Sunday, August 4, 2019

حکومت سندھ کی کارکردگی پر عدالتی سوالات


حکومت سندھ  کی کارکردگی پر عدالتی سوالات
سندھ نامہ   سہیل سانگی
روزنامہ پنہنجی اخبار ”کیا وفاق کے لئے کراچی ہی سندھ ہے؟“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ میں دو روزہ بارش نے  بلدیاتی اداروں کی  اہلیت کو بے نقاب کردیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ سندھ کے لوگوں کی یہ خوش فہمی بھی ہوا ہو گئی کہ نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی سے ان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بارش کے باعث لوگوں کو پہنچنے والی تکالیف، جانی خواہ مالی نقصان  پر جو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہورہی ہے، وہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑنے کے مترادف ہے۔ بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت سے فنڈ نہ ملنے کی  شکایت کر رہے ہیں۔ صوبائی حکومت وفاق کی جانب سے عدم تعاون کی بات کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے لئے خراب حکمرانی کا کھاتہ کھول کے بیٹھی ہے۔ 
حالیہ بارشوں کے بعد بلدیاتی ادارے اور صوبائی حکومت کی کارکردگی پر مسلسل تنیقد کی جارہی ہے۔ پورے معاملے میں وفاق یوں لاتعلق کھڑا ہے جیسے سندھ پاکستان کا حصہ نہیں۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ میں بھی سندھ میں بارش کا معاملہ زیر بحث آیا لیکن  بعد میں یہی بات دہرائی گئی کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ کراچی کو اکیلا نہیں چھوڑا جائے گا۔ بارش  پورے سندھ میں ہوئی ہے، کراچی اور حیدرآباد ڈویزن زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ وفاقی حکومت اگر کراچی کا درد محسوس کرتی ہے تو  ہمارے سر آنکھوں پر۔کیا حیدرآباد کا حصہ نہیں؟ ٹھٹہ، لاڑکانہ اور سکھر کا بھی درد محسوس کرنا چاہئے۔ اگر کراچی کی بات کی جائے، عشروں تک اس شہر کے مالک ہونے کی دعویدار جماعت، جس کے وفاقی وزراءٗ صوبائی حکومت پر غصہ نکالنے کاکوئی موقع نہیں جانے دیتے، کیا وہ بتائیں گے کہ مشرف دور سے لیکر اس شہر کے لئے جو  فنڈ ملتے رہے وہ کہاں گئے؟  یہ کہا جارہا ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران کراچی کو صرف ایک سو ارب روپے ملے ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے، کیا ان ایک سو ارب روپے کے بعد شہر کی کیا شکل بنی ہے؟کراچی کے بلدیاتی اداروں میں بھرتیوں سے لیکر پانی کی گزرگاہوں پر قبضے، چائنا کٹنگ میں کون کون ملوث رہا ہے؟ آج پانی کی گزرگاہیں بند ہیں، ان پر کثیر منزلہ عمارات کی تعمیر کس نے کی؟ ایم کیو ایم  ماضی میں نہ صرف صوبائی حکومت کا حصہ رہی ہے بلکہ محکمہ بلدیات اور کراچی و حیدرآباد کے بلدیاتی ادارے بھی اس کے پاس رہے ہیں۔ کراچی کا مسئلہ پانچ دس سال کا نہیں۔ لہٰذا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہ کی جائے، اس سے سندھ کے لوگوں کی تکالیف کا ازالہ نہیں ہوگا۔ سندھ کے لوگ دیکھنا چاہیں گے کہ ان کے بچوں کے منہ سے نوالہ ٹیکس کی شکل میں چھین لیا گیا، اس کے عوض انہیں کیا  شہری سہولیات ملی؟ کراچی ملک کا اہم شہر ہے، اس کی فکر سب کو ہونی چاہئے۔ لیکن وفاق کو پورا سندھ ایک ہی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ بجلی کی فراہمی وفاقی حکومت کے ماتحت محکمہ ہے۔ گزشتہ چار روز سے  بارش کے متاثرہ باسیوں کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ حالیہ بارشیں عوام تو برداشت کر لے گا، لیکن ان اداروں اور حکومت کی کارکردگی پر جو زخم لگے ہیں، وہ بھلائے نہیں جا سکیں گے۔ 
