Saturday, May 28, 2016

پاناما لیکس پاناما فلیکس بن گیا

 Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
May 27, 2016
سندھ نامہ   سہیل سانگی 
 ملک میں پاناما لیکس پاناما فلیکس بن گیا ہے کس کی تصویر اور بل بورڈ ہر جگہ نظر آرہے ہیں۔ یہ اوپر کے سیاست کھیل میں نہ عوام شریک ہے اور نہ اس سے پوچھا جارہا ہے۔ اس تمام شور میں عوام کے مسائل اور تکالیف میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اجتماعی خواہ انفرادی سطح پر ناانصافیاں بڑھ رہی ہیں۔ کیونکہ حکومت اور سیاسی جماعتیں بڑا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ 

ہر ہفتے کوئی ایک نیا واقعہ رونما ہو جاتا ہے ۔ نتیجے میں عوامی ایجنڈا پیچھے چلا جاتا ہے۔ اس ایجنڈا کے لئے نہ میڈ یاکے پاس اسپیس ہے اور نہ ہمارے حکمرانون کے پاس وقت۔ حسن کمال یہ ہے کہ وفاقی خواہ حکومت ان معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کو تیار نہیں۔

”سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے صوبے سندھ سے متعلق اعتراف“ کے عنوان سے روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ دہشتگردی کی کارروایوں کی وجہ سے گزشتہ پانچ سال کے دوران ملکی کو پان ارب روپے سے زیادہ مالیت کا نقصان ہوا ہے۔

تین سال کے دوران 67 کھرب ، 90 ارب سے زائد رقم ٹیکس آمدنی کے طور پر وصول ہوئی ہے۔ جس میں سے 56 فیصد سے زائد آمدنی سندھ سے ہوئی ہے۔ ان کے مطابق مالی سال 2012- 13 کے دوران 19 کھرب ، 46 ارب، 45 کروڑ روپے کا ٹیکس وصول کیا گیا جس میں سے سندھ سے 11 کھرب ، ایک ارب، 45 کروڑ روپے وصول ہوئے۔

 اگرچہ سندھ وسائل سے مالا مال ہے۔ لیکن یہ وسائل بھی سندھ کی قسمت تبدیل کردیا ۔ دوسرے صوبوں کے مقابلہ میں سندھ کی آمدنی بھی زیادہ ہے، اور ٹیکس بھی زیادہ دیتا ہے۔ پھر بھی سندھ کے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سندھ میں تیل اور گیس کی پیداوار زیادہ دیتا ہے ۔ اس کے باوجود اگر سندھ کے انفرا اسٹرکچر ، یا صحت اور تعلیم یا روزگار کی صورتحال کو دیکھا جائے لگتا ہے کہ سندھ کے لوگ وسائل کے ہوتے ہوئے بھی لاوارث اور یتیم لگتے ہیں ۔ 

یہاں پر غربت لوگوں کو نگل رہی ہے۔ لوگ کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ۔ یہاں پر تعلیم آکسیجن پر سانس لے رہی ہے۔ محکمہ صحت خود بیمار ہے، انفرا اسٹرکچر تباہ ہے۔ ترقی ہوتی ہے تو صرف کاغذوں تک محدود ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ صوبے میں بہتر حکمرانی کا قحط ہے۔ ایسے میں صوبہ خواہ کتنے ہی وسائل میں شاہوکار ہو، اگر ان وسائل کی آمدن صحیح طور پر استعمال نہیں ہوگی، توصوبے کے لوگوں کی حالت بدل نہیں سکے گی۔

وفاقی حکومت اس طرح کے اعترافات اس سے قبل بھی کرتی رہی ہے کہ سندھ صوبہ ملک کو کما کر دے رہا ہے۔ لیکن صرف یہ اعتراف کافی نہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو مزید خود مختاری ملنی چہائے تھی۔ لیکن تاحال یہ خود مختاری ایک سوال ایک خواب بنی ہوئی ہے۔ حالت یہ ہے کہ جب بھی سندھ اور بلوچستان وفاق سے اپنا حق مانگتے ہیں تو وفاق کا رویہ نامناسب ہو جاتا ہے۔ اس نامناسب رویے کی وجہ سے احساس محرومی بڑھتا ہے۔ حق اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہر صوبے کے وسائل اور آمدن کا فائدہ اسی صوبے کو ملنا چاہئے۔

