Friday, September 29, 2017

کیا محکمہ شماریات اب محب وطنی کا سرٹفکیٹ دے گا؟

Sindh Nama, Sindhi Press 
Sohail Sangi
Nai Baat

کیا محکمہ شماریات اب محب وطنی کا سرٹفکیٹ دے گا؟

سندھ نامہ سہیل سانگی
سندھ میں سیاسی سرگرمی اب شروع ہوئی ہے تاہم صوبے میں عوام کو فراہم کی جانے والی سہولیات اور سماجی خدمات کی صورتحال افسوس ناک ہے جس کا اندازہ حال ہی جاری کی گئی تین رپورٹوں سے ہوتا ہے۔ سندھ حکومت نے بجٹ منظور ہونے کے تین ماہ بعد ضلعی ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص سوا 24 ارب روپے کی رقم میں سے صرف چار ارب روپے جاری کئے ہیں۔ لیکن صوبے کے 29 اضلاع میں سے صرف 22 کو رقومات جاری کی گئی ہیں جبکہ سات اضلاع اس ترقیاتی مرحلے میں محروم رکھے گئے ہیں۔ سرکاری طور پر جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق خیرپور اور لاڑکانہ پر حکومت کی خاص نوازش رہی اور گھوٹکی اور نوشہروفیروز محروم رہے۔ ایک اور رپورٹ میڈیا میں شایع ہوئی ہے جس میں حکومت سندھ نے گزشتہ تین سال کے دوران 965 اسکیموں کا کام غیر معیاری ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ یہ امر بھی سامنے آیا ہے کہ وفاقی، صوبائی حکوموتں اور ضلع انتظامیہ تینوں کی جانب سے ایک ہی اسکیم پر کام ہوتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ 



روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ میں یہ شکوہ جڑیں پکڑ ہو رہا ہے کہ وفاق کا سلوک اس کے ساتھ مفتوح علاقے جیسا ہے، نہ وعدوں اور معاہدوں پر عمل کیا جاتا ہے، نہ ہی مختلف معاملات پر خدشات اور تحفظات کو دور کیا جاتا ہے۔ یہ رویہ اس وقت نظر آیا جب سندھ حکومت نے وفاقی محکمہ شماریات سے مردم شماری بلاکس کی تفصیلات، ڈیٹا فارم، سٹلائیٹ نقشے اور مردم شماری فارم آر ای این 2 مانگا۔ سندھ حکومت کو صوبے میں قیام پذیر غیر ملکیوں کا ڈیٹا بھی نہیں دیا گیا۔ مثبت جواب کے بجائے محکمہ شماریات کے ناصحین نے سندھ کو اداروں پر شک کرنے کا طعنہ دیا۔ اور اس کو وفاق پرستی کے بھاشن دیئے۔ اس کو تبیہ جیسے جملے بھی سننے پڑے۔ کہا گیا کہ اس طرح کے اعتراضات کے خراب نتائج نکلیں گے۔ کیا سندھ کو محکمہ شماریات سے محب وطنی کا سرٹیفکیٹ لینا پڑے گا؟ 
وطن عزیز کے حکمرانوں نے کبھی بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ وہ ہر مرتبہ ملک کے’’ چھوٹے صوبوں ‘‘کے ساتھ جو رویہ رکھتے آئے ہیں اسی رویے کی وجہ سے قیام پاکستان کے 24 سال کے بعد بنگالیوں نے راہیں جدا کر لی۔ 1971 سانے کے ذمہ دار یہی رویے تھے۔ وفاق کی مضبوطی کا انحصار صوبوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے اور انہیں اس مرضی پر عمل کرنے کے لئے مجبور کرنے کی روش پر نہیں بلکہ صوبوں کو اعتماد لینے میں مضمر ہے۔ 
صوبوں اور وفاق کے درمیاں اعتماد کی رسی اس وقت کمزور ہو جاتی ہے جب عدم اعتماد اور بے اطمینانی جنم لیتی ہے۔ پانی کے جائز حصے کا معاملہ ہو، مالی وسائل کی درست تقسیم کا مطالبہ ہو، یا وفاق میں سندھ کے حصے کی ملازمتوں کی بات ہو، سندھ کے مطالبے اور اعتراضات کو حساب میں ہی نہیں لیا جاتا۔ ایسا ہی اہم معاملہ مردم شماری کا بھی ہے۔ مردم شماری کا عمل شروع ہونے سے پہلے سندھ حکومت نے طریقہ کار پر اعتراض کیا۔ اور مردم شماری کے فارم کی کاپی صوبائی حکومت کو دینے کا مطالبہ کیا۔ تاکہ مردم شماری کا عمل شفاف طریقے سے ہو۔، اور کسی کو اعتراض نہ ہو۔ سندھ حکومت کے ان اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے جو طریقہ اختیار کیا گیا، اس نے اس اہم عمل کے نتائج کو مشکوک اور متنازع بنا دیا ہے۔ اگر کسی صوبے کو تحفظات اور اعتراضات ہیں، تو ان اعتراضات کو دور کرنے اور اس کے اطمینان کے لئے مطلوبہ ریکارڈ کیوں نہیں فراہم کیا جاتا۔ 
محکمہ شماریات کی جانب سے ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار نے کئی شبہات پیدا کر دیئے ہیں۔ اور محکمہ نے خود کو مشکوک بنادیا ہے۔ صوبوں کے اطمینان کے لئے ریکارڈ فراہم نہ کر کے کون سی قومی خدمت کی گئی ہے؟ لاہور شہر کی شرح آبادی میگا سٹی کراچی کی شرح سے زیادہ دکھائی گئی ہے۔ ایسے میں شکوک پیدا ہونا منطقی امر تھا۔ اس حوالے سے سندھ کے خدشات دور کرنا اشد ضروری ہے۔ اگر کوئی دوسرا صوبہ مردم شماری کے نتائج پر اعتراض نہیں کرتا، تو کیا سندھ کو اس پر خاموش رہنا چاہئے؟ سندھ میں تارکین وطن کی تعداداہم قومی راز نہیں، جسے سندھ سے چھپایا جائے۔ 
سندھ کو مردم شماری کا ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار، دھمکی کا لہجہ دکھانا قابل افسوس امر ہے۔ سندھ حکومت کو یہ معاملہ مکمل تیاری اور سنجیدگی کے ساتھ مجاز فورم میں اٹھانا چاہئے۔ سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس نقطہ پر جمع ہونا پڑے گا۔ 



روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران سندھ کے حکمرانوں کی تعلیم کے شعبے میں کارکردگی کیسی رہی؟ یہ بات اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رپورٹ سے عیاں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبے کے پچاس فیصد اسکول پینے کے پانی اور باتھ روم کی سہولت سے محروم ہیں۔ دو سو ارب روپے کی بجٹ ہونے کے باوجود صوبے کے تعلیمی ادارے انتہائی زبون حالت میں ہیں۔ ان بھیانک زمینی حقائق کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقے غریبوں کے بچوں کا مستقبل کسی طورپر ان کے ایجنڈا کا حصہ نہیں۔ شہر ہوں یا دیہی علاقے، سرکاری اسکولوں کا ماحول دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ اساتذہ کی ھاضری سے لیکر نصاب تک ، درجوں معاملات حل ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ 
دس برس پہلے کہا گیا تھا کہ سندھ میں پانچ ہزار سکول بند ہیں۔ لیکن آج تک یہ نہیں بتایا گیا کہ ان میں سے کتنے اسکول حکومت بحال کر سکی ہے؟ سرکاری اسکولوں کی زبون حالی کا یہ عالم ہے چلتے کلس کے دوران چھت کے ٹکڑے طلباء پر گر چکے ہیں۔ نتیجے میں متعدد بچے زخمی ہو چکے ہیں۔ رواں سال حکومت نے دو سو ارب روپے محکمہ تعلیم کے لئے مختص کئے ہیں، یہ رقم کون سی مد میں خرچ ہوگی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یونیسیف کی اس رپورٹ کے بعد سندھ حکومت عوام کے سامنے تفصیلی وضاحت پیش کرے۔ کیونکہ پچاس فیصد اسکولوں میں پینے کے پانی اور باتھ روم کی سہولیات نہیں۔ 



Sindh Nama - Sindhi Press - Nai Baat Sep 30, 2017
Sohail Sangi

Sunday, September 24, 2017

سندھ کے لوگ کہاں جائیں؟

Sindh Nama, Sindhi Press 
Sohail Sangi 

سندھ نامہ   سہیل سانگی 


سندھ کے لوگ کہاں جائیں؟

روزنامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ یہ ایک دو سال کا قصہ نہیں۔ گزشتہ دو تین عشروں سے نہ کاشتکاروں کو گنے کا صحیح دام مل رہا ہے اور نہ ہی حکومت سندھ شگر کین ایکٹ اور سندھ شکر فیکٹریز ایکٹ پر عمل درآمد کراتے ہوئے وقت پر شگر ملز میں گنے کی پسائی شروع کرنے کاپابند کر سکی ہے۔ گنے کی ہر سیزن میں کاشکاروں اور شگر مل مالکان کے درمیان دنگل ہوتا ہے ۔ اس تمام معاملے میں حکومت کا کردار تماشائی کی طرح رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے شگر مل مالکان کو ’’ بھئی ایسا نہ کریں‘‘ کہتے ہوئے منت سماجت کرتے سیزن گزر جاتا ہے۔ قانون کے تحت گنے کی قیمت کا تعین اور گنے کی پسائی اکتوبر کیاوائل میں شروع کرنے کا پابند کرناہے۔ لیکن ہر مرتبہ حکومت ایسا کرنے میں ناکام رھتی ہے۔ 


سندھ کا زرعی شعبہ کئی بحرانوں کی لپیٹ میں رہا ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار پر خراب اثرات پڑتے ہیں۔ سندھ کے کاشتکار کو پانی کی قلت سے نمٹنے کے لئے ٹیوب ویل پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ تیل اور بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے صوبے میں زرعی پیداور کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ یہ امر گنے کی فصل پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ گنے کی فصل پر سندھ میں فی ایکڑ لاگت پنجاب کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ حکومت گنے کیی قیمت کم مقرر رکتی ہے باقی کسر مل مالکان پورے کر دیتے ہیں جو وقت پر ملیں چالو نہیں کرتے۔ اور کاشتکار دیر سے کٹائی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، دیر سے کٹائی شروع کرنے کی وجہ سے گنا خشک ہو جاتا ہے اور اس کا وزن کم ہو جاتا ہے۔ دیر سے کٹائی شروع ہونے کی وجہ سے کاشتکاروں کو گندم کے حصے کا پانی گنے کی فصل کو دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا کاشتکاروں کو دگنا نقصان ہوتا ہے۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ بعض کاشتکار اس دگنے نقصان سے بچنے کے لئے گندم کی فصل کو جلا دیتے ہیں، تاکہ وقت پر گندم کی بوائی کر سکیں۔ 


گزشتہ سال گنے کی سیزن میں حکومت نے گنے کی قیمت 182 روپے فی 40 کلوگرام مقرر کی تھی۔کاشتکاروں کا مطالبہ تھا کہ کم از کم قیمت 200 روپے کی جائے۔ عملا یہ ہوا کہ حکومت سرکاری طور پر مقررہ قیمت بھی کاشتکاروں کو نہیں دلا سکی۔ گنے کی پسائی اکتوبر کے اوائل میں شروع کرنی تھی لیکن حکومت نے نومبر کے وسط کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ نیتجۃ گنے کی پسائی بمشکل دسمبر میں شروع ہو سکی۔اگرچہ حکومت اس معاملے میں تیسرا فریق ہے جس کا کام حکومت سندھ شگر کین ایکٹ اور سندھ شکر فیکٹریز ایکٹ سمیت مختلف قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔ مگر شگر ملز کے معاملے میں وہ بچاری نظر آتی ہے۔

گنے کی پسائی کا نوٹیفکیشن دیر سے جاری کرتے ہے، اور اس پر عمل درآمد بھی نہیں کرا پاتی۔ حکومتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مل مالکان کاشتکاروں کو سرکای قیمت ادا نہیں کرتے، دوسری طرف چینی کی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ حکومت اس اقدام پر بھی کوئی کارروائی نہیں کر پاتی۔ سندھ کی کاشتکار تنظیمیں تمام سیزن احتجاج کرتے ہوئے گزار دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے حکومت ان کے احتجاج کو حساب میں ہی لے آتی۔ اب سمتبر کا آخری ہفتہ ہے لیکن حکومت گنے کی قیمت مقرر کرنے اور شگر ملز قانون کے مطابق مقررہ وقت پر شروع کرنے سے متعلق فکرمند نظر نہیں آتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت ابھی سے اس مسئلے پر منصوبہ بندی کرے اور 15 اکتوبر سے گنے کی سیزن شروع کرنے اور سرماری قیمت کے تعین کے معاملات نمٹائے۔ تاکہ بحران پیدا نہ ہو جو کہ کاشتکاروں اور عام صارفین کو نقصان سے بچ سکیں۔ 

روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں پینے کے پانی کی قلت اور خراب معیار کا معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا۔ عدالت عظمیٰ نے ایک مستقل کمیشن قائم کردی۔ کمیشن میں سندھ حکومت کی جمع کرائی گئی رپورٹ سے واضح ہے کہ ہامرے حکمران عوام کے اس بنایدی مسئلے کو حل کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ رواں سال اپریل سے کمیشن نے کام شروع کردیا، جس کی تاحال 13 سماعتیں ہو چکی ہیں۔ جس کے دروان اس اہم انسانی معاملے کے مختلف پہلو سامنے آئے۔ متعلقہ افسران نے عدالت میں پیش ہو کر مختلف وعدے کئے۔لیکن ان میں کوئی وعدہ بھی ایفا نہ ہو سکا۔ بلکہ معاملہ مزید خراب ہوا۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر نے انکشاف کیا کہ کراچی شہر کو فراہم کیا جانے والا 230 ملین گیلن پانی بغیر کلورین کے کیا جارہا ہے۔ اس پانی کو کلورائیز کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن تاحال صورتحال وہی ہے۔