خبر ہے کہ خیرپور میڈیکل کالج کی رجسٹریشن نہ سکی ہے، نتیجے میں کالج کے 84 فیکلٹی ممبران نے ریگیولر نہ ہونے پر استعیفا دے دیا ہے۔یہاں داخلہ لینے والے طلباٗ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ اسی طرح سے مہر میڈیکل کالج سکھر کا معاملہ بھی تاحال حل نہیں ہو سکا ہے۔ 
روزنامہ کاوش”تھوڑے میں سمجھ جائیں“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ جمہوری معاشروں میں مخالف جماعتیں حکومت پر تنقید کرتی رہتی ہیں۔ اس کے لئے یہی سمجھا جاتا ہے، چونکہ یہ مخالف جماعتیں ہیں اس لئے تنقید کر رہی ہیں۔ لیکن جب عدلیہ جیسا معزز فورم بھی اپنے ریمارکس میں خراب حکمرانی پر تشویش کا اظہار کرتا ہے، تو معاملے کی نسجیدگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اگر کوئی معزز جج یہ ریماکرس دے کہ فلاں صوبے کی حکومت برائے فروخت ہے، پھر اس صوبائی حکومت کو یقیننا اس مار کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں  محکمہ صحت میں بھرتیوں کے حوالے سے معزز جج نے یہ ریمارکس دیئے۔ سندھ حکومت نے محکمہ صحت میں بھرتیوں کے لئے اشتہار دیا تھا۔اس اشتہار کے خلاف پہلے سے بھرتی کئے گئے ملازمین نے  درخواست دی جنہیں ملازمت تو دی گئی لیکن  تعیناتی نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے معزز  عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لوگوں سے پیسے لیکربھرتی تو کرلیا جاتا ہے لیکن بعد میں انہیں تنخواہیں نہیں ملتی۔ دیکھا جائے تو اس طرح کی پریکٹس ہمارے اداروں میں ایک عرصے سے جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھرتیوں کے لئے موثر اور مناسب طریقہ کار موجود نہیں۔ لے دے کر صوبائی پبلک سروس کمیشن کا ایک ادارہ ہے جہاں پر بھی مداخلت شروع ہو گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگوں میں یہ سوچ پختہ ہوگئی ہے کہ ملامت پیسے یا سفارش کے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا سب نے اس طر ف دوڑ  نے لگے۔ یہاں پر بیروزگاروں کی مجبوریوں سے کھیلنے  کے ایسے طریقے اختیار کئے گئے کہ لوگوں کو مبینہ طور پیسوں کے عوض بھرتی تو کرلیا جاتا ہے لیکن تنخواہیں نہیں دی جاتی۔ 
اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کا کیس تاحال اپنے منطقی نتیجے پر نہیں پہنچ پایا ہے۔ اس کیس میں ہزاروں لوگ محکمہ تعلیم میں ملازم تھے بھی اور نہ بھی تھے۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ لوگوں سے وصول کئے گئے پیسوں سے ہی ایک دو ماہ تک انہیں تنخواہیں دی گئیں اور بعد میں انہیں فارغ کردیا گیا۔ اس تخیلقی انداز کی کرپشن  پر عمل  متعلقہ محکمہ کے اعلیٰ حکام کے ملوث ہونے کے بغیر ممکن نہیں۔بہتر حکمرانی خود بولتی ہے۔ اس کے لئے زیادہ دعوؤں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ میں بھرتیوں کے اس ڈرامے کے خاتمے کے لئے سنجیدگی اختیار کرنی چاہئے۔ عدالت کے ریمارکس اہم اشارہ ہیں۔ 