 دوسرے یہ کہ وفاق کو چاہئے کہ وہ تمام صوبوں کو ایک ہی نظر سے دیکھے۔ تب کہیں جا کر صوبوں کا احساس محرومی ختم ہوگا۔ یہ امر اہم ہے کہ صوبوں کی خوشحالی اور مضبوطی ہی ملک کی سلامتی اور مضبوطی کا سبب بنے گی۔ 

” روزنامہ عبرت “ نوشہرو فیروز میں دو نوجوانوں کی سر عام توہین کرنے کے واقعے کہ مذمت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ چند روز قبل ایک ویڈیو کلپ منظر پر آیا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ دو بے بس نوجوان منہ میں جوتا لیکر ایک مقامی وڈیرے اور اس کے ڈرائیور سے معافی مانگ رہے ہیں۔ ان دونوں نوجوانوں کی گدھا گاڑی وڈیرے محمد بخش مبیجو کی کار سے ٹکرا نے کے واقع کا فیصلہ کرانے کے لء جرگہ منعقد ہوا۔ فیصلہ کے مطابق نوجوانوں نے جوتا منہ میں پکڑ کر سر عام وڈیرے سے معافی مانگی۔ 

واقعہ کو دبانے کے لئے ایک اور جرہ ہوا، جہاں وڈیے نے دھمکی کے انداز میں کہا کہ بھلائی اسی میں ہے کہ معاملہ یہیں پر ختم کردیا جائے۔ جس پر ودیرے قبول میمن نے متاثرہ بھائیوں سے پوچھے بغیر کہا کہ ’ہم نے معاف کیا۔ باقی آپ لوگ جانیں اور پولیس جانے“۔ 

سندھ میں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رھتے ہیں اور ان کا انجام بھی اسی طرح سے ہوتا ہے۔ آخر مظلوم کب تک ایک طاقتور فریق سے جھگڑے میں رہ سکتا ہے؟ جبکہ اس کے ساتھی حکومت بھی ہوں جن کے کہے بغیر قانون تھوڑا سا بھی حرکت میں نہیں آتا۔ وہاں یہ دو مظلوم بھائی اور ان کا معزز قبول میم کہاں اتنا دباﺅ برداشت کر سکتے ہیں ۔ 

ہونا یہ چاہئے تھا کہ حکرمان مظلوم بھایئیوں کی طرف سے فریق بنتی۔ اور ان مظلوموں کو انصاف دلاتی۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے وڈیروں اور ظالموں کے لئے بھی ایک مثال قائم ہو جاتا اور کوئی بھی اس طرح کی جرئت نہیں کر سکتا۔

 وزیراعلیٰ سندھ سے عوام کو کم امید ہے ۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی لیڈر بینظیر بھٹو کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری یقیننا ان کی مدد کو آئے گا۔ ہم مہذب ہونے کی خواہ کتنے دعوے کریں ۔ لیکن عملا یہ سماج پتھر کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔
 واضح رہے کہ اس واقعہ کا نہ وفاقی حکومت نے نوتس لیا اور نہ ہی عدلیہ نے۔ 

Wednesday, May 25, 2016

Tuesday, May 24, 2016

Shaikh Abdul Majeed Sindhi




















http://www.dawn.com/news/1201924 
https://en.wikipedia.org/wiki/Shaikh_Abdul_Majeed_Sindhi 

Saturday, May 21, 2016

سندھ کی زمین مال برائے فروخت نہیں



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
 سندھ کی زمین مال برائے فروخت نہیں
 سندھ نامہ   سہیل سانگی 
 روزنامہ نئی بات

 پاناما لیکس کا بخار پورے ملک بشمول سرکاری مشنری اور میڈیا کے اتنا چڑھا ہوا ہے کہ اس سے ہٹ کر کوئی بات ہی نہیں ہو رہی۔ اخبارات خبروں خواہ مضامین، کالمز، اور اداریوں کے حوالے سے بھی اسی موضوع پر بھرے ہوئے ہیں۔ اس موضوع سے ہٹ کر شاید ہی کسی موضوع پر اداریے یا کالم لکھے جا رہے ہوں، یہ صورتحال صرف سندھی اخبارات کی نہیں ملک بھر کے اخبارات کی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام کے باقی مسائل و مصائب تیسری چوتھی ترجیح پر جا کھڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ مالی سال کے اختتام کے دن ہیں۔ اور نئے بجٹ کی تیاری ہو رہی ہے، اس حولاے سے شاید ہی کوئی چیز پڑھنے کو ملتی ہے۔ باقی سرکاری محکموں میں جو کام ہو رہا ہے یا عوام کے ماسئک کو کس طرح سے نظرانداز کیا جا رہا ہے وہ ایسی داستان ہے جس کو الگ سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ 