گزشتہ چار ماہ کے دوران حکومت سندھ نے تمام یقین دہانیوں کے باوجود پینے کے پانی اور گندے پانی کی نکاسی کے ضمن میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ پانی کی فراہمی اور ناکسی کے منصوبے نامکمل پڑے ہیں۔ ہسپتالوں میں پینے کا پانی بہتر نہیں کیا گیا۔ پینے کے پانی کی صورتحال بد سے بدتر ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے 16 مارچ کو گندے پانی کی نکاسی کے موثر اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔ فراہمی و نکاسی آب کے منصوبوں میں کمیشن کا سلسلہ عام ہے۔ لیکن احتساب کا عمل صفر ہے۔ قاسم آباد حیدرآباد کے نکاسی آب کے منصوبے پر ایک ارب 70 کروڑ روپے خرچ ہونے کے باوجود ناکام ہے لیکن اس کے ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ سندھ انوائرمنٹل ایجنسی نامکمل ہے۔ اگر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے احکامات کے بعد بھی سندھ کے ادارے اور افسران کام کرنے کے لئے تیار نہیں تو سندھ کے لوگ کہاں جائیں؟ 

روز نامہ عبرت لکھتا ہے کہ گزشتہ پیر کے روز کراچی پریس کلب اور ریڈ زون کے آسپاس کے علاقے میدان جنگ بنے ہوئے تھے۔ جہاں ایک طرف خالی ہاتھ تنخواہوں کا مطالبہ کرنے والے اساتذہ اور سندھ ریزرو پولیس کے برطرف کئے گئے اہلکار تھے۔ دوسری طرف انتظامی اہلکار تھے جو ڈنڈوں، آنسو گیس، واٹر کین سے مسلح تھے۔ لاٹھی چارج ، واٹر لین کے استعمال کے بعد زخمی اساتذہ اور برطرف پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مظاہرین ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس لئے ان کو روکا گیا۔ اس طرح کے مناظر اس سے پہلے لیڈی ہیلتھ ورکرز اور دیگر مالزمین کے احتجاج کے مواقع پر دیکھنے کو ملے تھے۔ لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ ایک سیاسی پارٹی کے کراکنوں نے اس طرح کیا تو ان کے خلاف انتظامیہ نے تشدد نہیں کیا۔ یہ انتظامیہ کا دہرا معیار کیوں؟ 

پیپلزپارٹی عوامی پارٹی ہونے کا دعوا کرتی ہے اور روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاتی ہے۔ اس وقت حیرت کی حد نہیں رہتی جب اس پارٹی کی حکومت جب روزگار یا تنخواہوں کے لئے احتجاج کرنے والوں پر تشدد کرتی ہے ۔ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری حال ہی میں دادو میں جلسہ عام میں کئی وعدے کر کے آئے ہیں۔ ہم بلاول بھٹو کو یاد دلاتے ہیں وہ ان اساتذہ اور برطرف کئے گئے پولیس اہلکاروں کے مسئلے پر بھی توجہ دیں۔ ان کو اس گناہ کی سزا مل رہی ہے جو انہوں نے نہیں کیا بلکہ بعض بااثر افراد نے کیا۔ 

Sindh Nama, Sindhi Press, Sohail Sangi, Nai Baat Sep 23, 2017 
Daily Kawish, Sindh Express, Ibrat, Sindh Sugar industry, Suagrcane

Friday, September 15, 2017

اعلیٰ تعلیمی ادارے کیسے ذہن پیدا کر رہے ہیں ؟ سندھ نامہ



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi

اعلیٰ تعلیمی ادارے کیسے ذہن پیدا کر رہے ہیں ؟

سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 

سندھ ہائی کورٹ نے بلآخر سندھ پولیس کے سرارہ اے ڈی خواجہ کو تمام اختیارات سمیت بحال کرنے کا حکم دے دیا۔ گزشتہ چند ماہ سے حکومت سندھ اور اے ڈی خواجہ کے درمیان انتظامی و عدالتی جنگ چل رہی تھی۔ صوبائی حکومت ان کا تبادلہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن سول سوسائٹی کے بعض افراد نے حکومت کے اس حکمنامہ کے خلاف عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے ان کا تبادلہ روک دیا۔ اس عدالتی حکم کے بعد حکومت نے رولز آف بزنیس میں ترامیم لا کر اختیارات وزیرداخلہ اور وزیراعلیٰ سندھ کے ہاتھ میں دے دیئے۔ صوبے بھر میں عمومی اور دارلحکومت کراچی میں خصوصی طور امن وامان کی صورتحال خراب ہے، اور صوبائی حکومت کی مدد کے لئے رینجرز کو طلب کیا ہوا ہے، وہاں حکومت اور صوبائی پولیس سربراہ کے درمیان تنازع سے عام آدمی بری طرح سے متاثر ہو رہا تھا۔ یہ تنازع مسلسل اخبارات میں موضوع بحث رہا۔ اور حکومت پر تنقید ہوتی رہی۔ 


وفاقی محکمہ شماریات نے جب مردم شماری کے نتائج کا اعلان کیا تو سندھ بھر میں حکومت خواہ قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے ان پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ لہٰذا صوبے میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف جو بیانیہ چل رہا تھا اس میں تبدیلی آئی، اور سیاسی لڑائی کا رخ وفاق کی طرف ہوگیا۔ اسی اثناء میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے بینظیر بھٹو مقدمہ قتل کا فیصلہ سنا دیا، جس میں پانچ ملزمان کو بری کردیا جن کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے بتایا جاتا ہے ۔ دو پولیس افسران کو قید اور جرمانہ کی سزائیں سنائی گئی۔ پرویز مشرف کو بھگوڑا قرار دیا گیا۔ یہ تین مضوعات سندھ کے اخبارات میں زیر بحث رہے۔ بینظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کے فیصلے پر سندھ کے تمام حلقوں نے حیرت کا اظہار کیا اور اس کی ذمہ داری استغاثہ کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی پر بھی ڈالی کہ وہ اپنے دور حکومت میں اس مقدمے کی صحیح طور پر پیروی نہیں کر سکی۔ اور مقدمے کے اہم ملزم ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو صدارت کے عہدے سے ہٹانے کے بعد اہتمام کے ساتھ بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ اس فیصلے کی وجہ سے پیپلزپارٹی دفاعی پوزیشن میں چلی گئی اور اس کو اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جانے کا علان کرنا پڑا۔ 



چوتھا اہم معاملہ ایم کیو ایم پاکستان کے سندھ اسمبلی میں رہنما اظہار الحسن پر عید کے روز قاتلانہ حملے میں کراچی یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم کے ملوث ہونے کے بعد سامنے آیا۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے معاملے کو کچھ اس طرح اٹھایا کہ صوبے کی جامعات میں دہشتگرد پیدا ہو رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے یونیورسٹی طلباء کی سیکورٹی آڈٹ کا اعلان کردیا۔ کراچی یونیورسٹی نے بھی اسی طرح کی پالیسی کا منصوبہ بنایا۔ 



’’اعلیٰ تعلیمی ادارے کیسے ذہن پیدا کر رہے ہیں ؟‘‘کے عنوان سے روز نامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والی رکن سندھ اسیمبلی پر عید کے روز قاتلانہ حملے نے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ پہلا شبہ لندن سے دھمکیاں بھیجنے ولاوں پر کیا گیا۔ لیکن سندھ پولیس کی ابتدائی تفتیش کے دوران شبہ بعض دیگر عناصر پر کیا گیا۔ سندھ پولیس کے مطابق حملہ آور کا تعلق انصار ال شریعہ اپکستان سے ہے۔ جو کہ کراچی یونیورسٹی میں اپلائیڈ فزکس کے طالب علم رہے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد ایک بار پھر ملک کے تعلیمی اداروں سے انتہا پسند ذہن پیدا کرنے کا سوال سامنے آیا ہے۔ اس حملہ کو صرف ایک واقعہ کے طور پر نہیں لینا چاہئے ، بلکہ اس انداز سے بھی لینا چاہئے کہ آئے دن اعلیٰ تعلیمی ادروں سے تعلیم یافتہ نوجوان دہشتگردی میں ملوث نکل رہے ہیں۔ اس کے کیا اسباب ہیں؟ 



سنیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے طلباء کا ریکارڈ خفیہ اداروں سے آڈٹ کرانے کی مخالفت کرتے ہوئے کراچی یونیورسٹی کے وائیس چانسلر کو خط لکھا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یونیورسٹیز میں طلباء یونین بحال کرنے اور وہاں ادبی اور دوسری غیر تدریسی سرگرمیاں بڑھانے سے صورتحال میں تبدیلی آئے گی۔ 

انتہا پسندی اور تشدد کی سونامی نے صرف مدار کو ہی نہیں بلکہ ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ دہشتگرد کارروئیوں میں ملوث گرفتار بعض ملزمان کا جامعات کے طلباء اور ملازمین کے طور رپ شناخت ہوئی ہے۔ 


انتہا پسندی کا زہر معاشرے کے پورے جسم میں سرایے کر گیا ہے۔ کراچی کی یونیورسٹیں ہوں یا جامشورو اور خیرپور کی یونورسٹیاں، وہاں انتہا پسندی کے پاؤں کے نشان ملتے ہیں۔ قلندر لال شہباز کی درگاہ پر حمہ آور کا تعلق بھی ایک یونیورسٹی سے تھا۔ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ نورین لغاری لاہور تک جا پہنچی تھی۔ ان عناصر کی نگرانی کرنا ان اداروں کی ہے جو ریاست کی آنکھیں اور کان تصور کئے جاتے ہیں۔ یا ان تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی ہے؟ تعلیمی ادارے طلباء، والدین اور انتظامیہ کے ربط سے چلتے ہیں۔تعلیمی اداروں کی انتظامیہ طلباء کی تعلیمی پروگریس رپورٹ سمیت ان کی تمام سرگرمیوں سے متعلق والدین کو آگاہ کرنے کی ذمہ دار ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ والدین کو اپنے بچوں کی سرگرمیوں سے بری الذمہ سمجھا جائے۔نصاب میں تبدیلی لانے سے متعلق سنیٹ چیئرمیں کیاس تجویز کو بھی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ۔ اصل سوال طلباء کی سوچ اور فکر تبدیل کرکے اسکو مثبت بنانا ہے۔ لیکن یہ کام سائنسی انداز سے کیا جانا چاہئے۔ 



روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ سندھ ھکومت نے مردم شماری کا معالہ بین الصوبائی کمیٹی میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی حکومت نے اپنا جو کیس تیار کیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ڈیٹا انٹری آپریٹرز کی سطح پر گڑ بڑ ہوئی ہے۔ محکمہ شماریات کے ڈیٹا نٹری آپریٹرز کا تعلق ایک خاص صوبے سے ہے۔ سندھ کو خدشہ ہے کہ ڈیٹا انٹری آپریٹرز اور دیگر ملازمین کے ذریعے من پسند نتائج تیار کئے گئے ہوں۔ 



سندھ حکومت کا یہ موقف بھی ہے جن خاندانوں اور افراد کو شمار کیا گیا، ان کو اپنے ڈٰٹا کے بارے میں لاعلم رکھنا عالمی اصولوں اور حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ محکمہ شماریات جعلی ڈٰیٹا کے حوالے سے سندھ حکومت کے تحفظات دور نہیں کر سکی ہے۔ سندھ حکومت سمجھتی ہے کہ مردم شماری کے عمل میں بعض فاش غلطیاں ہوئی ہیں اور غیر قانونی طور پر آباد تارکین وطن کو بھی بطور پاکستانی شمار کیا گیا ہے۔ سندھ حکومت نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ نہایت ہی اہم ہیں۔ ان نکات کا تدارک ہونا اور صوبائی حکومت کے تحفظات دور رکنا ازحد ضروری ہو گیا کیونکہ مردم شماری ایک حساس معاملہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محکمہ شماریات اور وفاقی حکومت اس کو انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے سنجیدگی سے لے گی۔


Sindh Nama,  Sohail Sangi 
Nai Baat Sep 9, 2017 

برمیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے مطالبے پر برہمی سندھ نامہ

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
برمیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے مطالبے پر برہمی


سندھ نامہ   سہیل سانگی

’’بنگالیوں کے بعد اب برمیوں کے لئے بھی شناختی کارڈ ‘‘کے عنوان سے ’’روز نامہ کاوش‘‘ لکھتا ہے کہ کراچی سیاسی حالات تبدیل ہوتے ہی پیپلزپارٹی نے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لئے کوشش اس حد تک بڑھا دی ہیں کہ اب اسکو سندھ کے مفادات ہی نظر نہیں آتے۔ پہلے صوبائی سنیئر وزیر نثار کھوڑو نے برمیوں کو پاکستان کا شناختی کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب سنیٹ میں سندھ سے منتخب پیپلزپارٹی کے سنیٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ برما (میانمار) کے مسلمانوں پر مظالم پر ہم چیخ پکار کر رہے ہیں۔ لیکن جو برمی پاکستان میں موجود ہیں ان کو حقوق نہیں مل رہے ہیں۔ ان کے شناختی کارڈ بنائے جائیں۔
ہر سیاسی جماعت کے اپنے اپنے سیاسی مفادات ہوتے ہیں۔ وہ مختلف مواقع پر اٹھنے والے مسائل کو اپنے ووٹ بینک بڑھانے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ سندھ کے مفادات کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔

کچھ عرصہ پہلے کورنگی میں ایک جلسہ عام میں بنگالیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا گیا وہان یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں بیس لاکھ بنگالی موجود ہیں۔ اب پیپلزپارٹی کے سنیٹر مرتضیٰ وہاب نے سنیٹ میں بتیا ہے کہ ملک میں پانچ لاکھ برمی آباد ہیں ۔ جہاں تک کراچی اور ملک میں برمیوں کی تعداد کا تعلق ہے ، ہم سب جانتے ہیں کہ کراچی کے علاوہ کہیں بھی برمی آباد نہیں۔ سندھ حکومت نے بنگالیوں کو نہ صرف شناختی کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے، بلکہ ترقیاتی منصوبوں، ملازمتوں میں حصہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے مختلف مسائل حل کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب برمیوں کو شناختی کارڈ جاری کئے جائیں گے تو ان کو بھی برابری کی بنیاد پر سہولیات دی جائیں گی۔

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں برمیوں، بہاریوں، بنگالیوں اور افغانیوں سمیت دوسرے ممالک کے تارکین وطن غیر قانونی طور پر آباد ہیں۔ ان میں سے بعض کو سیاسی پناہ کی چھتری مہیا کی گئی ہے۔ ان کی آبادکاری میں سہولتاری بھی کی گئی ہے۔ اور انہیں پاکستان کا قومی شناختی کارڈ بھی بنا کر دیا گیا ہے۔
اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں دیکھتے دیکھتے کراچی کی ڈیموگرافی تبدیل ہوگئی۔ شہر میں ہزارہا کچی بستیاں وجود میں آگئی۔ کیا پیپلزپارٹی ان غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن سے ووٹ حاصل کرنے کے لئے کر رہی ہے؟ پہلے بنگالیوں کے ووٹوں کے لئے اب برمیوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی طاقت کا مرکز سندھ ہے۔ لہٰذا اسکو سندھ کے مفادات زیادہ عزیز ہونے چاہئیں۔ سب پر باہر کی آبادی کا پہلے ہی دباؤ بہت ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ باہر کے لوگ جنہیں غیر کہا جاسکتا ہے ، سندھ کے وسائل پر بوجھ ہیں۔

ہونا یہ چاہئے تھا کہ سندھ پر سے اضافی بوجھ کم کرنے کے لئے غیر قانونی طور پر آباد تارکین وطن کو نکالا جاتا۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے انہیں قانونی شہری بنانے کے لئے سندھ کے مفادات کی دعویدار پارٹی کوشاں ہے۔ ظاہر کہ کسی پارٹی کے سنیٹر کا سنیٹ میں بیان اس پارٹی کا سیاسی موقف ہی سمجھا جائے گا۔ شناختی کارڈ کا حصول کا مطلب شہریت کا حصول ہے۔ کیا غیر قانونی طور پر مقیم کسی شخص کو وہاں کا قانونی شہری تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ دنیا کے دستور سے ہمارے سیاست دانوں کا تدبر اتنا وکھری ٹائپ اور مختلف کیوں ہے؟ ان غیروں کو نکالنے کے بجائے انہٰن شہریت دے کر کون سی سندھ کی خدمت کی جارہی ہے۔ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو شہریت دینے سے آبادی کا تناسب تبدیل ہوگا۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اس سلسلے سے منتخب ایواں میں سندھ کے لوگوں کی نمائندگی پر کیا اثرات پڑیں گے؟

پیپلزپارٹی کے سنیٹر نے جو مطالبہ کیا ہے وہ کسی بھی طور پر سندھ کا مطالبہ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔

روزنامہ سندھ ایکسپریس اساتذہ پر تشدد کے بجائے ان کے مسائل کا حل ڈھونڈا جائے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ہم سندھ میں تعلیم کی تباہی پر روز رونا دھونا کرتے رہتے ہیں اور اس کے لئے اساتذہ کو ذمہ دار ٹہراتے رہے ہیں۔ لیکن یہ تعلیم کی تباہی کا ایک پہلو ہے۔ اس سے ہٹ کر انتظامی حوالے سے کئی امور ہیں جن کی وجہ سے صوبے میں تعلیم کی کشتی ڈولتی رہتی ہے۔ گزشتہ روز پیر مظہر الحق کے دور وزارت میں بھرتی اساتذہ نے تنخواہیں نہ ملنے اور برطرفیوں کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا۔ جس پر پولیس نے تشدد کیا نتیجے میں دو اساتذہ زخمی ہوگئے۔ اس احتجاج میں خواتین اساتذہ بھی شامل تھیں، انہیں بھی پولیس تشدد کے دوران نہیں بخشا گیا۔ پیپلزپارٹی کے حالیہ دور حکومت کے دوران پہلے بھی اساتذہ احتجاج کرتے رہے ہیں۔ جن پر اسی انداز تشدد کیا جاتا رہا ہے ۔ کسی بھی معاشرے میں تدریس کے پیغمبری پیشے سے وابستہ اساتذہ کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار نہیں کیا جاتا۔

ماضی میں جو بھرتیاں ہوئی، جنہیں موجودہ حکومت تسلیم نہیں کرتی اس کے لئے یہ اساتذہ ذمہ دار نہیں۔ اس دور کے اعلیٰ عدیداران اور افسران ہیں۔ انہی سے پوچھ گچھ کی جانی چاہئے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں محکمہ تعلیم سمیت مختلف محکموں میں جس طرح سے میرٹ کو ایک طرف رکھ کر بھرتیاں کی گئیں اس نے تمام محکموں کی کارکردگی کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ آج بھی صوبے میں اساتذہ کیہزارہا اسامیاں خالی ہیں۔ جنہیں پر کرنے کے لئے حکومت اعلان بھی کر چکی ہے۔ ان اساتذہ کو ان خالی اسامیوں پر بحال کرکے مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ احتجاج کرنے والے اساتذہ کوگزشتہ تین چار سال سے تنخواہیں ادا کی جاتی رہی۔ اب اچانک حکومت نے یہ اقدام کیا ہے۔
حکومت وزراء اور دیگر بااثر اراکین اسمبلی کے کہنے پر ترقرر نامے جاری کرتی رہی۔ اس دوران بھرتیوں کے آرڈر فروخت بھی ہوئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اساتذہ پر تشدد ایک بدترین عمل ہے۔ حکومت پرامن احتجاج کرنے والے اساتذہ کے مطالبات سن سکتی تھی۔ اس کے حل کے لئے کوئی راستہ نکال سکتی تھی۔ اب بھی وقت ہے کہ ان اساتذہ کو سنا جائے اور ان کے مسائل حل کئے جائیں۔

روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تھر کول کے بلاک ون میں کوئلہ نکالنے کا پچاس فیصد کام مکمل ہونے پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ وہ تھر کول منصوبے کو آگے بڑھانے پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر وفاق اس میں دلچسپی لیتا تو ابھی ہم اس منصوبے سے دس ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کر رہے ہوتے۔ انہوں کہا کہ وفاق کے اس امتیازی سلوک کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ نے تھر کول منصوبے کے منافع میں تین فیصد متاثرہ افراد کو ادا کرنے ، دو فیصد تھر کی ترقی کے لئے تھر فاؤنڈیشن کو دینے اور گوڑانو ڈیم کے متاثرین کے لئے تیس سال تک پیکیج دینے بھی اعلان کیا۔ اخبار لکھتا ہے کہ وزیراعلیٰ نے وفاق کے رویے کے بارے میں جو شکوہ کیا ہے وہ صحیح لگتا ہے۔ وفاق بتائے کہ وزیراعلیٰ سندھ کے اس شکایت کی وجہ اور پس منظر کیا ہے اور اس شکایت کا فوری ازالہ کیا جانا چاہئے۔

Nai Baat Sep 16, 2017
Sindh Nama - Sindhi Press by Sohail Sangi

Friday, September 1, 2017

سندھ نامہ : مردم شماری کے نتائج پر تحفظات



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ     سہیل سانگی


مردم شماری کے اعداد وشمار پر بلاتفریق صوبے کے تمام سیاسی و سماجی حلقوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سندھ کے تمام اخبارات نے اپنے اداریوں، مضامین اور کالموں میں مردم شماری کے نتائج کو مسترد کیا ہے۔ روزنامہ عبرت پیپلزپارٹی مردم شماری کے نتائج پر کیا کرتی ہے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ چیف کمشنر شماریات نے حکومت سندھ کے مردم شماری کے نتائج کے بارے میں اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مردم شماری کے دوران ایک ایک شخص کو شمار کیا گیا ہے۔ سنیٹ کی کمیٹی برائے کی شماریات کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مردم شماری کی ساکھ، شفافیت اور سیکیورٹی کے لئے فوج کا تعاون حاصل کیا گیا تھا۔ ان کا ماننا ہے کہ فوج اور محکمہ شماریات کے پاس موجود ریکارڈ میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ اور مردم شماری کے دوران 20 فیصد شناختی کارڈز کی نادرا سے تصدیق بھی کرائی گئی تھی۔ لاہور اور کراچی کی شہری آبادی کے اعداد وشمار سے متعلق انہوں نے بتایا کہ لاہور پورے ضلع کو اربن ڈکلئر کیا گیا تھا۔ کراچی کے چھ میں سے دو اضلاع کو اربن قرار نہیں دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ سندھ حکومت نے مردم شماری کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

مردم شماری کا معاملہ سندھ کے لئے نہایت ہی حساس ہے۔ اسکو نہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ کہ ان اعدادوشمار کی بنیاد پر قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت مالی وسائل ملیں گے۔ اگر سندھ کے لوگوں یا سندھ حکومت نے کسی سستی کا مظاہرہ کیا صوبے کو مستقل طور اس کے نقصانات برداشت کرنے پڑیں گے۔ اس معاملے پر صرف اعتراضات سے کام نہیں چلے گا بلکہ دلائل کی بنیاد پر اسے مسترد کرنا پڑے گا۔ آل پارٹیز کا انعقاد مثبت عمل ہے، کیونکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔

اگر سندھ حکومت نے مردم شماری کے حوالے سے کوئی سروے نہیں کریا ہے ، فوری طور پر ایسا سروے کرایا جائے تاکہ مردم شماری کے نتائج کو ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ مسترد کیا جاسکے۔ چیف کمشنر شماریات کہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص گنتی سے باہر نہیں رہا ہے۔ مردم شماری پر 17 ارب روپے خرچ کئے جا چکے ہیں ، اگر سندھ حکومت کا ہر فارم کی فوٹو کاپی دینے کا مطالبہ مان لیا جاتا تو کونسا آسمان ٹوٹ پڑتا؟ جبکہ سندھ حکومت روز اول سے مردم شماری پر تحفظات کا اظہار کر چکی تھی۔
سندھ کو مالی وسائل کی تقسیم، ملازمتوں میں جائز حصے، ترقیاتی فنڈز، پانی کی تقسیم کے حوالے سے شکایات رہی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ وزیراعلیٰ سندھ نے مردم شماری فارم کی ایک کاپی سندھ حکومت کو بھی دینے کی فرمائش کی تھی۔ لاہور کی آبادی ل کراچی کی آبادی کے قریب بتائی گئی ہے۔ اس حقیقت کا ادراک نہیں کیا گیا کہ ملک کے مختلف علاقوں سے کراچی ملک بھر کے لوگوں کی پناہ گاہ ہے جہاں روزانہ ہزارہا لوگ آکر آباد ہو رہے ہیں۔ جبکہ لاہور اس طرح کے influx سے محفوظ ہے۔ پیپلزپارٹی کے لئے یہ امتحان کی گھڑی ہے کہ وہ سندھ کے اجتماعی مفادات کے لئے کیا کرتی ہے۔

’’مشکوک پولیس مقابلے ‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ کاوش‘‘ لکھتا ہے کہ سرف گزشتہ پیر کے روز خیرپور، گمبٹ اور ککڑ کے قریب پولیس مقابلوں میں 6 افراد کو ’’ہاف فرائی‘‘ کیا گیا۔ گمبٹ میں کھڑا برادری نے مقابلے کو جاعلی قرار دے کر اس کے خلاف مارچ کیا اور دھرنا دیا۔

پولیس کارروایوں کے لئے سندھ میں نئی اصطلاحیں آگئی ہیں۔ پولیس کی لغت میں کسی کو مقابلہ قرار دے کر گولیوں سے مارنے کو ’’فل فرائی‘‘ اور گولیوں سے زخمی کرنے کو ’’ ہاف فرائی‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ سندھ پولیس جعلی مقابلوں کے لئے بڑی شہرت رکھتی ہے۔ جعلی مقابلوں میں اتنے لوگ مارے یا زخمی کئے گئے ہیں کہ اب کسی پولیس مقابلے کی خبر آتی ہیخواہ یہ مقابلہ درست ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن شکوک ا شبہات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ شبہات پولیس کے کردار کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ پولیس کے پاس ایک ہی ’’ پلاٹ‘ تیار ہوتا ہے. صرف کردار تبدیل ہوتے ہیں۔ پولیس کا بیان کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ خفیہ اطلاع پر پولیس پہنچی اور مقابلہ ہوگیا. جس میں انتے ملزمان مارے گئے۔ خیرپور اور گمبٹ کے مقابلوں میں یہی پلاٹ ہے۔ البتہ ککڑ کے واقعہ میں تھوڑی تبدیلی کی گئی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ چھاپے کے دوران گاؤں والوں نے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔ اور تین اہلکاروں کو زخمی کردیا۔ گاؤں ولاوں کے اس الزام کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے کہ اہلکاروں نے اکبر اور خالق برہمانی کو گرفتار کرنے کے بعد زخمی کیا۔