وزیراعظم کا دورہ: سندھ حکومت نظر انداز


Nai Baat July 13, 2019 


وزیراعظم کا دورہ:  سندھ حکومت نظر انداز

سندھ نامہ  سہیل سانگی

 وزیراعظم عمران خان تاجروں کے لئے کراچی آئے تھے، ان سے مل کر چلے گئے،تاجروں نے بھی ان کی  ایک بھی نہ مانی اور اب وہ نئے ٹیکس نظام کے خلاف ہڑتال کرنے جارہے ہیں۔ گورنر سندھ نے تاجروں کو دلاسہ دے کر  ہڑتال ملتوی کرائی ہوئی تھی۔  وزیراعظم نے صوبائی دارالحکومت میں قیام کے دوران رسمی طوربھی حکومت سندھ کے کسی نمائندے سے ملاقات نہیں کی۔وزیراعظم نے گورنر ہاؤس میں دس سے زائد اجلاس کئے۔حالانکہ کل اگر ہڑتال ہوتی ہے تو  امن  وامان  کے حوالے سے سندھ حکومت ذمہ دار ہوگی۔ اجلاسوں کے بعد جب صحافیوں نے ان اجلاسوں میں سندھ حکومت کی غیر موجودگی سے متعلق سوال پوچھا تو وزیراعظم بات گول کر گئے۔البتہ انہوں نے واضح کیا کہ سندھ میں گورنر راج کے بارے میں نہیں سوچا۔ گزشتہ دو ہفتوں سے ایم کیو ایم پاکستان خواہ پاک سرزمین پارٹی کراچی کے حوالے سے سرگرمی دکھا رہی تھیں، ان کو بھی نہیں پوچھا گیا۔ وزیراعظم کے دورہ کراچی  پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ماضی میں وزیراعظم نے کراچی کے لئے جو اعلانات کئے تھے ان کا کیا ہوا؟  حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے پاس کراچی کو ینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ عمران خان کو کراچی کے شہریوں نے ووٹ دیئے لیکن وہ صرف دورے کی رسمیں ادا کرنے آتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے  شہری علاقے کو چنا ہے اورتاجروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے، بلاول بھٹو زرداری سکھر شہر میں مہنگائی کے خلاف ریلی نکال رہے ہیں۔یہ دونوں جماعتوں کی مہم سے پتہ چلے گا کہ عام آدمی اپنے معاشی مسائل پر کس طرح سے ردعمل دیتا ہے۔ سیاست اور معیشت کا ایک دوسرے پر انحصار ہے لیکن جب یہ دونوں بحران کا شکار ہوں تو عوام پر کیا گزرے گی؟ لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ پریشان سیاسی حالات پر ہوں یا معاشی حالات پر۔
سندھ کے اخبارات  میں یہ موضوع بھی زیر بحث رہا کہ خیرپور سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے ایم پی اے منور وسان اور ان کے گارڈوں نے بل منظور نہ کرنے پرمبینہ طور آڈٹ افیسر لوکل گورنمنٹ پر حملہ کیا جس پر بلدیاتی اداروں کے ملازموں نے ہڑتال کر دی تھی۔ بعد میں ڈپٹی کمشنر کی مداخلت پر ہڑتال ختم کردی گئی۔ یہ ایم پی اے پیپلزپارٹی سندھ کے سنیئر لیڈر منظور وسان کے قریبی رشتہ دار بتائے جاتے ہیں۔
 خبر ہے کہ سندھ  سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اسلح کے شوقین نکلے۔ دو تین کو چھوڑ کر باقی سب حضرات حکمران جماعت  میں رہے ہیں اور انہی کسی نہ کسی طور پر  پولیس پروٹوکول حاصل رہا ہے۔تاہم وہ اپنے پاس جدید اسلح رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائے گئے اثاثوں کے مطابق پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرادری کے پاس ایک کروڑ 66  لاکھ  روپے کی مالیت کا اسلح ہے۔ان کے پاس سب سے زیادہ اسلح بتایا جاتا ہے۔  سردار چانڈیو کے پاس ساٹھ لاکھ روپے، بلاول بھٹو زرداری کے پاس تیس لاکھ روپے شرجیل میمن کے پاس پچیس لاکھ روپے کا اسلح ہے۔ میر منور تالپور کے پاس تقریبا ساڑھے بارہ لاکھ روپے، بیگم فریال تالپور کے پاس پونے چودہ لاکھ  روپے،  غلام علی تالپور کے پاس پچیس لاکھ روپے،  فہمیدہ مرزا کے پاس  نو لاکھ، روپے، ذوالفقار مرزا کے پاس سولہ لاکھ روپے کا اسلح ہے الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق  تقریبا تمام اراکین اسمبلی کے پاس اسلح ہے۔