ایسے میں روز نامہ کاوش نے رونگٹے کھڑے کرنے والی دو خبریں شایع کی ہیں۔ ایک خبر یہ ہے کہ س صحرائے تھر کے چھاچھرو کے علاقے میں ایک نوجوان دلاور پیاس کی وجہ سے فوت ہو گیا جبکہ اس کے ساتھی اکرم سنگراسی کو بے ہوشی کی حالت میں دیہاتیوں نے ہسپتال پہنچایا۔ یہ دونوں نوجوان چھاچھرو سے پیدل اپنے گاﺅں جا رہے تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔ بھوتیو گاﺅں کے رہائشی یہ دونوں بچے کراچی میں مزدوری کرتے تھے۔ حکومت سندھ کے وہ نعرے اور دعوے کہاں چلے گئے لھ بھگ دس ارب روپے کی مالیت کے کہ آر او پلانٹس لگا کر سندھ میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل کر دیا گیا ہے؟ 

 نوشہروفیروز ضلع کے قصبہ پھل میں گدھا گاڑی اور کار کے درمیان ٹکر کے بارے میں جرگہ کرایا گیا۔ جس میں دو بھائیوں کو جوتا منہ میں پکڑ کر مجمعے میں معافی طلب کی گئی۔ پھل قصبہ میں تذلیل کے اس واقعہ کہ ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری ہونے کے بعد آئی جی سندھ پولیس نے نوٹس لیا اور تذلیل کرنے والے وڈیرے محمدبخش مبیجو کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ واقعہ 15 دسمبر 20015 کو ہوا تھا۔ آئی جی ہدایت پر ملزم وڈیرے کو گرفتار کر لای گیا ہے لیکن جب گدھا گاڑی چلانے والے دونوں بھائی تھانہ پنچے تو پلویس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ تعجب ہے کہ اس معاملے پر وزیراعلیٰ سندھ، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرادری ابھی تک خاوموش ہیں انہوں نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ اور عدلیہ نے بھی سو موٹو نوٹس نہیں لیا۔ 

 سندھ شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ اوپر سے لوڈ شیڈنگ نے عوام کی زندگی عذاب کر رکھی ہے۔ روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ گرمی بڑھنے کے سائنسی یا فطری اسباب اپنی جگہ پر، لیکن اس کی وجہ سے جو عذاب بازل ہو رہا ہے اس میں انسانی ہاتھ بھی شامل ہے۔ ایک طرف موسم نامہربان ہے دوسری طرف شدید لوڈ شیڈنگ ہے۔ اور ملک توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے بجلی کے بحران کے خاتمے کے لئے اب تک جو وعدے اور اعلان کئے ہیں ان کی چوتھائی بربار بھی سنجیدگی اختیار کرتے تو آج عوام اس مصیبت میں نہ ہوتے۔ 

 بجلی کے بحران کی وجہ سے زندگی کی رونقیں ختم ہو گئی ہیں بلکہ بعض مقامات پر زندگی داءپر لگ گئی ہے اور اموات کی بھی اطلاعات آئی ہیں۔ حکمرانوں کو اس شدید گرمی کا اس وجہ سے بھی احساس نہیں کہ وہ ٹھنڈے کمروں سے باہر نہیں نکلتے۔ اگر لاچاری میں انہیں کہیں جانا بھی ہوتا ہے تو وہ ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں سے پاﺅں باہر نہیں نکالتے۔ ایسے میں عام لوگوں کی حالت کا انہیں ادراک کیسے ہوگا؟ انہیں نہیں معلوم کہ پہلے جن علاقوں سے ان کا عملہ نچلی سطح سے لیکر اوپر تک بھتہ وصول کرتا تھا اب کرپشن کے خلاف کارروائی کے خوف کے مارے یا اس بہانے خود کو بچانے کے چکر میں بجلی کپمنیوں کا عملہ کس بے حیائی پر اتر آیا ہے کہ ٹرانسفارمر ہی اتار کر لے جاتا ہے۔ وہاں پر تب تک بجلی بحال نہیں کی جاتی جب تک بھاری رشوت ادا نہیں کی جاتی۔ ایسا کر کے وہ رشوت بھی لے لیتے ہیں اور اس کے ساتھ ثبوت بھی مٹا دیتے ہیں۔ 