اگر کوئی ملزم ہے ، اسے سزا تک پہنچانے کے لئے قانون کا راستہ موجود ہے۔ سزا دینا عدالت کا کام ہے، نہ کہ پولیس یا کسی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کا۔ ہوتا یہ ہے کہ پولیس رات کے اندھیرے میں کسی گاؤں یا بستی پر اس طرح سے حملہ آور ہوتی ہے ۔. جس طرح سے قدیم زمانے میں دشمن لشکر حملہ آور ہوتے تھے۔ ہم اس رائے کے ہیں کہ کسی کو بھی قانون سے بچنا نہیں چاہئے۔ جرم میں ملوث ملزم کو سزا دینا عدالت کا کام ہے، اس پر سختی سے کاربند ہونا چاہئے۔ ہم سمجھت ہیں کہ مشکوک مقابلوں کی تحقیقات ہونی چاہئے اور قانون کی حکمرانی اور پاسداری کو یقینی بنانا چاہئے ۔

روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ پاکستان میں شہریوں کو کبھی بھی انسانوں جیسی زندگی گزارنا نصیب نہیں ہوئی ۔وہاں آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو رہاہے جس کا مردم شماری کے حالیہ نتائج سے ہوتا ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے متعدد مسائل پر غیر سنجیدگی نظر آتی ہے ، ایسے میں آبادی میں اس تیز رفاری کے ساتھ اضافے نے صورتحال کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔یہ صحیح ہے کہ آبادی میں اضافہ کا مسئلہ دنیا بھر میں ہے۔ لیکن دنیا کے دیگر ممالک میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے کام ہو رہا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ مردم شماری کے حالیہ نتائج کے بعد بھی حکومت کی طرف سے کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ آج بھی پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت، پسماندگی، بیروزگاری، اور جہالت بڑے مسائل ہیں۔ اوپر سے آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کو روکنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کرے۔ تاکہ ملکی وسائل اور اآبادی میں خوشگوار تناسب پیدا ہو سکے۔ اور ملک کے باسی اچھی زندگی گزار سکیں۔
روزنامہ نئی بات 2 ستمبر 2017
روزنامہ عبرت ۔ سندھ نامہ ۔ روزنامہ کاوش ۔ سندھ ایکسپریس ۔ مردم شماری 2017 ۔ پولیس مقابلے ۔ سندھی پریس

Nai Baat, Sindh Nama, Sindhi Press, Sohail Sangi



وزیراعظم کا دورہ سندھ اور شکوے . سندھ نامہ

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
March 31
وزیراعظم کا دورہ سندھ اور شکوے
سندھ نامہ   سہیل سانگی
رواں ہفتے کے دوران وزیراعظم نواز شریف کا دورہ سندھ اخبارات میں موضوع بحث رہا۔ اس دورے کے سیاسی اثرات اور وزیراعظم کے اعلانات کو خاص طور پر اداریوں، کالموں اور مضامین میں زیر بحث رہے۔مجموعی طور پر وزیراعظم کے دورے اور اعلانات کا خیرمقدم کیا گیا۔ لیکن شکوہ کیا گیا کہ یہ کام پہلے کیوں نہیں کیا گیا؟ وزیراعلیٰ سندھ اور پیپلزپارٹی نے بھی اس دورے کا خیرمقدم کیا ہے۔
وزیر اعظم کے اعلانات پر عمل درآمد ہونا چاہئے ‘‘ کے عنوان سے روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ پیر کے روز وزیراعظم نواز شریف نے حیدرآباد میں ورکرز کنوینشن سے خطاب کرتے ہوئے حیدرآباد کے شہریوں کی آنکھوں میں کئی گلاب کے پھول بو ئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے اقتدار میں آنے کے وقت کراچی سمیت سندھ کی صوتحال انتہائی خراب تھی۔ بدامنی کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار ملک میں آنے کا نام تک نہیں لیتے تھے۔ دہشتگردوں نے لوگوں کا جینا حرام کردیا تھا۔ آج ہر جگہ امن ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ملک سے بیروزگاری، غربت اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو۔ ہماری خواہش ہے کہ جلد ہی حیدرآباد سے ملتان تک موٹر وے ک اکام شروع کردیا جائے۔ تاکہ لوگ صبح اپنے بچوں کے ساتھ ناشتہ کر کے نکلیں اور دوپہر کا کھانا ملتان میں کھائیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ صحت انسان کا بنیادی حق ہے۔ اس لئے ہم حیدرآباد کے باسیوں کے لئے ہیلتھ کارڈ جاری کر رہے ہیں۔ جو سروے کے بعدایسے غریب اور بے پہنچ لوگوں کو جاری کئے جائیں گے جو بیماری کی صورت میں اپنا علاج رکانے سے قاصر ہیں۔
وزیراعظم نے حیدرآباد میں وفاقی یونیورسٹی کے قیام کا علان کرتے ہوئے اس مقصد کے لئے 100 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا۔ اور کہا کہ اس کی سنگ بنیاد رکھنے کے لئے وہ جلد ہی حیدرآباد آئیں گے ۔ انہوں نے حیدرآباد میں انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی تعمیر اور حیدرآباد کی ترقی کے لئے 50 کروڑ روپے دینے کا وعدہ کیا۔
وزیراعظم نے حیدرآباد میں جو اعلانات کئے ہیں وہ نہ صرف قابل تحسین ہیں بلکہ امید افزا ہیں۔ دیر سے ہی سہی، سندھ کے لوگوں کا وفاقی حکومت کو احساس تو ہوا۔ دل لبھانے کے اعلانات تو ہوگئے اب لوگوں کو ان پر عمل درآمد کا شدت سے انتظار رہے گا۔ وزیراعظم 8 اپنے وعدوں کا کتنا بھرم رکھتے ہیں اس کا جلد ہی پتہ لگ جائے گا۔
ماضی کو دیکھتے ہوئے لوگوں کو کوئی اچھا تجربہ نہیں۔ خاص طور پر جب انتخابات کا وقت آتا ہے تو عام کو بڑے بڑے بڑے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ترقی اور کوشحالی کی بڑی بڑی باتں اور دعوے کئے جاتے ہیں، لیکن جیسے ہی پارٹیاں کسی پوزیشن میں آجاتی ہیں تو ان تمام وعدوں کو پشت پر ڈال دیا جاتا ہے۔ جس کی مشق گزشتہ سات عشروں سے جاری ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں سیاست جیسے اہم کام سے اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ لہٰذا کوشش ہونی چاہئے کہ یہ وعدے ایفا ہوں ،
پاک چین راہداری کی لاٹری بھی موجود حکومت کے دور میں کھلی ہے۔ جس سے صورتحال میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ لیکن ایک بات محرومی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔وہ یہ کہ وفاق نے چھوٹے صوبوں کو نظرانداز کیا ہوا ہے۔ حزب مخالف کے اراکین یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیراعظم کی توجہ صرف لاہور تک ہے۔ اس الزام میں اگر مکمل صداقت نہ بھی ہو لیکن بڑی حد تک یہ بات درست نظر آتی ہے۔ اس صورتحال میں یہ ضروری ہے کہ چھوٹے صوبوں کا سفر شروع کرنے سے پہلے وہاں کے لئے خصوصی پیکی دینا یقیننا وزیراعظم کی ساکھ میں اضافہ کریں گے۔ یہ ساکھ قائم تب رہے گی جب ان اعلانات پر عمل ہوگا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے خط لکھا ہے کہ وفاق پنجاب میں 37 ارب روپے کی مالیت کے گیس کے منصوبے شروع کر رہا ہے۔ سندھ کو ان منصوبوں کی منظوری پر اعتراض ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنے خط میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ گیس منصبوں میں یہ توسیع آئین کے آرٹیکل 158 کی خلاف ورزی ہے۔ پنجاب گیس کی ملکی پیداوار کا صرف تین فیصد دیتا ہے جبکہ 42 فیصد استعمال کرتا ہے۔
سندھ حکومت نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ گیس تقسیم کرنے والی کمپنی سئی سدرن گیس کمپنی سندھ کے دیہی علاقوں میں گیس کی فراہمی سے انکار کر رہی ہے۔وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ روز پارلیمانی اراکین کی 96 اسکیموں کی منظوری دیتے ہوئے ان کے لئے فنڈ بھی جاری کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وفاق کے اس فیصلے کے خلاف تمام اخبارات نے اداریے لکھے ہیں، اور اس طرف جلد توجہ منبذول کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
’’گیس کنیکشن پر عائد سیاسی کنیکشن ‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ وفاق کا یہ فیصلہ نہ صرف آئین کی شق 158 کی خلاف ورزی ہے بلکہ قومی ہم آہنگی اور اتحاد کے ماحول کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ آّ ئینی طور پر جس صوبے سے گیس نکلتی ہے پہلا حق اسی صوبے کا ہے۔ لیکن وفاق نے پنجاب کے ساتھ ضرورت سے’’ زیادہ اپنائیت‘‘ دکھاتے ہوئے آئین کو بھی ایک طرف رکھ دیا ہے۔ جس کی وزیراعلیٰ سندھ نے اپنے خط میں کسی حد تک نشاندہی کی ہے۔
سئی سدرن گیس کمپنی گیس کے نئے کنیکشن کی درخواستوں پر ایک طرف گیس وفاق کی جانب سے کے نئے کنیکشن پر پابندی کی آڑ میں سندھ کے دیہی علاقوں میں گیس فراہم نہیں کر رہی۔ دوسری طرف جانب پنجاب میں گیس کے بڑے منصوبے شروع کئے جارہے ہیں۔ گیس کنیکشن پر پابندی صرف سندھ کے لئے کیوں؟ ملک کے پہلے صنعتی پارک خیرپور اسپیشل زون کے لئے بھی گیس کمپنی نے کنیکشن دینے سے انکار کردیا ہے۔ اسی طرح اس صوبے کے مختلف شہروں میں چھوٹی صنعتوں کو بھی گیس کے کنیکشن نہیں دیئے جارہے ہیں۔
سندھ حکومت جن اسکیموں کے لئے ایڈوانس میں ادائگی کر چکی ہے ان پر بھی کمپنی صحیح رفتار کے ساتھ کام نہیں کر رہی۔ کئی شہری اور دیہی علاقوں میں گھریلو کنیکشن کی درخواستیں بھی التوا میں پڑی ہوئی ہیں۔
وفاق اور صوبوں کے درمیان مختلف وقتوں میں پانی، مالیات، اور دیگر مشترکہ مفادات کے حل کے لئے قائم مشترکہ مفادات کی کونسل میں بھی یہ معاملہ اٹھانے کا وزیر اعلیٰ نے خط میں ذکر کیا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر ملکی امور چلانے یہی نتائج نکلتے ہیں جو وقتا فوقتا وفاق اور صوبوں کے درمیان اٹھتے رہے ہیں۔ آج کل ویسے بھی سیاسی درجہ حرارت بڑھا ہوا ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے کے آخری مہینوں میں یہ احتجاج شدت سے سامنے آیا ہے۔ سیاسی امور اپنی جگہ پر لیکن سندھ حکومت کا یہ احتجاج بجا ہے جس پر وفاقی حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ غور کر کے اس کا ازالہ کرنا چاہئے۔

پانی کی قلت اور سندھ

 Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
March 23-24

پانی کی قلت اور سندھ
میرے دل میرے مسافر سہیل سانگی
ابھی پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر بات چیت چل ہی رہی تھی کہ پاکستان میں پانی کی قلت نے بحرانی شکل اختیار کر لی ہے۔ سندھ میں اپنی کی قلت کے باعث عمل طور پر ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ اس بحران پر وزیراعلیٰ سندھ کی صدارت میں ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں مجموعی طور پر پانی کی دستیابی اور ضرورت پر غور کیا گیا۔ بحران کی شکل اختیار کر گئی ہے۔
اجلاس میں پینے کے پانی تو ترجیح دینے کا فیؒ ہ کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت سے بھی رابطہ کرنے اور پنجاب سے 15 ہزار کیوسکس پانی ادھار لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
ارسا کا کہنا ہے کہ پانی کی یہ قلت تقریبا ایک ماہ سے بھی زائد عرصے تک یعنی 25 اپریل تک جاری رہے گی۔ اور درجہ حرارت میں اضافہ نہ ہونے کی صورت میں یہ مدت ماہ مئی تک بھی جاسکتی ہے۔
سندھ کو یہ شکایت رہی ہے کہ پانی کی تقسیم کے 1991 کے معاہدے پر عمل نہیں کیا جاتا۔ اور نوے کے عشرے میں اس معاہدے کو ایک طرف رکھ کر ایک یڈہاک فارمولا بانایا گیا ۔ یہ فارمولا اگرچہ عارضی تھا اور پنجاب میں اپنی کی مخصوص صورتحال کے پیش نظر بنایا گیا تھا۔

