Thursday, October 11, 2018

سندھ: ربیع کے موسم میں پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے

05-Oct-2018
گزشتہ ہفتے سندھ میں مختلف سرگرمیاں سامنے آئی ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں صورت حال اور کچھ ماحول تبدیل ہوگا۔ گزشتہ تین سال سے سندھ کے کاشتکار گنے کی بروقت کٹائی اور قیمت صحیح نہ ملنے کے خلاف احتجاج کرتے رہے۔ لیکن سندھ حکومت نے ان کی ایک بھی نہ سنی۔ بعد میں سندھ حکومت نے شوگرملز کو سبسڈی دی، جس کے ذریعے کاشتکاروں کو معمولی ریلیف ملا۔ اب شوگر ملز کا موسم دوبارہ شروع ہونے والا ہے۔ منی لانڈرنگ کیس کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی نے اومنی گروپ کی 13 شوگر ملز کو سال 2013ء سے 2017ء تک دی گئی سبسڈی کیتفصیلات طلب کر لی ہیں۔ شوگر ملز کو ڈھائی ارب روپے کی سبسڈی دینے کے بعد مزید ڈیڑھ ارب روپے کی سبسڈی دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ شوگر ملزکے حوالے سے واٹر کمیشن نے گنے کا سیزن شروع ہونے سے پہلے شوگر ملز کو ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کی ہدایت کی ہے۔ کراچی میں صفائی کا معاملہ شہریوں کے لئے وبال جان بنا ہوا ہے۔ اس ضمن میں کراچی میونسپل اور نہ سندھ حکومت کوئی موثر اقدامات کر سکی۔ بعد میں ایک چینی کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا لیکن اس کی کارکردگی بھی متاثر کن نہیں رہی۔ کمپنی نے بعض رکاوٹوں کی نشاندہی کی ہے ۔ واٹرکمیشن نے چینی کمپنی کے مطالبے پر دس روز کے اندر کراچی میں صفائی کے لئے مطلوبہ مشینری اور ملازموں کی کمی پوری کرنے اور چینی افسران کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ کراچی میں واٹر بورڈ اور کے ایم سی کی پانچ ارب روپے مالیت کی زمین چائنا کٹنگ کے ذریعے سیاسی کارکنوں اور دیگر افراد کو الاٹ کرنے کی تحقیقات تیز ہو گئی۔ کراچیکے سابق میئر اور پا ک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کو ایک سوالنامہ بھیج کر زمین کی الاٹمنٹ کے بارے میں پوچھا گیا ہے کہ فلاحی مقاصد کےلئے مخصوص کی گئی زمین 7 ہزار افراد کو کس قانون کے تحت الاٹ کی گئی؟ اینٹی کرپشن کے سامنے سابق میئر اور 12 افسران نے بیانات ریکارڈ کرائے ہیں۔ حیدرآباد ریونیو آفس میں سندھ بورڈ آف ریونیو کے 7ممبران گزشتہ 15 برسوں سے نہیں بیٹھ رہے ہیں جس کی وجہ سے زمین سے متعلق ہزاروں معاملات
اور مقدمات حل نہیں ہو سکے ہیں۔پورٹ قاسم کے ملازمین ایک ہفتے سے احتجاج پر ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں تین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ تھر میں قحط کے متاثرین کی امدادی کاروائیاں شروع تو کی ہیں لیکن امدادی گندم کی تقسیم کا مرکز تحصیل ہید کوارٹر رکھنے کی وجہ سے مستحقین کی وہاں تک رسائی مشکل ہو گئی ہے۔ کئی دیہات تحصیل ہیڈکوارٹرز سے ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر ہیں۔
ربیع کے موسم میں سندھ کو کم پانی ملنے کی اطلاعات کے بعد سندھ کے تمام اخبارات نے اس موضوع پر اداریے اور مضامین لکھے ہیں۔ ’’کیا سندھ ربیع میںبھی پیاسا رہے گا؟‘‘ کے عنوان سے ’’روزنامہ سندھ ایکسپریس‘‘ لکھتا ہے کہ وفاق اور چھوٹے صوبوں کے درمیان معاملات ماضی میں بھی زیادہ مثبت نہیں رہے ہیں لیکن جب سے تحریک انصاف حکومت میں آئی ہے، تب سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر وفاقی حکومت کرنا کیا چاہتی ہے؟ ملکی ترقی اور خوشحالی کے نام پر تحریک انصاف کی حکومت نے جو پالیسیاں اختیار کی ہیں، وہ براہ راست صوبائی حقوق سے متصادم ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ وفاق صوبوں کی بات سننے کے لئے بھی تیار نہیں۔ سندھ تمام صوبوں سے زیادہ کما کر دیتا ہے لیکن اس کے حصے میں کم رقومات آتی ہیں۔ سندھ کو پانی میں بھی جائز اور قانونی طور پر مانا ہوا حصہ نہیں دیا جارہا ہے۔ پانی کی تقسیم میں سندھ کو خریف کی موسم کے دوران شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب یہ اشارے مل رہے ہیں کہ ربیع کے موسم کے دوران بھی سندھ کو کم پانی ملے گا۔ وفاقی حکومت کے عزائم بتاتے ہیں کہ وہ کسی بھی معاہدے اور قانون کا احترام کرنا نہیں چاہتی۔ صوبائی وزیر زراعت کا کہنا ہے کہ وفاق کی جانب سے سندھ کے حصے کا پانی کم کرنے کے فیصلے کو ہم مسترد کرتے ہیں کیونکہ 91 کےمعاہدے کے تحت سندھ کو پانی نہ دینا اس صوبے کو بنجر بنانے کی سازش ہے۔صوبائی وزیر زراعت نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’ ربیع میں سندھ کو اسکے حصہ کا پانی نہ ملنے کی صورت میں صوبے کی فصلیں تباہ ہو جائیں گی۔ مزید یہ کہ پنجاب کو حصے سے زیادہ پانی دینے کی صورت میں وفاقی حکومت کیکارکردگی اور رویہ کا بھی پتہ چلتا ہے۔ وزیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاؤن سٹریم کوٹری پانی نہیں چھوڑا گیا تو ساحلی پٹی کی مزید زمینیں سمندر برد ہو جائیں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت سندھ کے لوگوں سے کالاباغ ڈیم کی مخالفت اور حکمران جماعت کو ووٹ نہ دینے کا بدلہ لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اس وجہ سے ان صوبوں کی جانب سے سندھ کو پانی دینے کی مخالفت کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھایا جائے گا۔ ہم صوبائی وزیر زراعت کے اس موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے صوبے کے حقوقکے لئے آواز اٹھانے کا عزم کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صوبائی حکومت بھی یہی موقف اختیار کرے گی اور سندھ میں ربیع کے موسم میں پانی کی فراہمی کویقینی بنائے گی۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ اور پنجاب کے بارڈر پر ایک بار پھر ڈاکوؤں کی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ اوباوڑو تحصیل کے کھنبڑا پولیس حدود میں ایک کسان کے اغوا کی کوشش پر مزاحمت کے دوران مشتاق شر کی ہلاکت سے گھوٹکی ضلع میں امن کی فاختہ اڑ گئی۔ گزشتہ چند ماہ سے اوباوڑو کے کچے کےعلاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف جاری آپریشن کے بارے میں مختلف سوالات اٹھائے جارہے تھے۔ گاؤں پنہوں خان مزار ی کے قریب زمیندار اپنے کسانوں کے ساتھ زمینوں کو پانی دے رہے تھے کہ مسلح افراد نے ان پر حملہ کردیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکو واردات کے بعد راؤنتی کی طرف چلے گئے جہاں پر ماضی میں ڈاکو سلطان شر اور دیگر ڈاکوؤں کے ٹھکانے تھے۔ راؤنی اور ماچھکو کے علاقے پس میں ملتے ہیں۔ ماچھکو پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی حدمیں ہے۔ اکثر ماچھکو اور راؤنتی کی حدود میں دونوں صوبوں کے ڈاکو مشترکہ کارروائیاں بھی کرتے ہیں۔ سندھ پولیس جب آپریشن کرتی ہے تو ڈاکو پنجاب کیطرف چلے جاتے ہیں۔ ماضی میں گھوٹکی، کندھکوٹ اور رھیم یار خان اضلاع میں مشترکہ اور بیک وقت بھی آپریشن کے گئے تھے۔ حالیہ وارداتوں سے لگتا ہے کہ یہ علاقہ تاحال کلی طور پر ڈاکوؤں سے صاف نہیں ہو سکا۔ کئی برسوں بعد اغوا کی واردات نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ گزشتہ روز کوش برادریکے لوگون نے کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا اور کہا تھا کہ ڈاکو سلطان شر دوبارہ سرگرم ہو گیا ہے اور اس نے وارداتیں شروع کردی ہیں۔