 اگر حکمران اور محکمہ بجلی و پانی اس طریقہ واردات سے ناواقف ہیں تو ہم اس اداریے کے ذریعے انہیں ّگاہ کرتے ہیں کہ یہ پورا گھن چکر کس طرح سے چل رہا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وزارت بجلی و پانی متعلقہ عملے کو ہدایت کرے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اس شدید گرمی میں عوام کی زندگی کو عذاب نہ بنایا جائے۔ 

 روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ روینیو بورڈ نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں بتایا کہ کراچی کی 60 ہزار ایکڑ زمین پر صوبائی و وفاقی اداروں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ چھ ہزار ایکڑ زمین پر نجی لوگوں کا قبضہ ہے۔ یہ اعدا و شمار زیادہ ہیں جن کا ذکر کرنا یا رپورٹ کرنا مشکل ہے یا پھر اس بحث کو چھیڑنا شعوری طور پر صحیح نہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کراچی کی نو لاکھ ایکڑ سے زائد کل زمین میں سے ساٹھ لاکھ ایکڑ زمین پر صوبائی یا وفاقی اداروں کا ناجائز قبضہ ہے۔ ہر ملک میں زمینوں کے سرکاری خواہ نجی حوالے سے ملکیت کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ اگر کہیں غیر ملکیوں کو زمین دی جاتی ہے تو ان کو حق ملکیت نہیں دیا جاتا۔ انگریزوں کے دور سے یہ چلا آرہا ہے کہ اگر کسی کو زمین دی جاتی تھی تو یہ زمین کسی خاص مقصد کے لئے اور ایک خاص یا محدود مدت کے لئے دی جاتی تھی۔ وقت گزرنے کے بعد حومت یہ زمین اپنے قبضے میں لے لیتی تھی۔ 

سندھ میں ایک عرصے سے زمینیں حکومت خواہ منتخب ہو یا غیر منتخب ان کے لئے یہ مال غنیمت ہیں۔ حکومت ان زمینوں کی عملی طور پر اور اپنے حق ملکیت کے طور پر تحفظ نہیں کرتی۔ اور نہ ہی زمین کی تقسیم کے لئے کوئی موثر پالیسی بنائی گئی ہے۔
ایسے میں حکومت اپنے صوابدیدی اختیارات پر قیمتی زمین بھی اونے پونے داموں فروخت کر دیتی ہے۔ ایک طرف حکومت کو زمین کی صحیح قیمت نہیں ملتی دوسری
 طرف بلڈرز اور دیگر ادارے اپنی مرضی سے تعمیرات کرتے ہیں ۔ سندھ حکومت کو اپنی ملکیت اور جائداد کے بارے میں مالک کے طور پر سوچنا پڑے گا۔ یہ زمین یہاں کے لوگوں کی ہے جو انہی کی سہولیات کے لئے ہے۔ یہ کوئی مال برائے فروخت  نہیں

Nai Baat May 21, 2016 

Saturday, May 7, 2016

سندھ کے” پڑھے لکھے“ منتخب نمائندوں کے نام



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
 سندھ کے” پڑھے لکھے“ منتخب نمائندوں کے نام

سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
 پر سندھ کے تمام بڑے اخبارات نے اداریے لکھے ہیں۔ اور حکومت کی توجہ اس حساس مسئلے کی جانب منبذول کرائی ہے۔ 

روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ وفاقی حکومت نے نئے مالی سال کے بجیٹ میں مالی وسائل کی تقسیم کے لئے نیا مالیاتی ایوارڈ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے بعد مالی وسائل کی تقسیم پرانے ایوارڈ کے تحت ہوگی۔ قومی مالیاتی کمیشن کے سندھ سے غیر سرکاری میمبر سنیٹر سلیم مانڈی والا نے چاروں صوبوں کے وزراءخزانہ کو خط لکھ کر کمیشن کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کرنے کو کہا ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن نے مختلف معاملات پرچار کمیٹیاں تشکیل دی تھی، ان کمیٹیوں نے ابھی تک اپنی سفارشات پیش نہیں کی ہیں۔ لہٰذا نیا مالیاتی ایوارڈ نہیں دیا گیا ہے۔ 