بعد میں یہ معاہدہ عملی طور پر 1991 کے معاہدے کی جگہ لئے چکا ہے۔ اور 1991 کا معاہدہ جسے آئینی تحفظ حاصل ہے وہ عمل میں نہیں لایاجارہا ہے۔
اس ضمن میں حکومت سندھ کے دو اعترضات ہیں۔ اول یہ کہ سندھ کو ڈیموں میں پانی کی قلت یا ان کے خالی ہو جانے کے بارے میں پہلے سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ جبکہ وفاقی حکومت کا دعوا ہے کہ سندھ کو پانی کی امکانی قلت سے آگاہ کردیا گیا تھا۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت کے لئے واپڈا سمیت دیگر وفاقی ادارے ذمہ دار ہیں۔ ان کے مطابق چشمہ جہلم اور تونسہ پنجند لنک کینال کھول کر سندھ کے حصے کا پانی چرالیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ نے یہ بھی بتایا کہ وفاق سے ملی بھگت کر کے پنجاب دو مزید کینال تعمیر کررہا ہے ۔ڈیم بھرنے کے لئے بھی کوئی متفقہ اور فارمولا اور نظام موجود نہیں۔جب سندھ میں پانی کا بحران ہوتا ہے تب منگلا ڈیم بھرنا شروع کیا جاتا ہے۔ اور جب دریاء میں پانی سیلابی شکل اختیار کرتا ہے تب ڈیم خالی کیا جاتا ہے۔ یعنی منگلا ڈیم بھرنے اورور خالی کرنے کی حکمت عملی کچھ اس طرح کی ہے کہ سندھ خسارے میں ہی رہتا ہے اور پنجاب فائدے میں رہتا ہے۔
سندھ اس معاملے پر مسلسل اپنے اعتراضات اور تحفطات کا اظہار کرتا رہا ہے لیکن ان کو کسی حساب میں نہیں لیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے اب براہ راست مطالبہ کیا ہے کہ منگلا اور تربیلا ڈیموں کو ریگیولیٹ کرنے اختیارات واپڈا سے لیکر سندھ اور بلوچستان کو دیئے جائیں۔ انہوں نے ارسا کے اختیارات بھی صوبوں کو دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سندھ نے پانی کی تقسیم کا معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں اٹھانے اور وہاں پر حل نہ ہونے کی صورت میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں لے جانے کی بھی دھمکی دی ہے۔
سندھ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو عدالت سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔
سندھ کو پانی کی تقسیم سے متعلق برسہا برس سے شکایات رہی ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے برطانوی دور میں بھی سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کا تنازع کھڑا ہوا تھا، جس کو عدالتی کمیشن کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد جب پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم ہوئی تو معامل اور گمبھیر ہو گیا اور پاکستان کا تقریبا تمام انحصار دریائے سندھ پر ہو گیا۔ ورنہ خاص طور پر پنجاب دیگر دریاؤں سے بھی پانی لیتا تھا جو بعد میں بھارت کو دے دیئے گئے۔
سندھ طاس معاہدے کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ پانی کی تقسیم کے بجائے دریاؤں کی تقسیم کی گئی، جو کہ غیر فطری اور غیر منطقی تھی۔ تین مشرقی دریاؤں کا کل پانی 33 ملین ایکڑ فٹ آتا تھا۔ جس میں سے 8 ملین ایکڑ فٹ مشرقی پنجاب میں استعمال ہوتا تھا اور 9 ملین اایکڑ فٹ مغربی پنجاب میں ۔ باقی 16 ملین ایکڑ فٹ سندھ کو ملتا تھا۔
ہم نے یہ تمام پانی بھارت کو دے دیا اور اس کے متبادل کے لئے عاملی بینک وغیرہ سے قرضے لیکر ڈیم تعمیر کئے۔دریاؤں کی ایک لمبی عمر ہوتی ہے۔ جبکہ ڈیم محدود مدت یا محدود عمر کے ہوتے ہیں۔ کیونکہ ڈیم میں مسلسل جمع ہونے والی مٹی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ر دیتی ہے اور پھر ایک عرصے کے بعد یہ گنجائش بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد دوسرے ڈیم بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس کے لئے مزید قرضہ لینا پڑتا ہے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ نئے منصوبے کے لئے اتفاق رائے بھی نئے سرے سے قائم کرنا پڑتا ہے۔
گزشتہ دو عشروں کے دوران ڈیم خالی ہو جانے کے باعث پاکستان پانی کئی شدید قلت کا سامنا کر چکا ہے۔
2000 سے 2002 تک، تین سال کا عرصہ اسی وجہ سے قلت کا دورانیہ رہا۔ چھ سال کے بعد یعنی 2008 سے 2010 تک ایک مرتبہ پھر ڈیم خالی ہو گئے۔ ان برسوں کے دوران سندھ کے حصے میں 40 فیصد لیکر 57 فیصد تک پانی کی قلت آئی۔ جبکہ پنجاب میں صورتحال اس حد تک خراب نہیں تھی۔ کیونکہ پنجاب پانی کی کم دستیابی کی قلت اپنے حصے کے مطابق شیئر کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔
مشرف دور میں سندھ میں پانی کی اتنی قلت پیدا ہو گئی تھی کہ لوگوں کو سیم نالوں کا پانی استعمال کرنا پڑا تھا۔ اور یہ بھی کہ مردوں کو غسل دینے کے لئے پانی دستیاب نہیں تھا۔ یہ وہ رپورٹس ہیں جو میڈیا میں شایع ہوچکی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ رواں سال کے دوران اسکردو میں کم برف جمنے کے باعث پانی کی قلت پیدا ہوئی ہے۔ ربیع میں پنجاب نے 18 فیصد قلت شیئر کی جبکہ سندھ کے حصے میں یہ قلت 22 فیصد آئی۔ اب خریف کے لئے سندھ میں پانی دستیاب نہیں۔ پانی کی قلت سندھ کی زراعت اور معیشت کو اس وجہ سے بھی ضرب کاری ثابت ہوگی کہ یہاں پر خریف کے فصل کی بوائی اسی عرصے میں ہوتی ہے۔
معاہدے کے مطابق لنک کینال صرف سیلاب کی صورتحال میں کھولے جاسکتے ہیں۔ لیکن پنجاب کے دو لنک کینال چشمہ جہلم اور تونسہ پنجند پورا سال چلتے ہیں۔ یوں تمام وعدے اور معاہدے کبھی بھی عمل میں نہیں آتے۔
پانی تقسیم کے معاہدے پر موثرعمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے ٹیلی میٹری سسٹم لگایا گیا، لیکن بعض مخصوص وجوہات کی بناء پر اسے بھی ناکام اور ناکارہ بنادیا گیا۔ آج انفرمیشن ٹیکنالاجی نے جتنی ترقی کی ہے اور عام ہوئی ہے اس کے پیش نظر کسی بھی بیراج یا پانی کی تقسیم کے مقام پر پانی کے بہاؤ کو ریکارڈ کرنا معمولی بات ہے۔ لیکن حکومت اس طرف کیوں نہیں سوچتی؟
دلچسپ امر یہ ہے کہ منگلا کو ریگیولیٹ کرنے یعنی بھرنے اور خالی کرنے میں نہ سندھ کا عمل دخل ہے اور نہ ہی اس عمل میں سندھ کے مفادات کو ملحوظ خیال رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس ڈیم کے قرض کی رقم چاروں صوبوں کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ سندھ کے لوگ بھی پاکستان کے شہری ہیں۔ ان کی ضروریات ، مفادات، اور ترقی کا دوسرے کسی صوبے خاص طور پر پنجاب کے برابر خیال رکھنا چاہئے۔
پانی کا معاملہ ملک کے ایک اہم صوبے کی زراعت پر بری طرح سے اثرانداز ہوتا ہے جس کے اثرات مجموعی طور پر ملکی معیشت پر ہی پڑیں گے۔ اس کے بعد اثرات سماجی اور سیاسی بھی ہیں جو چند برسوں بعد نظر آنا شروع ہوتے ہیں۔
دیہی علاقوں میں غربت بڑھے گی، تو امن و مان کی صورتحال خراب ہوگی۔ شہروں پر دباؤ بڑھے گا۔ جہاں پہلے ہی کئی پیچیدگیاں اور مسائل موجود ہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ سندھ اور پنجاب کے درمیان تناؤ اور غلط فہمیوں میں اضافہ ہوگا۔پہلے ہی دوریاں اور غلط فمہیاں بہت ہیں ان میں مزید اجافے کے بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ کی شکایات کا فوری ازالہ کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ پانی کی تقسیم کو جدید ٹکنالاجی کے ذریعے مانیٹر کیا جائے۔ اور ڈیموں کو ریگیولیٹ کرنے یعنی بھرنے اور خالی کرنے میں صوبوں کی شراکت اور 1991 کے متفقہ پانی کے معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

سندھ نامہ : سندھ: حکمران خود انتظامی بحران کے ذمہ دار - سہیل سانگی

 Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
April 8, 2017 Nai Baat
سندھ نامہ سہیل سانگی
ملک کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پیپلزپارٹی نے اپنے طور پر منائی۔ اس سے قبل جب بھی بھٹو کی برسی منائی جاتی تھی تو سندھ بھر میں جوش وخروش پایا جاتا تھا۔ لوگ اپنے طور پر گڑھی خدابخش پہنچتے تھے اور اپنے شہیدرہنما اور مقتول وزیراعظم کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے۔ بہرحال رواں سال پیپلزپارٹی کیاسمبلیوں یا بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندگان اور پارٹی عہدیداران نے شرکت کی۔

اگرچہ پارٹی کے بانی کی برسی کے موقع پر آصف علی زرداری نے پارٹی کی حکمت عملی کے حوالے سے بہت اہم تقریر کی تھی لیکن یہ تقریر میڈیا خواہ عام لوگوں میں موضوع بحث نہیں بن سکی۔ یہی صورتحال وزیراعظم میاں نوا ز شریف کے دورہ سندھ کی رہی، جو دو تین روز تک ہی موضوع بحث بنا رہا۔اس کے بعد لوگ میاں صاحب کے اس اہم اور حکمت عملی میں تبدیلی کی علامت کے طور پر کئے گئے دورے کو لوگ بھول گئے۔
میڈیا اور عام لوگوں میں زیر بحث موضوع آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کا دوبارہ تبادلہ رہا۔ چند ہفتے قبل حکومت سندھ نے انہیں تبدیل کر کے ان کی خدمات وفاقی حکومت کے حوالے کردی تھی۔ جس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناہی جاری کرتے ہوئے ان کے تبادلے کو روک دیا تھا۔ گزشتہ روز ایک بار پھر حکومت سندھ ہائی کورٹ کے حکم امتناہی کے باوجود ان کا تبادلہ کردیا گیا۔ اور عبدالمجید دستی کو قائم مقام آئی جی سندھ کی چارج دے دی گئی۔ سندھ حکومت کے اس اقدام پر مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں میں تعجب کا اظہار کیا جارہا ہے کہ آخر وہ اس پولیس افسر کو عہدے سے کیوں ہٹانا چاہ رہی ہے؟
سوشل میڈیا بھی بھرپور طریقے سے اے ڈی خواجہ کی حمایت میں اتر آیا ہے۔ مخلتف تبصرے اور تجزیے پیش کئے جارہے ہیں۔ قائم مقام آئی جی سندھ عبدالمجید کے طلب کردہ اجلاس میں 47 افسران میں سے 35 افسران نے شرکت کی۔ گزشتہ ایک ہفتے سے یہ پیچیدگی چل رہی ہے کہ امن و امان کے حوالے سے اس حساس صوبے کا اصل آئی جی کون ہے؟ پولیس افسران کس کا حکم مانیں ۔
صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ چونکہ امن و مان صوبائی معاملہ ہے لہٰذا پولیس سربراہ کا تقرر صوبائی معاملہ ہے۔ وفاق اس میں مداخلت یا مرضی نہیں چلا سکتا۔