https://www.naibaat.pk/05-Oct-2018/17483

سندھی کو بطور لازمی مضمون پڑھانے کی ہدایت


سندھ نامہ سہیل سانگی

سندھی میڈیا میں ڈٰیموں کی تعمیر، غیر ملکیوں کو قومی شناختی کارڈ کا اجراء کا اعلان، پانی کی قلت، بجٹ، اور تحریک انصاف حکومت کے فیصلے مجموعی طور موضوع بحث ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کے معاملات پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ روزنامہ عبرت لکتا ہے کہ محکمہ تعلیم سندھ نے صوبے کے تمام نجی تعلیمی اداروں میں سندھی مضمون کو لازمی پڑھانے کی ہدایت کرتے ہوئے تجربیکار اساتذہ مقرر کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ صوبائی وزیر تعلیم سید سرادر علی شاہ کی ان ہدایات کے بعد ڈائریکٹرجنرل پرائیونٹ اسکولز نے خط لکھ کر نجی اسکولوں کی انتظامیہ کو صوبائی وزیرا ور سیکریٹری کی ہدایات سے آگاہ کردیا ہے کہ ان ہدایات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ دنیا میں ہر قوم کو اپنی زبان اور ثقافت سے لگاؤ ہونا فطری عمل ہے۔ اسی طرح سے سندھ کے لوگ بھی اپنی زبان سے محبت رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی زبان ترقی کرے۔ جب بھی ان کی زبان پر وار ہوا ہے اس کی وارث قوم نے ہر فورم پر اس کی مذمت اور مخالفت کی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کے بعد سندھ زبان نے اپنے تحفظ اور بقا کے لئے کئی مشکلات برداشت کی ہیں۔ جس کے سندھی زبان پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ قیام پاکستان سے تقریبا ایک سو سال پہلے تک سندھی زبان سندھ کے اسکولوں، کالجوں میں لازمی پڑھائی جاتی تھی اور سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں استعمال کی جاتی تھی۔ بدقسمتی سے سندھی کے ساتھ تعصب رکھنے والنے والے بعض حلقوں نے خاص طور پر ون یونٹ کے قیام کے بعد سندھی بطور دفتری زابن کی حیثیت ختم کردی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ ندھی زبان کی حیثیت اور اہمیت کے پیش نظر اس کی ترقی اور فروغ کے لئے اقدامات کئے جاتے۔ لیکن فیصلے اس کے برعکس ہوتے رہے۔ سندھی زبان اور اس کے بولنے والوں سے ناانصافی کی گئی۔ ماضی کے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کے متعصبانہ فیصلوں کا خمیازہ سندھ کے لوگ ابھی تک بھگت رہے ہیں۔
سندھی زبان کویہ اعزار حاصل ہے کہ یہ اس خطے میں قدیم بولی اور لکھی جانے والی زبان ہے۔ تاریخ کے اوراق بھی اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ جب انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کیا ، اس وقت سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان سندھی تھی۔ اس حقیقت نے انگریزوں کو مجبور کیا کہ سندھی کو سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کریں اور رائج کریں۔ اس مقصد کے لئے نہ صرف سندھی پڑھے اور لکھنے کے لئے درسگاہیں قائم کی گئیں بلکہ سندھ میں تعینات انگریز افسران کے لئے لازمی قرار دیا گیا کہ وہ سندھی سیکھیں۔لیکن انگریزوں کے جانے کے بعد حکمرانوں نے سندھی کی حیثیت بھلا دی۔
ماضی میں کئی مرتبہ تمام نجی اسکولوں میں سندھی لازمی طور پر پڑھانے کے حکمنامے جاری ہوتے رہے، لیکن نجی اسکولوں کی مافیا اتنی مضبوط ہے کہ ان حکمناموں پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔ اب ایک بار پھر وزیرتعلیم سید سردار علی شاہ نے سندھی کو بطور لازمی مضمون پڑھانے کی ہدایت کی ہے۔ اس موقع پر ہم وزیر موصوف کے نوٹس میں یہ بات لانا چاہیں گے کہ کراچی میں جو بچے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں انہیں سندھ زبان کے الف بے کا بھی پتہ نہیں۔ اس صورت میں یہ کیسے ممکن ہوگا کہ اس میٹروپولیٹن شہر میں جہاں ہزارہا نجی اسکول موجود ہیں ج کہ سندھی لازمی پڑھانے سے منکر ہیں۔ یہ وزیر تعلیم کے لئے بہت بڑا چیلینج ہے۔ جس کے لئے ایک جامع حکمت عملی بنانی پڑے گی۔
