معاملہ اس وجہ سے بھی پیش آیا کہ رینجرز نے کرپشن کے بعض کیسز میں ہاتھ ڈالنا شروع کر دیئے تھے۔ اس میں بعض حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے لوگ بھی ملوث ہو رہے تھے۔ اخبارات میں ہفتے بھر تک اس معاملے کے مختلف پہلوﺅں پر بحث اور اراءشایع ہوتی رہی۔ زیادہ تر اخبارات کا خیال یہ تھا کہ رینجرز کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں انہی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ 

اور دہشتگردوں، بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان کے معاملات کو دیکھنا چاہئے۔ کرپشن کی شکایات ہیں لیکن اس کے لئے صوبے خواہ وفاق میں ایسے ادار موجود ہیں ان کو ی کام کرنا چاہئے۔ دہشتگردی وغیرہ اور وہائیٹ کالر کرائیم کو الگ الگ سے ڈیل کرنا چاہئے۔ ایسا نہ کیا گیا تو خود آپریشن متاثر ہوگا۔ 

صوبائی حکومت پر جب یہ دباﺅ بڑھا تو وہ اس معاملے کو صوبائی اسمبلی میں لے گئی، جہاں رینجرز کو مشروط اختیارات دینے کی قرارداد منظور کی گئی ہے۔ اس قراداد اور صوبائی حکومت کے فیصلے سے وفاقی وزیر داخلا خوش نہیں ہیں۔ مشروط قراراد جس میں قانون نافذ کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ان کے اختیارات گھٹا دیئے گئے ہیں۔ کیونکہ کہ بعض معاملات میں رینجرز کو فری ہینڈ نہیں دیا گیا ہے اور اسے صوبائی حکومت کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ اخبارات کا کہنا ہے کہ بنیادی اتھارٹی صوبائی حکومت کی ہے اور اسی نے رینجرز کو بلایا ہے اور مشروط طور پر اختیارات دیئے ہیں، جس کی صوبائی اسمبلی نے توثیق بھی کی ہے۔ لہٰذا اس کی قراداد اور فیصلے کا احترام کیا جانا چاہئے۔ 

گزشتہ دنوں بلدیاتی انتخابات کی مہم کے دوران سانگھڑ میں ہونے والے تصادم اور اس کے نتیجے میں چار افراد کا قتل ہوا۔ روزنامہ سندھ ایکسپریس سانگھڑ سانحہ اور انتظامیہ کی نااہلی کے عنوان سے لکھتا ہے کہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سانگھڑ کی انتخابی مہم کے دوران چار انسانی جانیں ضیائع ہو گئیں ۔ ان انتخابات کے پہلے مرحلے میں ضعل خیرپور کے درازا پولگ اسٹیشن پر 12 افراد قتل ہوگئے تھے۔

 خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں بھی اس طرح کی خون ریزی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا سانگھڑ میں انتخابات ملتوی کرکے 17 دسمبر کو کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن پولنگ سے دو روز قبل کے واقعہ میں چار افراد کی قیمتی جانیں چلی گئیں ۔ خبروں کے مطابق دو مخالف جماعتوں کی رییاں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئیں بات نعرے بازی سے شروع ہوئی اور پتھاﺅ اور ہوائی فائرنگ کے بعد ایک دوسرے پر براہ راست فائرنگ تک چلی گئی۔ 

 سانگھڑ ضلع میں رونما ہونے والا یہ واقعہ ناتظامیہ کی نااہلی ثابت کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہامری سیاسی جماعتوں میں عدم برداشت کی بھی چغلی لگاتا ہے ۔ ہمارے جیسے ملک جہاں ابھی جمہوریت کے پاﺅں پختے نہیں ہوئے ہیں وہاں اس طرح کے واقعات ذاتی دشمنیوں کا باعث بن جاتے ہیں جو بعد میں نسل در نسل چلتی ہیں ۔

 یہ بدقسمتی ہے کہ ہم اختلااف رائے اور مخلتف نقطہ نظر کو ذاتی دشمنی سمجھتے ہیں۔ ہم دلیل کے بجائے بندوق کی زبان میں بات کرنے لگتے ہیں۔ اپنے مخالف کو دلائل کے ذرعیے قائل کرنے کے بجائے بندوق کے ذریعے ہمیشہ کے لئے خاموش کرا دیتے ہیں۔ ہم جو ابھی تک قبیلوں ، بردریوں اور ذات پات میں بٹے ہوئے ہپیں وہ اپنی جھولی میں جمہوریت کے لئے جگہ نہیں بنا پائے ہیں۔ اس ضمن میں انتظامیہ سے سخت پوچھ گچھ کرنے کی ضرورت ہے اور ان اقدامات کی بھی ضرورت ہے کہ یہ واقعہ جو سیاسی بنیادوں پر ہوا ہے وہ ذاتی دشمنیوں میں تبدیل نہ ہو جائے۔ 
 روازنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سنیٹ کی فوڈ سیکیورٹی سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی میں بتایا گیا کہ سندھ کے کاشتکار گنے کی صحیح قیمتیں نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ کاشتکاروں کو صحیح قیمتیں نہ دینا حکومت سندھ کی بے ایمانی ہے اور اس ضمن میں مشترکہ مفادات کی کونسل مطلوبہ کردار ادا نہ کر سکی ہے۔ 

گنا ہو یا کپاس یا دھان کی فصل جب پک جاتے ہیں تو قیمتیں گرا دی جاتی ہیں نتیجے میں کاشکاروں کو اپنے فصل کی صحیح قیمتیں نہیں مل پاتیں۔ حال ہی میں دیر سے ہی صحیح ھکومت نے گنے کی قیمت مقرر کی لیکن اس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے ۔ اس ضمن میں چند روز قبل کاشکاروں نے سندھ کے دارلحکومت میں ویزر اعلیٰ ہاﺅس کے سامنے مظاہر کیا تھا جن پر لاٹھیاں برسائی گئیںس۔ 

سندھ میں زراعت کے کمزور ہونے اور دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی غربت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فصلوں کی قیمتیں صحیح نہیں ملتی اور وقت پر فصل نہیں اٹحائے جاتے۔ بظاہر یہ صوبائی معاملہ ہے لیکن غربت اور فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے ملکی معمالہ بھی ہے جس کے لئے صوبوں کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت کو موثر اور قابل عمل قبول پالیسی بنانے کی ضرورت ہے
December 18, 2015
Nai Baat