عدالت میں درخواست گزار ایک غیر سرکاری تنظیم پائلر کے رہنما کرامت علی کے وکیل کا موقف ہے کہ اگر حکومت سندھ کا یہ موقف مان بھی لیا جائے ، سندھ حکومت سے مراد وزیر اعلیٰ نہیں۔ بلکہ سندھ کابینہ ہے۔ سندھ کابینہ نے اے ڈی خواجہ کے تبادلے یا نئے آئی جی کے تقرر کی منظور نہیں دی ہے۔ لہٰذا حکومت سندھ کو تبادلے کا نوٹیفکیشن واپس لینا پڑا۔ اور کابینہ کا خصوصی اجلاس بلا کر آئی جی سندھ کے بتادلے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
سندھ کے ضلع بدین سے تعلق رکھنے والے اے ڈی خواجہ جن کا اصل نام الہڈنو خواجہ ہے، وہ ایک فرض شناس افسر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے بعض حکمران جماعت کے بعض اہم رہنماؤں کی ہدایات ماننے سے انکار کردیا تھا، کوینکہ وہ قانون یا قوائد ضوابط کے برعکس تھے۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ حکومت سندھ کے اس زبردست کے فیصلے پر وزیراعظم ہاؤس خاموش ہے۔ اس خاموشی کو رضامندی کے دائرے میں شمار کیا جارہا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ٹنڈو محمد خان کے علاقے میں شگر ملز اور گنے کے کاشتکاروں کے درمیان پیدا تنازع اور اس سے قبل ٹنڈو محمد خان میں کچی شراب پینے سے ایک درجن افراد کی ہلاکت پر اے ڈی خواجہ نے وہاں کے پولیس افسر کے خلاف جو رپورٹ دی تھی، وہی رپورٹ ان کے اور حکمران جماعت کے درمیان فاصلے کا نقطہ آغاز بنی۔اس کے بعد دن بدن معاملات خراب ہوتے چلے گئے۔
حکومت سندھ کے بااختیار حضرات نے ان کے تبادلے کے لئے مناسب وقت کا انتظار شروع کر دیا۔اس سے قبل سندھ پولیس میں میرٹ پر دس ہزار افراد کی بھرتی بھی خواجہ صاحب کے کھاتے میں آتی ہے، جہاں انہوں نے حکمران جامعت کی سفارشوں کو ایک طرف رکھ کر یہ فرض انجام دیا۔ ایک اچھے افسر کی وجہ سے سندھ میں پولیس کے لئے اچھی رائے بننا شروع ہوئی تھی، اس تبادلے سے وہ بھی ختم ہوگئی۔
صرف اتنا ہی نہیں ڈپٹی کمشنر سانگھڑ عمر فاروق بلو کا تبادلہ کردیا گیا ہے جہاں 20 اپریل کو صوبائی نشست کے ضمنی انتخابات ہونے جارہے تھے۔ الیکشن کمیشن نے حکومت سندھ کے اس فیصلے کو انتخابی قوانین کی خلاف ورزی گردانتے ہوئے حکومت سندھ کو یہ تبادلہ رکنے کا حکم دیا لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے مثبت جواب نہ ملنے پر یہ انتخابات ملتوی کر دیئے ہیں۔ ضلع میں صوبائی نشست کے ضمنی انتخابات کے علاوہ بعض مقامات پر ضمنی بلدیاتی انتخابات بھی ہونے تھے۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ کے حکمران قانون کی بالادستی اور انتظامی برابری رکھنے کے بجائے خود صوبے میں انتظامی بحران پیدا کرنے کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ لیکن یہ بات ذہن نشین کرنی چہائے کہ بیوروکریسی کو نکیلی ڈال کر چلانے کا اب وقت نہیں رہا۔ کیونکہ میڈیا چوکس اور عدالتیں فعال ہیں۔ بیوروکریسی کے لوگ ماضی کے تجربے میں دیکھ چکے ہیں کہ کرپشن اور قانون کی خلاف ورزی کے لئے قربانی کا بکرا بیوروکریسی کو ہی بنایا گیا تھا۔ اور الٹے سیدھے کام کروا کر انہیں ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا گیا تھا۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ حالیہ دور حکمرانی میں سندھ پبلک سروس کمیشن سب سے زیادہ تنازع ادارہ رہا ہے۔ اس ادارے کا بحران اب بھی جاری ہے۔ اس ادارے کے سربراہ کے لئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سابق سفیر نورمحمد جادمانی کا تقرر کردیا ہے لیکن یہ تقرر اشتہارات دیئے بغیر کیا گیا ہے جبکہ کمیشن میں دس میں سے آٹھ اراکین کی اسامیاں تاحال خالی ہیں۔ بظاہر یہ دلیل دی جارہی ہے کہ اس عہدے کے لئے اشتہار دینا ضروری نہیں کیونکہ یہ سرچ کمیٹی کا صوابدیدی اختیار ہے۔
جب ایک ادارہ اتنا متنازع بن جائے کہ اس میں عدالت عظمیٰ کو مداخلت کرنی پڑے تب اس کو شفاف رکھنے کے لئے اشتہار دینا ضروری تھا۔ اس کی وجہ سے شبہ ہے کہ باقی اراکین کا تقرر بھی اسی طرح سے ہوگا اور ایک بار پھر سندھ پبلک سروس کمیشن سیاسی مداخلت کے ساتھ تشکیل دیا جائے گا۔ اخبار نے مشورہ دیا ہے کہ میرٹ پر افسران کی بھرتی کے لئے کمیشن کو غیر سیاسی رکھا جائے اور اس کے ممبران کا تقرر
ایمانداری، غیر جانبداری اور میرٹ پر کیا جائے۔ صرف اسی صورت میں سندھ میں تقرریاں بھی میرٹ پر ہو سکیں گی۔

زردری کے تین کاروباری شرکاء کی پراسرار گرفتاری سندھ نامہ سہیل سانگی

April 14, 2017
سندھ نامہ   سہیل سانگی
گزشتہ ہفتہ اگرچہ کوئی بہت بڑی سرگرمی نہیں نظرّ ئی لیکن سندھ میں بعض اہم واقعات ضروررونما ہوئے ہیں۔ سندھ میں پانی اور بجلی کا بحران پہلے ہی چل رہا تھا۔ ان امور پر سندھ اور وفاق کے درمیان خطوط نویسی چل رہی تھی۔ اچانک پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زردری کے تین اہم کاروباری شرکاء کی پراسرار طور پر گرفتاری نے معاملے کو گرما دیا۔ اور سندھ اور وفاق کے درمیان تعلقات میں شدید کشیدگی پیدا ہو گئی۔ تین ہفتے وزیر اعلیٰ سندھ نے بجلی کی قلت پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے بجلی کمپنیوں کے دفاتر پر قبضے کی دھمکی دی تھی۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ روز اسمبلی میں آصف زرداری کے ذاتی دوستوں کا معاملہ اسمبلی میں شدومد کے ساتھ اٹھانے کے دوسرے روز یہ دھمکی دی کہ سندھ کو اگر گیس نہ دی گئی تو سندھ سے گزرنے والی گس لائینیں بند کردی جائیں گی۔ اب وزیراعلیٰ سندھ کا لہجہ مزید جارحانہ ہو گیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ صوبہ 70 فید گیس پیدا کرتا ہے اور آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت اس گیس پر پہلا حق مقامی لوگوں کا ہے جہاں سے گیس نکلتی ہے۔ اس کے علاوہ پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار کھڑو نے احتجاج اور مظاہروں کا اعلان بھی کیا ہے۔ سندھ میں پانی کی قلت 45 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جس سے زراعت کے علاوہ پینے کے پانی کی فراہمی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ جسٹس اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں قائم عدالتی کمیشن کی صوبے میں پینے کے پانی کے حوالے دی گئی رپورٹ ایک بھیانک صورتحال پیش کرتی ہے ۔ جس کی وجہ سے سندھ حکومت سخت دباؤ میں بھی ہے۔ ایسے میں اگر صوبے کو مجموعی طور پر پانی کی فراہمی کم ہو جاتی ہے تو صوبائی حکومت آسانی کے ساتھ خود کو بچا سکتی ہے۔ صوبے کے شہروں میں 6 سے 8 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہے۔ حیدرآباد جیسے بڑے شہر میں ابھی گرمی کے موسم میں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ ہے اور گئی اہم علاقوں میں گیس کی سپلائی بہت کم مقدار میں کی جارہی ہے۔ صوبے میں کئی مقامات پر ابھی اپریل میں ہی درجہ حرارت 42 سے 47 تک پہنچ گیا ہے۔ حکومت سندھ کے ان مطالبات میں اس وجہ سے بھی جان ہے کہ سندھ کے لوگ حقیقی معنوں میں ان مسائل کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے اس احتجاج اور مطالبات کو عوام کی جانب سے مثبت جواب مل سکتا ہے۔ اگرچہ لوگ جانتے ہیں اور اس کا اظہار میڈیا میں بھی کیا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی یہ مطالبات ایک خاص موقع پر اور کاص وجہ سے اٹھارہی ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ مانی جاتی ہے کہ وفاق میں حکمران جماعت اور وفاق کی سیاست کرنے والی دیگر جماعتیں سندھ کے ان مسائل سے دور کھڑی ہیں۔
سندھ کے تمام اخبارات پانی، گیس، بجلی اور ترقیاتی منصوبوں کے معاملے میں صوبائی حکومت کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ اخبارات نے اداریوں، اور کالموں میں وفاقی حکومت کی توجہ صوبے کے ان اہم مسائل کی جانب منبذول کرائی ہے۔ اور کہا ہے کہ یہ مطالبات بنیادی طور رپ پیپلزپارٹی کے نہیں بلکہ سندھ کے لوگوں کے مسائل ہیں جن سے چشم تہی کا مطلب صوبے کے لوگوں کو نظر انداز کرنا۔
سندھ حکومت نے ایک اور ناقابل فہم فیصلہ کیا ہے جس کے مطابق کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو کسی بھی شہری کو گرفتار کرنے ان کے خلاف کیس داخل کرنے کی ہدایت جاری کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔’’ روزنامہ کاوش ‘‘ اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ سندھ آج 2017 میں اینٹی کلاک وائیز ترقی کراتے ہوئے انتظامی طور پر 1898 میں کھڑا کیا گیا ہے۔ صوباء محکمہ داخلہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق کوڈ آف کرمنل پروسیجر مجریہ 1898 کی شق 22کے مطابق کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو جسٹس آف پیس کا درجہ دے کر انہیں اختیار دیا گیا ہے کہ جن لوگوں کے خالف پولیس کیس داخل نہیں کرتی ، ان کے خلاف یہ جسٹس آف پیس مقدمہ درج کرائیں گے اور اور یہ جسٹس آف پیس ایسے ملزمان کو سزا بھی دے سکیں گے۔ ماضی میں اس طرح کے قوانین ملک فتح کرنے والے حکمران اور آمرلاگو کرتے رہے ہیں۔ اب لگتا ہے کہ سندھ کی حکمران جماعت نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے جمہوری دور میں بھی یہ فیصؒ ہ کیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق امن و مان یا عوامی سکون خراب کرنے سے روکنے کے لئے کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کا اختیار مذکورہ بالا انتظامی افسران کو دے دیا گیا ہے۔ یوں ان انتظامی افسران کو عدلیہ کے اختیارات بھی دے دیئے گئے ہیں۔ آئین، عدلیہ اور اسمبلیوں کی موجودگی میں پہلے سے کمزور سندھ کے عام آدمی کو بیوروکریسی کے ہاتھوں مزید کمزور کرنے کا حکمنامہ جاری کردیا گیا ہے۔ اس حکم نامے پر حکمران جماعت تو خوش ہوسکتی ہے لیکن اہل فکر و نظر کے ذہنوں مین کئی سوالات ابھر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ پولیس نظام میں آج کے حالات سے میچ کرنے والے اصلاحات لائی جائیں، جن کی قدامت کے بارے میں موجودہّ آئی جی سندھ پولیس اظہار کر چکے ہیں، اس کے برعکس پولیس اور کسی حد تک عدلیہ کے اختیارت بھی انتظامیہ کو دے دیئے گئے ہیں۔ ضدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس حکمنامے کا اثر سیاسی مخالفین پر بھی پڑے گا۔ بہرحال اس حکمنامے سے یہ بات عیاں ہے کہ کہ کمزور طبقات اس یکطرفہ حکم کا ضرور نشانہ بنیں گے۔ جمہوریت میں عوام کی حکومت عوام کے لئے اور عوام کے ذریعے ہوتی ہے لیکن یہاں حکومت اور اس کے اختیارات افسران میں مٹھی میں قید کئے جارہے ہیں۔ اس سے عوام کو حکومت میں ہونے کا احساس کیسے ہوگا؟