 گھوٹکی،شکارپور اور بالائی سندھ کے دیگراضلاع میں اغوا برائے تاوان  کے واقعات جاری ہیں۔ان میں سے اکثر  تاوان کی ادائیگی اور مقامی اثر رسوخ کے ذریعے رہا ہو چکے ہیں تاہم ابھی تک نصف درجن افراد  ڈاکوؤں کے پاس یرغمال ہیں۔ اس اثناٗ میں سندھ پولیس نے بلیک بک جاری کی ہے۔ ”روزنامہ پنہنجی اخبار“ اداریے میں لکھتا ہے کہ چند ہفتے قبل سندھ پولیس نے  150 خطرناک مجرموں کی تصاویر سمیت تفصیلات سے متعلق  بلیک بوک چھپوا کر تھانوں پر کھ دی ہے۔ان جرائم پیشہ افراد کے سر کی قیمت دو لاکھ سے  چالیس لاکھ روپے تک مقرر کی گئی ہے۔ بلیک بک میں ہر جرائم پیشہ فرد کی ذاتی معلومات اور جرائم کا ریکارڈ شامل ہے۔ یہ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ مختلف تھانوں کو پتہ چلے کہ کون کون ملزم مطلوب اور روپوش ملزم ہے،  سندھ پولیس کی یہ کوشش پرانے انگریز دور کی ذہنیت کا تسلسل لگتی ہے۔ جب جرائم پیشہ افراد کی تصاویر تھانوں پر لٹکادی جاتی تھی۔ اس بلیک بوک  میں ملزم کے قد،، عمر، بالوں کے رنگ،  تاریخ پیدائش سے متعلق تمام معلومات موجود ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ آج کل وہ کہاں ہے؟  سندھی میں کہاوت ہے کہ پولیس کو سب پتہ ہے۔پولیس یہ بھی جانتی ہے کہ اس کی حد میں کون کون جرائم پیشہ ہے؟  وہ کن جرائم میں ملوث ہے؟ اس کا طریقہ واردات کیا ہے۔ اور کہاں ہوتا ہے؟  تھانیدار کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے کس جرائم پیشہ  فردکے پیچھے کون سی بااثر شخصیت ہے؟  عام طور پر پولیس کی ان جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ایک مفاہمت ہوتی ہے کہ وہ  بھلے اس کی حدود  میں رہیں، لیکن جرم کسی اور حدود میں کریں۔ نتیجے میں لوگ اغوا ہوتے ہیں اور بعد میں تاوان ادا کر کے رہائی پاتے ہیں۔ اصل میں پولیس میں کالی بھیڑیں موجود ہیں، جس کی وجہ سے مجرموں کے خلاف نہ کامیاب آپریشن ہو پاتا ہے اور نہ ہی کامیاب کارروائی۔
 سندھ میں اب بچوں کے خلاف جرائم کی خبریں آرہی ہیں۔ تین روز قبل شکارپور سے لاپتہ ہونے والے تین اسکولی طالب علم فیصل آباد سے برآمد ہوئے ہیں۔ حیدرآباد میں دو چھوتے بہن بھائیوں کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا۔ لڑکا شدید زخمی حالت میں بازیاب ہوا، لیکن بعد میں زخموں کی تاب نہ  لا کر فوت ہو گیا۔اب مغویہ بچی کی لاش ملی ہے جسے جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ روزنامہ کاوش کے مطابق نو دیرو  میں ایچ آئی وی کے  906 پازیٹو کیس کی تصدیق ہوگئی ہے۔ اکثر رشتہ داروں نے ان متاثرہ افراد سے  تعلق ختم کردیا ہے۔ ان سماجی رویوں کی وجہ سے  متاثرہ افراد پریشان ہیں۔حکومت کی جانب سے مریضوں کو ادویات اور دیگر سہولیات نہ مل سکیں۔ تاحال ان متاثرہ افراد کی بحالی اور علاج کے لئے اعلان کردہ مراکز نے بھی کام شروع نہیں کیا ہے۔