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ مردم شماری ملتوی ہونے کے باوجود اخراجات کی مد میں سندھ کے حصے سے 48 کروڑ روپے کاٹ دیئے گئے ہیں۔ جمہوری دور جمہور کی خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن یہ تب جب آئین اور قانون پر عمل ہو۔ پورے ملک کے عوام کے ساتھ انصاف ہو، جمہوری دور میں بھی وفاق کا صوبوں کے ساتھ ناروا سلوک رہتا ہے۔ اس رویے کی وجہ سے صوبوں میں احساس محرومی بڑھ جاتاہے۔ سندھ اور بلوچستان وسائل سے مالا مال ہیں لیکن یہ دونوں صوبے وفاق کی نظر کرم سے محروم ہیں۔ اگرچہ آئین یہ کہتا ہے کہ جو صوبے وسائل میں خود کفیل ہیں یا اپنے وسائل کی وجہ سے ملکی معیشت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں ان صوبوں کے وسائل پر پہلا حق انہی صوبوں کا ہے۔ لیکن ہوتا یہ رہا ہے کہ چھوٹے صوبے مرکز کے سامنے سوالی بنے رہتے ہیں۔ 

اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو کاغذوں پر خود مختاری دی گئی ہے لیکن عملی طور پر صوبے خود مختار نہیں ہو سکے ہیں ۔ نئے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے میں باقی چند ہفتے باقی ہیں۔ وفاقی حکومت مختلف بہانوں کی آڑ لیکر نیا مالیاتی ایوارڈ دینے سے انکرا کر رہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ آبادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو صوبے تیل اور گیس کی زیادہ پیداوار دیتے ہیں معدنی وسائل سے مالامال ہیں ان کو جائز حسہ اور حق ملنا چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نئے مالیاتی ایوارڈ کا فیصلہ کرے۔

 روزنامہ سندھ ایکسپریس ”پڑھے لکھے منتخب نمائندوں کے نام“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سنیٹ کی انسانی حقوق سے متعلق کمیٹی کے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے سندھ حکومت کے نمائندوں نے کہا ہے کہ تھر میں بچوں کی اموات کی وجہ کم عمری میں شادیاں اور جہالت ہے۔ چونکہ کم عمری میں شادی کی وجہ سے وقت سے پہلے بچے کا جنم ہوتا ہےان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت تھر میں تین سو مزید ڈاکٹر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور مزید فنڈ بھی جاری کئے جا رہے ہیں۔ تھر میں چار ارب دس کروڑ روپے کی گندم تقسیم کی گئی ہے۔ جو کہ تھر کی تیرہ لاکھ آبادی کے حساب سے فی آدمی ڈھائی من ہوتی ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کے مطابق ضلع کے ہر رہائشی کو ڈھائی من گندم دی گئی ہے اور پانی کی اسکیموں پر پانچ ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں تو پھر لوگ بھوک کیوں مر رہے ہیں۔ کمیٹی نے تھر میں بچوں کی اموات کے لئے سندھ حکومت کو ذمہ دار ٹہراتے ہوئے اس رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔ 

 جو لوگ 2010 کے سیلاب میں اپنی جاگیریں بچانے کے لئے حفاظتی بند توڑ کر سندھ بھر کے عوام کو ڈبو سکتے ہیں، ان سے اسی طرح کے بیان کی توقع کی جاسکتی ہے۔ تھر میں لوگ یقیننا جہالت کے باعث بھوکے مر رہے ہیں۔ لیکن یہ جہالت تھر کے بے یار و مددگار عوام کی نہیں بلکہ حکمران طبقے کی ہے۔ جو الیکشن کے وقت مینڈٰٹ لینے کے لئے ان کے پاس جاتے ہیں اور بعد میں یا تو انہیں سیلاب میں ڈبو دیتے ہیں یا انہیں جاہل قرار دیتے ہیں ۔

تھر اب ایک ایسی دھرتی بن گئی ہے جہاں اب زندگی کے بجائے موت پرورش پا رہی ہے۔ اس انسانی المیے کو روکنے کے لئے ” پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ“ حکمران کچھ کرنے کے لئے آادہ نہیں۔ اگرچہ تھر کی تقدیر بدلنے کے لئے کئی اعلانات کئے گئے بعض منصوبے بھی شروع کئے گئے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں تھر میں کوئی بناید تبدیلی نہ لاسکی اور نہ ہی بنیادی اور پائدار سہولت فراہم کر سکی۔ تعجب کی ابت ہے کہ حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے تھر میں بچوں کی اموات کو سندھ حکومت اپنے خالف سازش قرار دے رہی ہے۔ 

سندھ کے ان منتخب نمائندوں سے گزارش ہے کہ اگر وہ ان قحط زدہ اور مصیبت کے مارے لوگوں کو کچھ دے نہیں سکتے تو کم از کم ان کے زخموں پر نمک پاشی تو نہ کریں۔

http://www.naibaat.com.pk/ePaper/lahore/07-05-2016/details.aspx?id=p13_02.jpg