Daily Nai Baat

نورین لغاری - سندھ میں لاکھوں لوگوں کا بھرم ٹو ٹ گیا . سندھ نامہ



Daily Nai Baat April 21, 2017

سندھ نامہ   سہیل سانگی
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ نورین لغاری سے متعلق آنے والی رپورٹس کے بعد سندھ میں ان لاکھوں لوگوں کا بھرم ٹو ٹ گا جن کا دعوا تھا کہ سندھ میں انتہا پسندی کی نوعیت وہ نہیں ہے کہ سندھ کی بیٹیاں اس کا حصہ بنیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس دن بھور بھیل کی لاش کو قبر سے نکال کر پھینک دیا گیا تھا، اس ان سند پر انتہاپسندی کے قبضے کا اعلان ہو چکا تھا۔یہاں کا اہل فکرو دانش طبقات محسوس کرنے کے باوجود کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے کشورپور میں پھر جیبّ باد میں اور اس کے بعد قلندر لال شہباز کی درگاہ پر دھماکے ہوئے جس میں معصوم بچے ، خواتین اور متعدد بے گناہ لوگ جاں بحق ہوگئے۔ ان واقعات کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ ان میں مقامی لوگ بھی ملوث تھے۔ لیکن اس پر بھی ہماری آنکھیں نہ کھلیں۔ جب نورین لغاری کی گمشدگی ک کی باتیں سامنے آئیں تو ہم حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائیاس پر حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔
آخر کب تک ہم خود کو اس دھوکے میں مبلتا رکھیں گے کہ سندھ صوفیوں اور ولیوں اور دروہشوں کی دھرتی ہے؟ حقیقت بہت ہی تلخ ہی سہی لیکن یہ سچ ہے کہ انتہا پسند گروہ اپنا فکر اور فلسفہ اس سماج کی رگوں میں داخل کر چکے ہیں۔انہوں نے ہر چھوٹے بڑے شہر کے اردگرد اپنے مورچے بنا لئے ہیں۔ اب ان سے نہ تعلیی ادارے محفوظ ہیں اور نہ ہی عام لوگ۔ غربت کو بہانہ بنا کرعام لوگوں کے ذہنوں میں زہر انڈیل رہے ہیں۔ قدرتی آفات کے موقع پر نہ صرف لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ بڑی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ب بھی رہتے ہیں۔ سندھ میں انلوگوں کو اس لئے بھی جگہ ملتی ہے کہ یہاں کی سیاسی جماعتوں، آدرشوں اور اقدار نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ا قرباء پروری میں تمام حدود سے تجاوز کر لیا۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں بیگانگی اور لاتعلقی کا احساس شدت سے ابھرا ہے۔ ان کے اندر نفرت اور تکلیف پنپ رہی ہے۔ انتہا پسند گروہ اس نفرت اور بیگانگی کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ اسفوس کا مقام یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جامعت یا حلقہ اس صورتحال کو سنجیدگی سے لینے کے لئے تیار نہیں۔ اور نہ ہی ہماری پولیس اس حقیقت کو ماننے کو تیار ہے۔
نورین لغاری کے بارے میں جب خبریں عام ہونے لگیں تو پولیس نے اس کے انتہاپسندی سے تعلق کو ماننے سے انکار کر کے اسکو پسند کی شادی کا عماملہ قرار دیا۔ لہٰذا اس کی سنجیدگی سے تشویش کی ضرورت ہی نہیں سمجی گئی۔ میڈیا نے انہی دنوں میں لکھا یوتھا کہ تعلیمی اداروں اور قانون نافذ کرنے والوں کو اپنے تعلیمی اداروں پر نظر رکھنی چاہئے۔ اور پتہ لگانا چاہئے کہ کہیں کوئی انتہا پسند گروہ ادارے میں اپنا اثر اسوخ بڑھا تو نہیں رہا۔ یا طالب علموں میں سدت پسندی کے رجحانات بڑھ تو نہیں رہے ہیں۔ اس معاملے کی تحقیقات کے ساتھ ان کی روک تھام کے لئے اقدامات کی بھی ضرورت تھی۔ لیکن کسی بھی ادارے نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لای اور نہ ہی اپنے اداروں کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کیا۔ یہ لاپرائی ہی اصل میں اس سماج کا المیہ ہے۔ ہم اس خوش فہمی میں ہیں کہ سندھ کبھی بھی انتہا پسندی کے اثر میں نہیں آئے گی۔ لیکن اب ہمیں اس خوش فہمی سے باہر نکلنا چاہئے۔ اور زمینی حالات کا ادراک کرنا چاہئے۔ اگر یہ ھالات جاری رہتے ہیں ، آج نورین نے یہ قدم اٹھایا ہے کل دوسری بچیاں بھی اس طرح کا اقدام اٹھاسکتی ہیں۔ اس ضمن میں قوم پرست حلقوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ کیونکہ حکمران جماعت کواپنے مفادات سے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کو اقتدار اور صرف اقتدار چاہئے۔ خلق خد ا کھڈے میں چلی اجتی ہے یا انتہا پسندی کی لپیٹ میں آجاتی ہے اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ایسے حکمران جو معمالی علاج کے لئے بھی بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں وہ حالات خراب ہونے کی صورت میں دیس سے بھاگ نکلنے میں کتنی دیر لگائیں گے؟ ہمیں اور ہماری نسلوں کو یہاں رہنا ہے اس لئے انتہا پسندی کے راستے روکنے کے لئے ہمیں ہی آگے آنا پڑے گا۔
تھر ایک بار پھر میڈیا میں موضوع بحث بن رہا ہے۔ کوئلے کی کھدائی کے دوران نکلنے والے آلودہ پانی کو گوڑانو کے مقام پر ذخیرہ کرنے کے خلاف مقامی آبادی کی مسلسل بھوک ہڑتال اور احتجاج کو چھا ماہ ہو چکے ہیں ۔ لیکن حکومت خواہ کوئلہ نکالنے والی کمپنی مقامی آبادی کو نہ سمجھا سکی ہے اور نہ ان کے خدشات دور کر سکی ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ میں سندھ حکومت کی تھر کی غذائی ، صحت وغیرہ کی صورتحال کے حوالے سے پیش کردہ رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ خم غذائیت اور امراض کی وجہ سے بچوں کی اموات واقع ہو رہی ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئندہ مون سون میں بارشیں نہ ہونے کی صورت میں حالات مزید خراب ہونگے ۔ یہ رپورٹ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے مٹھی میں پانچ بچوں کے اموات پر ازخود لئے گئے نوٹس کے جواب میں پیش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بچوں کی اموات کا سبب، غزائیت کی قلت، پینے کے پانی کی عدم دستیابی، صحت کی سہولیات دور ہونا بتایا گیا ہے۔
محکمہ صحت کی بیمار بیوروکریسی تھر کیا س اہم مسئلے اعداوشمار کے کھیل میں مصروف ہے۔ ایک ماہ کے دوران فوت ہونے والے بچوں کی تعداد 19ہے جبکہ تین ماہ کے دوران 101 بچے موت کا شکار ہو گئے۔ سندھ حکومت کی دعا ہے کہ سول ہسپتال مٹھی میں کرأچی اچھی ہسپتالوں جیسی سہولیات موجود ہیں۔ گزشہ چند برسوں سے حکمران بچوں کی اموات کی وجہ نہایت ہی توہین آمیز الفاظ میں ماؤں پر ڈالتے ہیں، کبھی اس ک قدرتی حالات قرار دیتے ہیں۔ حکومت مناسب خوراک، علاج معالجے، ترقیاتی کاموں کے بارے میں کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ موجودہ حکومت کی فخریہ پیشکش آر او پلانٹس کی ناکامی کا خود حکومت اعتراف کر چکی ہے جس پر اربوں روپے خرچ کئے گئے تھے۔ تھر میں کالے سون کی دریافت کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ اب اس پسماندہ علاقے کے لوگوں کی سمت جاگ اٹھے گی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں وہ رہا۔ بلکہ ان کی تکالیف اور مصائب میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ حکومت کو سنجیدگی اور اپنائیت کی نظر سے تھر کے معاملے کو دیکھنے کی ضرارت ہے۔


Daily Nai Baat April 21, 2017

وزیراعظم نواز شریف کا دورہ سندھ . سندھ نامہ سہیل سانگی

Daily Nai Baat April 29/28
سندھ نامہ سہیل سانگی
سندھ میں سیاست تبدیل ہو رہی ہے یا نہیں لیکن موسم کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت میں یقیننا اضافہ ہو رہا ہے۔وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان کے حالیہ دوروں نے مزید شدت پیدا کردی ہے۔ صوبے کی دو بڑی پارٹیاں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم جو گاہے بگاہے اور طویل مدت تک اقتدار میں رہتی آئی ہیں وہ بھی احتجاج کر رہی ہیں۔ خیال ہے کہ یہ احتجاج کچھ تبدیل کرنے کے لئے نہیں بلکہ کسی تبدیلی کو روکنے کے لئے کیا جارہا ہے۔
’’روزنامہ کاوش‘‘لکھتا ہے کہ حکمراں جماعت کی مثالی کارکردگی کے دعوے اپنی جگہ پر لیکن سندھ میں عوام کو گھر سے نکل کر ایک شہر سے دوسرے شہر جانے اور واپس آنے کے لئے جو ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے حیدرآباد میرپورخاص، جامشورو، نوشہروفیروز، ٹنڈو مستی اور گھوٹکی کے گردونواح کے لوگوں کا کمال ہے کہ وہ روزانہ اتنا بھاری تول ٹیکس ادا کرتے رہتے ہیں۔ میرپورخاص، حیدرآباد روڈ پر ڈیتھا کے پاس قائم ٹول پلازا سے لیکر نوشہروفیروز، ٹنڈو مستی، اور گھوٹکی کے پاس قائم ٹول پلازا پر ٹیکس کی وصولی کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ میرپورخاص حیدرآباد روڈ کے ٹول ٹیکس کے بارے میں حکومت سندھ کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل اس ضمن میں 2016 میں عدالت میں پیش بھی ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد مقامی آبادی کو کسی حد تک ٹیکس میں رعایت دی گئی۔ اور ٹیکس کے ریٹ کچھ کم کئے گئے۔ اب معاملہ اعلیٰ عدالت میں ہے۔ وہاں بھی جج صاحبان کے نوٹس میں یہ بات آئی ہے کہ وصول کئے جانے والے ٹیکس کے ریٹ زیادہ ہیں۔ جو حکومت سندھ کے ورکس اینڈ سروسز محکمے کو کلو میٹر کے حساب سے 2009 اور 2012 میں مقرر کرنے تھے۔ نوکرشاہی کی چلاکیوں کی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا اور اب معاملہ سپریم کورٹ تک جاپہنچا ہے۔ حیدرآباد میرپور روڈ کے ٹول ٹیکس میں زیادہ رعایت نہ دینے کے معاملے میں ممکن ہے کہ پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کا معاملہ رکاوٹ ہو، لیکن جامشورو، نوشہروفیروز، ٹنڈو مستی خان، گھوٹکی سمیت صوبے کی کئی شاہراہوں پر قائم ٹول پلازا اور وہاں ٹیکس کی وصولی کے بارے میں جب عدالت ان سے پوچھے گی تو سرکاری وکیل کیا جواب دیں گے؟ ان ٹول پلازاؤں پر تعینات عملہ عام لوگوں کی جو روزانہ بے عزتی کرتا ہے اس کی قیمت وصول کئے جانے والے ٹیکس سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن اس طرح کے رویوں کی ہمارے جیسے ممالک میں کوئی حساب نہیں کیا جاتا۔ عملہ جس طرح سے آنے جانے والے لوگوں سے روش روا رکھتا ہے اس کا ذکر قانون کی کتابوں میں نہیں ملتا۔ لیکن عوام کا یہ کیس حکمرانوں پر یقیننا بنتا ہے، جو عوام کی خدمت کرنے کے نام پر ووٹ لیکر اقتدار میں آتے ہیں لیکن بعد میں اس طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام کو ستاتے رہتے ہیں۔
ایک وہ پلازا ہیں جو قانون کے تحت قائم کئے گئے ہیں لیکن وہاں پر وصول کیا جانے والا ٹیکس نامناسب ہے۔ جس کے خلاف عدالتوں میں شکایات آئی ہیں۔ ان ٹول پلازاؤں کے علاوہ صوبائی وزیراعلیٰ ان ٹول پلازاؤں سے بھی واقف ہونگے جو بااثر شخصیات نے اپنے سیاسی اثر رسوخ کی بناء پر غیر قانونی طور پر قائم کر رکھے ہیں ۔ ٹھٹہ کا یہ ٹول پلازا موجود وزیر برائے ورکس نے خود کھڑے ہو کر بند کرایا تھا۔ ایسے اور ٹول پلازا بھی قائم ہیں۔ کیا ان کے بند ہونے کے لئے وزیراعلیٰ سندھ کے وہاں سے گزرنے کا انتظار کیا جائے۔؟ ٹھٹہ میں غیر قانونی طور پر قائم کئے گئے ٹول پلازا پر وصول کی گئی رقم کہاں گئی؟ اس کا حساب کیوں نہیں لیا گیا؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ ’’ پلی بارگین‘‘ کے اصول کے تحت جو رقم جس کے حصے میں آئی وہ اسی کو معاف کردی گئی؟
’’روزنامہ عبرت ‘‘لکھتا ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان نے عوامی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لیاقت آباد سے مزار قائد تک ریلی نکالی۔ اور یہ الٹیمیٹم دیا کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو سندھ اسمبلی کے باہر ایک اور اسمبلی لگائی جائے گی۔ اور سندھ کی تقسیم کی بات کی جائے گی۔ میئر کراچی وسیم اختر نے ریلی سے خطاب کرت ہوئے کہا کہ کراچی کے مالک ہونے کا دعوا کرنے والے اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ واقعی اس کے مالک ہو گئے ہیں۔ متحدہ رہنماؤں نے کہا کہ اگر بہاولپور اور ہزارہ میں علحدہ صوبے کی بات کی جاتی ہے ، ہم بھی حق نہ ملنے کی صورت میں الگ صوبے کی بات کریں گے۔
اگرچہ ایم کیو ایم کے بانی کی پاکستان دشمن تقریر کے بعد یہ جماعت کئی دھڑے میں بٹ چکی ہے۔ ان میں سے بعض پاکستان کے جھنڈے تلے پناہ لے لے کر اپنا منشور دیدہ دلیری کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں، دوسرے پاکستان سے محبت کے نام پر سندھ کی دھرتی کو دو لخت کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس قسم کے خیالات میں پھنسے ہوئے افراد نے ہمیشہ سندھ کے لوگوں کو دھوکے اور فریب میں رکھا ۔ یہاں تک کہ سندھ کے حکمرانوں نے بھی اس کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا۔ اس سے قبل ان کے بانی بھی متعدد بار اس طرح کے مطالبات کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ دو تین سال کے دوران ایم کیو ایم کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے بانی نے پاکستان کے بارے میں زہر فشانی کی بیرون ملک بیٹھ کر سندھ کو تقسیم کرنے کی بات کی اپنے حامیوں کو گھر کا سازو سامان بیچ کر ہتھیار خرید کرنے کی ترغیب دی۔ اس کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہ سب کے سامنے ہے۔ لیکن ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہئے کہ برطانیہ میں مقیم اس شخص کے پاکستان میں موجود تنظیم پر اثرات مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ایم کیو ایم پاکستان کبھی بھی سندھ کو تقسیم کرنے کی بات نہیں کرتی۔
اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ سندھ کے لوگ اس سرزمین کے اصل مالک اور وارث ہیں۔ یہ دھرتی پاکستان کی بھی ماں تصور کی جاتی ہے۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ کوئی اپنی ماں کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھ سکے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والے اور سندھ کی تقسیم کی بات کرنے والے کبھی بھی اس ملک اور اس دھرتی سے سچے ہیں ہو سکتے۔ کراچی میں ایک بار پھر شورش اور اشتعال پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حکومت کو بروقت اس کا نوٹس لینا چاہئے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ پیپلزپارٹی صوبے کے مختلف شہروں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ، گیس اور پانی کی قلت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے لیکن وہ وفاقی حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی گزشتہ 9 سال سے اقتدار میں ہے۔ پوری کابینہ میں بھی اسی پارٹی کے وزراء بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود اس جماعت کو مظاہرے کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ جبکہ سندھ کے لوگ اپنے مطالبات منوانے کے لئے پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف مظاہرے کرتے رہے ہیں۔ اور ان مظاہرین کے خلاف حکومتی مشنری کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ آج گیس، بجلی اور پانی کی قلت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ لیکن خود اپنے دور حکومت میں پیپلزپارٹی کیا کرتی رہی؟ اس نے عوام کو کیا رلیف دیا؟ آج بھی سندھ میں اہم ترین معاملات صحت، تعلیم اور شہری سہولیات کے ہیں۔ یہ مسائل صوبائی سطح پر حل کرنے کے لئے سندھ حکومت کووفاق نے
نہیں روکا ہوا ہے۔لیکن پھر بھی صوبائی حکومت یہ مسائل حل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ وفاق کے ساتھ اگر کچھ معاملات ہیں ان کے لئے بھلے احتجاج کیا جائے لیکن جو معاملات اپنے دائرہ اختیار میں ہیں پہلے ان کو تو درست کیا جائے۔