وزیر تعلیم کا یہ احسن فیصلہ ہے جس کی ہم حمایت کرتے ہیں اور مشورہ دیتے ہین کہ کراچی سے لیکر کشمور تک سندھی زبان لازمی طور پر پڑھانے کو یقینی بنانے کے لئے متحرک کمیٹیاں تشکیل دی جائیں ، جو مختلف وقت پر معائنہ کر کے بتائیں کہ محکمہ تعلیم کی ان ہدیات پر کتنا موثر انداز میں عمل درآمد کیا جارہا ہے؟
سندھ کی زراعت کو بچانے کے لئے چند تجاویز کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ گزشتہ چند عشروں سے سندھ کی زراعت بحران کی لپیٹ میں ہے۔ حکومت کی جانب سے اس بحران سے نمٹنے کے لئے موثر انداز میں نمٹنے کا بحران بھی شدید شکل میں موجود ہے۔ پانی کی قلت سندھ میں زراعت کی تباہی کا واحد سبب نہیں۔ بلکہ جو پانی ملتا ہے، اس کی بہتر ریگیولیشن نہ ہونا، پانی کی چوری، آباشی افسران کی جانب سے پانی کی فروخت، نقلی بیج، کھاد، جراثیم کش ادویات، زراعت کا موسمیاتی تبدیلیوں اور بدلتے ہوئے ماحول سے ہم آہنگ نہ ہوا، محکمہ زراعت حکومت کی ترجیح نہ ہونا، کاشتکاروں کو پیداوار کی مناسب قیمت نہ ملنا، منصوبے کے تحت صوبے میں گنے کے بیلٹ کی تباہی، عوام کے پیسے پر بوجھ بنے ہوئے کرپشن اور غیر فعال تحقیقی ادارے، سمیت متعدد عناصر ہیں جو مل کر سندھ کی زراعت کو تباہ کر چکے ہیں۔ اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ زراعت کے اصلاح احوال نہ کرنے کے نتیجے میں غربت اور پسماندگی نے صوبے کو اپنی آماجگاہ بنا لی ہے۔ سندھ کا زمیندار طبقہ اقتدار میں شراکت کے ذریعے اپنا حصہ وصول کر لیتا ہے۔ لیکن چھوٹے کاشتکار اور کسان کے جینے کا ذریعہ زراعت ہی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں زرعی پالیسی کا اعلان کیا گیا، اس پالیسی میں بھی کئی نقائص اور جھول تھے۔ جن کو درست کر کے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس ضمن میں نہ گزشتہ حکومت نے کوشش کی اور نہ موجودہ حکومت کچھ کرنے کے لئے سنیجدہ ہے۔
سندھ میں زرعی تحقیق کے لئے قائم متعدد اداروں کی غیر فعالیت اور تباہی خود تحقیق طلب موضوع ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحقیق کو عام کرنے کے لئے زرعی توسیع کا ادارہ وجود رکھتا ہے۔ اس کی کارکردگی پرھنے کے لء مایکرواسکوپ کی ضرورت پڑے گی۔ زرعی انجنیئرنگ کا ادارہ بھی صرف کاغذوں پر موجود ہے۔ یہ ادارے کرپشن کی لپیٹ میں ہونے کی وجہ سے بھی سندھ کے عوام کے لئے بے مقصد بن گئے ہیں۔ صوبے میں پنگریو ، سکرنڈ، سیٹھارجا، اڈیرولال، ڈیٹ فارم کوٹ ڈیجی، رائیس فارم ڈوکری، سمیت متعدد سیڈ فارم موجود جن پر اب ناجائز قبضے ہو چکے ہیں۔ اندارے پر یہ قبضے ختم کراکر عوام کے لئے بامقصد بنانے کی ضرورت ہے۔
زراعت کی تباہی کی ایک وجہ نقلی بیج، کھاد اور جراثیم کش ادویات بھی ہے۔ نقلی بیج کمپنیاں پیسوں سے رجسٹر ہو جاتی ہیں۔ ان پر کوئی نظرداری کرنے والا موجود نہیں۔ سندھ سیڈ کارپوریشن غیر فعال ہے۔ دنیا میں زرعی ادارے اپنی زراعت کو موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے اداروں کو کچوئی پروہ ہی نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ کی زراعت کو نمائشی اقداما تکے بجائے جدید سائنسی طریقے اختیار کرتے ہوئے حقیقی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
Sindh Nama - Soahil Sangi - Nai Baat - Sep 29, 2018