Sindhi Press on PM Nawaz Sharif Sindh visit
Daily Nai Baat April 29/28

نیب زدہ افسران کو بچانے کے جتن ۔ سندھ نامہ ۔ سہیل سانگی



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
نیب زدہ افسران کو بچانے کے جتن 
سندھ نامہ سہیل سانگی روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ کے حکمران کرپشن کی کہانیوں کو مخالفین کی پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے اسے رد کرتے رہے ہیں۔ لیکن کرپشن کے ذریعے کمائی کے کچھ حصے کی نیب کو ’’رضاکارانہ‘‘ ادا کرنے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ کرپشن کرکے ’’ یوں رضاکارانہ ادائگی کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر عدالت کی برہمی کے بعد سندھ کے حکمرانوں نے ان افسران کو ملازمین ملازمت سے فارغ کرنے یا ہلکا ہاتھ رکھنے اور کارروائی نہ کرنے کے حوالے سے صوبائی محکمہ قانون اور سرکاری ماہرین قانون سے رائے طلب کی ہے۔

 حکومت کے اس فیصلے کی خبر آتے ہی ان افسران نے قانونی رائے اپنے حق میں دلانے کے لئے اپنا اثر رسوخ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے خط لکھ کر صوبائی محکمہ قانون کو آگاہ کیا ہے کہ نیب آرڈیننس مجریہ 1999 اٹھارویں ترمیم کے بعد ختم ہو چکا ہے۔ لہٰذا نیب کی 2010 کے بعد کی تمام کارروایاں غیر قانونی ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے خط میں یہ بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ایمرجنسی کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔ اور نیب قانون بھی ایمرجنسے کے دور میں نافذ کیا گیا تھا، لہٰذا یہ بھی غیر قانونی ہے۔

سندھ میں کرپشن کرنے والوں کو بچانے کی کوششیں خواہ کسی بھی سطح پر ہوں، کرپشن کی سہولتکاری کے دائرے میں آتی ہیں۔ حکومت اگر واقعی کرپشن ختم کرنے میں سنجیدہ ہے، اسے کرپشن میں ملوث افسران کو گرفت میں لانا ہوگا۔ لیکن یہاں معاملہ کچھ اور بن گیا ہے۔ عدالتی حکم کے باوجود کرپٹ افسران کو بچانے کے لئے راستے تلاش کئے جارہے ہیں۔ جہاں تک کرپشن میں ملوث افسران کے خلاف ثبوت کا تعلق ہے، رضاکارانہ طور پر رقومات کی واپسی کے بعد اور کسی ثبوت کی ضرورت ہے؟ کرپشن کریں اور جب پکڑے جائیں، تو یہ رقم رضاکارانہ طور واپس کردی جائے۔ کیا ایسا کرنے سے یہ کرپٹ افسران پاک و پویتر ہو جاتے ہیں؟ دراصل کرپشن نے ہی اس قوم کو تباہ و برباد کیا ہوا ہے۔ 

سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل کہتے ہیں کہ 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے بعد نیب آرڈیننس مجریہ 1999 خود بخود ختم ہو چکا ہے۔ لہٰذا 2010 کے بعد نیب کی تمام کارروایوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ کیا ایڈووکیٹ جنرل بہادر یہ بتا سکتے ہیں کہ اگر واقعی نیب آرڈیننس 2010 میں ختم ہو چکا ہے تو سپریم کورٹ نے نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف ریفرنس داخل کرنے کے لئے نیب کو کیوں کہا ہے؟ نیب قانون اگر غیر قانونی ہے تو اسے 7 سال تک زندہ کیوں رکھا گیا؟ سات سال تک منتظمین پر یہ منکشف کیوں نہیں ہو سکا کہ یہ ایک مردہ قانون ہے؟ جب حکومت سندھ کا نیب کے بارے میں پہلی مرتبہ یہ موقف سامنے آیا کہ نیب کی کارروایاں صوبے میں وفاق کی مداخلت ہے۔ سندھ کے منتخب ایوان میں بھی جب یہ معاملہ پیش ہوا تب بھی نیب کے قانون کو غیرقانونی قرار دینے کی بات نہیں کی گئی۔ یہاں پر ہمارا موضوع بحث یہ نہیں کہ نیب قانون قانونی ہے یا غیرقانونی، ہمارا موقف یہ ہے کہ نیب دشمنی میں کرپشن کرنے والوں کے لئے نرم گوشہ کیوں رکھا جارہا ہے۔
 
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کرپشن کا درخت سرپرستی کے بغیر پھلتا پھولتا نہیں۔ کرپشن کی کسی نہ کسی سطح پر سرپرستی کی جارہی ہے۔ کرپشن افسر شاہی کی معیشت بن چکی ہے۔ جس کے خاتمے کے لئے سنجیدہ کوششیں ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ سندھ میں نیب کے ذریعے کرپشن کی رقم ادا کرنے والے افسران قانونی رائے اپنے حق میں بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس پر سندھ حکومت کو کوئی تشویش نہیں۔ ہم سندھ کے حکمرانوں سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کرپشن کے لئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپناتے ہوئے کسی بھی کرپٹ افسر کے لئے رعایت یا راہ فرار تلاش نہ کی جائے۔ 

روزنامہ سندھ ایکسپریس دادو ضلع کے پہاڑی علاقے کاچھو میں درختوں کی بڑے پیمانے پر غیر قانونی کٹائی پر پانے اداریے میں لکھتا ہے کہ پولیس کی آشیرواد سے کاچھو میں درختوں کی کٹائی جاری ہے۔ لکڑی کے بیوپاریوں نے مختلف مقامی اور قیمتی درختوں کی کٹائی کے عمل کو تیز کردیا ہے۔ ہر ٹریکٹر ٹرالی پر متعلقہ تھانے کی پولیس پانچ سو روپے اور چوکی دو سو روپے وصول کر رہی ہے۔ کاچھو کے علاقے میں ویسے بھی درختوں کی تعدا بہت زیادہ نہیں۔ اگر اس کٹائی کو نہ روکا گیا تو اس علاقے میں کسی درخت کا نام و نشان ہی نہیں رہے گا۔ حکومت اور محکمہ جنگلات کو یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ درکٹ بڑا ہونے میں کئی سال لگتے ہیں جنہیں وہ چند منٹوں میں کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ محکمہ جنگلات کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف سرکاری جنگلات میں درختوں
 کی کٹائی کو روکے بلکہ نئے درخت بھی اگائے۔ لیکن ہمارے پس محکمہ جنگلات میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں۔ ننتیجے میں سندھ درختوں سے خالی ہو رہی ہے۔ درخت انسان کا رشتہ فطرت سے جوڑتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ جب بھی کوئی تعیمراتی کا م شروع ہوتا ہے تو بڑے پیمانے پردرخت کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ حال ہی میں سپر ہائی وسے کو چوڑا کرنے کے لئے حکومت سندھ کے اگائے ہوئے 5280 نیم کے درخت کاٹ دیئے گئے۔ سڑکوں کے کنارے پرانے درخت کاٹ دیئے جاتے ہیں لیکن نئے درخت نہیں لگائے جاتے۔ شجر کاری کے مہم کے دوران درختوں کی اہمیت کے بارے میں لوگوں کو بتانا ضروری ہے۔ حالیہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد درختوں اور جنگلات کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ ماحولیات کا تعلق اب روزمرہ کی زندگی، انسان کی بقا کے لئے ضروری قرار دیا جارہا ہے۔ محکمہ جنگلات کی کارکردگی افسوسناک ہے۔ کیونکہ یہ محکمہ اپنے فرائض کی ادائگی میں ناکام رہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کاچھو اور دیگر علاقوں میں درختوں کی کٹائی کو فوری طور پر روکے۔ ا س کے ساتھ ساتھ محکمہ جنگلات کی کارکردگی کا بھی بھرپور طریقے سے جائزہ لیا جائے، اور ان عوامل کی نشاندہی کی جائے جو سندھ کو درختوں سے خالی زمین بنارہے ہیں۔
 Sindh Nama, Sindhi Press, Daily Nai Baat, Sohail Sangi,  NAb, Corruption in Sindh


---------------------------------------------------------------------------

نیب نے پختونخوا اور سندھ کا بھی رخ کرلیا، پشاور بس منصوبے سمیت کئی محکموں اورتھر پارکر صاف پانی پروجیکٹ کی تحقیقات کا حکم

اسلام آباد(نمائندہ جنگ)نیب نے پختو نخوا اور سندھ کا بھی رخ کرلیا،پشاور بس منصوبے سمیت کئی محکموں اور تھرپارکر صاف پانی پروجیکٹ کی تحقیقات کا حکم دے دیا،چیئرمین نیب نے کہا کہ بس منصوبہ مقررہ وقت میں کیوں مکمل نہیں ہوا،نیب ٹیم نے شہبازشریف کی 5 جولائی کو طلبی کا نوٹس وصول کرادیا، فواد حسن فواد کو بھی آج طلب کرلیاجبکہ تھرپارکر، مٹھی اور چھاچھر و سندھ کے عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی میں مبینہ طور پر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من پسند کمپنی پاک اوسس کو مبینہ طورپر غیر معیاری 450 آراو پلانٹ لگانے کا ٹھیکا دینے اور پانچ ارب روپے کی خطیر رقم منصوبہ مکمل ہونے سے پہلے ادا کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے شکایت کی جانچ پڑتال کا حکم دیا ہے۔ قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے تحریک انصاف دور میں ٹرانس پشاور بس ریپڈ ٹرانسپو ر ٹ سسٹم کی تعمیر میں مبینہ بد عنوانی اور پراجیکٹ کےلئے مختص مبینہ طور پر 36.49 ارب  روپے کی رقم جوکہ بڑھ کر تقریباً 64 ارب روپے کی
خطیر رقم ہوچکی ہے مگر ابھی تک پراجیکٹ مکمل نہ ہونے کی شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی نیب خیبرپختونخوا کو شکایت کی جانچ پڑتال کا حکم دیا ہے۔ چیئرمین نیب نے ہدایت کی ہے کہ منصوبہ مقررہ وقت میں کیوں مکمل نہیں ہوا اور منصوبہ کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ سے مبینہ طور پر اخراجات بڑھنے کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ قومی سرمایہ کے جائز استعمال کو یقینی بنانے اور بد عنوانی کے خاتمے کے لئے قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔علاوہ ازیں قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے تھرپارکر، مٹھی اور چھاچھر و سندھ کے عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی میں مبینہ طور پر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من پسند کمپنی پاک اوسس کو مبینہ طورپر غیر معیاری 450 آراو پلانٹ لگانے کا ٹھیکہ دینے اور پانچ ارب روپے کی خطیر رقم منصوبہ مکمل ہونے سے پہلے ادا کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے شکایت کی جانچ پڑتال کا حکم دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کمپنی نے ابھی تک نہ تو 450 آراو پلانٹس لگائے ہیں اور لگائے گئے چند آر او پلانٹس مکمل طور پر فعال نہ ہونے اور ان کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر آر او پلانٹ بند ہونے کی شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ تھر کے عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے والی کمپنی کو قواعد و ضوابط کے برخلاف پوری رقم منصوبہ مکمل ہونے سےپہلے کیسے ادا کردی گئی اور اس سلسلہ میں سندھ کے متعلقہ سرکاری محکمہ منصوبہ کو مکمل کرانے میں کیوں ناکام رہا اور تھر کے غریب عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کی بجائے، بیشتر آر او پلانٹس کی بندش کے باوجود متعلقہ افسران کیوں خاموش اور اپنی سرکاری ذمہ داریاں ادا کرنے میں مبینہ طور پر کیوں ناکام رہے۔ چیئرمین نیب نے تھر میں آر او پلانٹس کا پانی ٹینکروں کے ذریعے فروخت کرنے کا بھی نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی ہے تاکہ مبینہ بد عنوانی اور نااہلی کے مرتکب ذمہ داران افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے۔دریں اثنا نیب ٹیم نے شہبازشریف کی 5 جولائی کو طلبی کا نوٹس ان کی رہائشگاہ پر وصول کرادیا جب کہ فواد حسن فواد کو بھی آج طلب کرلیا گیا۔نیب لاہور نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو صاف پانی کیس میں 5 جولائی کو طلب کیا ہے جب کہ اسی اسکینڈل میں راولپنڈی کے حلقہ این اے 59 سے چوہدری نثار کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) کے امیدوار قمر الاسلام کو بھی نیب نے گرفتار کیا ہے۔قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف کو پنجاب پاور کمپنی اسکینڈل میں 5 جولائی کو طلب کررکھا ہے جس کےلیے نیب ٹیم نے نوٹس وصول کرادیا ہے۔ذرائع کے مطابق نیب کی ٹیم شہبازشریف کی طلبی کا نوٹس لے کر لاہور میں ان کی رہائش گاہ پہنچی جہاں باہر ہی نوٹس وصول کرایا گیا۔ دوسری جانب نے نیب لاہور نے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم میں وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری اور موجودہ ڈی جی سول سروسز اکیڈمی فواد حسن فواد کو آج طلب کرلیا ہے۔
https://jang.com.pk/news/515115