Monday, August 20, 2018

نگران سیٹ میں ترقیاتی منصوبے



سندھ نامہ سہیل سانگی

میڈیا میں سندھ کی نگران حکومت کے بعض اقدامات رپورٹ ہونے کے بعد سیاسی، انتظامی اور سماجی حلقے اس کی کارکردگی اور اختیارات سے تجاوز کرنے سے متعلق سوالات اٹھار ہے ہیں۔ روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ نگران حکومت نے صوبے میں بڑے پیمانے پر تقرر اور تبادلے کے بعد اب مختلف محکموں میں ترقیاتی منصبوں پر بھی عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز، سندھ فیز ٹو کے تحت واٹر سپلائی، اورنکاسی آب کے سولر منصوبے شروع کر دیئے ہیں۔ پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ و دیہی ترقی کے وزیر سید مشتاق شاہ کے زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں ضلع ہیڈکوارٹرز میں ایک ارب پینتالیس کروڑ روپے کی لاگت سے 23 واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز قائم کی جائیں گی۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ پینے کے پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے لئے 66کروڑ 61 لاکھ روپے کی لاگت سے یہ ترقیاتی کام شروع کی جائیں گی۔ وزارت قانون کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نگران سیٹ کے وزراء کو اس طرح کے منصوبے شروع کرنے کا اختیار نہیں۔ لیکن نگران وزیراعلیٰ نے ان منصوبوں کی منظوری دیتے ہوئے ان پر کام شروع کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ 
عسکری پارک کے واقعہ کی خبر میڈیا اور سماجی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے ۔عسکری پارک کراچی میں جھولا گرنے کے واقعہ میں پارک انتظامیہ نے تکنیکی نقص تسلیم کرلیا ۔ تاہم جھولا گرنے کے واقع کے بعد سندھ حکومت نے شہر میں تین دن کے لئے جھولے بند کر دیئے تھے۔ لیکن تاحال شہر میں موجود پارکوں میں لگائے گئے جھولوں کا معائنہ نہیں کیا جاسکا۔یاد رہے کہ ابھی تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی چھٹیوں کے آخری ہفتے ہیں۔ یہ سوال کیا جارہا ہے کہ یہ مکمل طور پر ایک انتظامی معاملہ تھا، جو اس کے ہی دور میں رونما ہوا ہے۔ لیکن سندھ کی نگران حکومت کی ترجیح نہیں بنا۔
نگرانوں کے حالیہ فیصلے کے بعد سندھ میں کنٹریکٹ پر تعینات تعلیمی بورڈز کے چیئرمینز کے پہلی بار تبادلوں سے اب سندھ کے جامعات کے وائس چانسلرز کے تبادلوں کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے۔اور محکمہ بورڈز و جامعات کسی بھی وائس چانسلر کا پسند نا پسند یا خراب کارکردگی پر تبادلہ کرسکے گا۔ قواعد کے تحت تعلیمی بورڈز کے چیئرمین کا تبادلہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ چیئرمین بورڈ ایک مدتی اسامی ہوتی ہے اور اس پر تقرر کنٹریکٹ کی بنیاد پر مخصوص بورڈ میں کیا جاتا ہے، جبکہ اہلیت بھی مختلف ہوتی ہے ٹیکنکل بورڈ کے لئے فنی تعلیم کا تجربہ ضروری ہے جبکہ عام بورڈ کے لئے تجربہ اور قابلیت الگ ہوتی ہے۔تعلیمی ماہرین تعلیمی بورڈز کے چیئرمین کے تبادلوں کو افسوسناک اور نگراں حکومت کی ناتجربہ کاری قرار دے رہے ہیں۔ سوال کیا جارہا ہے کہ جب چیئرمین بورڈز کا انتخابات میں کوئی کردار نہیں ہوتا تو ان کے تبادلوں کی ضرورت ہی پیش کیوں آئی؟۔ ادھر تعلیمی بورڈز کے چیئرمین کے پہلی بار تبادلوں سے میٹرک نتائج بھی متاثر ہونا شروع ہوگئے ہیں ۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ کے روڈ مو ت کا سامان بنے ہوئے ہیں۔ بھٹ شاہ کے قریب باراتیوں سے بھری سوزوکی حادثے کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ اس سانحے میں 16 افراد جاں بحق ہو گئے۔ گزشتہ دنوں نوابشاہ کے قریب ایک مسافر وین پر کوچ چڑھ گئی جس کے نتیجے میں 12 انسانی جانیں ضایع ہو گئیں۔ گزشتہ حکومت ترقی کے بڑے دعوے کرتی رہی لیکن روڈ حادثوں کے حوالے سے کوئی موثر پالیسی اور اقدامات نہ کرسکی۔ اکثر حادثے سنگل روڈ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔سیہون روڈ کئی برسوں سے ڈبل روڈ نہیں ہو سکا ہے۔ یہ روڈ اب تک سینکڑوں انسانی جانیں نگل چکا ہے۔ملک کے ہر مسئلے کی جڑ قانون کی حکمرانی کی عدم موجودگی ہے۔ روڈ حادثات بھی متعلقہ محکموں کی نااہلی کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ اس میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا ایک بڑی وجہ ہے۔ ٹریفک پولیس اہلکار کا بنیادی فرض یہ ہے کہو ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کرائیں، لیکن ہوتا یہ ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں سے پیسے لیکر انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نتیجۃ ٹریفک قوانین پر عمل نہیں ہوتا۔ اور حادثات روز کا معمول بن جاتے ہیں۔ ہمارے پاس ابھی تک ازکار رفتہ ٹریفک کا نظام چل رہا ہے۔ دنیا میں ٹریفک قوانین اور نظام جدید دور کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں سفر کو محفوظ اور آرام دہ بنایا جا چکا ہے۔ لیکن ہمارے پاس جب لوگ سفر پر نکلتے ہیں تو دائیں مانگتے ہیں کہ خیریت سے منزل مقصود تک پہنچیں۔ وہ خوف اور غیر یقینی کیفیت میں سفر کرتے ہیں۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جن سڑکوں سے حکمران گزرتے ہیں وہ کتنی اچھی اور محفوظ بنائی گئی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حادثات کے سدباب کے لئے تحقیق کے بعد ایک محفوظ اور اچھا ٹریفک نظام متعارف کرایا جائے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ 
تین اور خبریں بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ اخبارات میں یہ خبر بھی زیر بحث ہے کہ سابق اسپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی اور میئر کراچی وسیم اختر کے خلاف وسیم اختر پر آمدن سے زائد اثاثے رکھنے اور سراج درانی پر غیر قانونی بھرتیاں کرنے ایم پی ایز ہوسٹل اور سندھ اسمبلی کی بلڈنگ کی تعمیرات میں خرد برد کرنے کے الزامات پر نیب نے تحقیقات شروع کردی ہے۔ ان میں سے ایک کا تعلق پیپلزپارٹی سے اور دوسرے کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔ الزام ہے کہ میئر کراچی وسیم اختر اور کے کے ایم سی کے افسران کے خلاف 36 ارب روپے غیر شفاف طریقے سے خرچ کئے۔ 
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی تجارت و ٹیکسٹائل کے سامنے یہ بات آئی ہے کہ نیشنل انشورنس کارپوریشن لمٹیڈ سی سے سندھ ریونیو بورڈ کو ایک ارب روپے ٹرانسفر کیے گئے تاکہ سندھ ریونیو بورڈ اپنا مالی خسارہ پورا کر سکے ۔ اس سے سندھ ریونیو بورڈ نے اپنے تمام اہداف پورے کر لئے اور چھ ماہ کی تنخواہیں بھی وصول کر لیں۔ وزارت تجارت کے ایڈیشنل سیکرٹری نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ سندھ ریونیو بورڈ سے رابطے میں ہیں جلد ہی زیادہ سے زیادہ رقم وصول کر لی جائے گی۔ 
کراچی کنسٹرکٹرز ایسوسی ایشن نے انکشاف کیا ہے کہ چیرمین پاکستان انجینئرنگ کونسل نے 57چائینز کمپنی کو غیر قانونی طور سے لائسنس جاری کرکے قوانین کی دھجیاں اُڑھانے اور دستور کی خلاف ورزی کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ایسوسی ایشن کے چیرمین ایس ایم نعیم کاظمی کی قیادت میں وفد نے پاکستان انجینئرنگ کونسل کے وائس چیرمین سے ملاقات کی ہے ۔چیرمین پاکستان انجینئرنگ کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ لائسنس کی تجدید کا عمل شروع کیا جائے۔ 

تھر میں پھر قحط نے سر اٹھا لیا



تھر میں پھر قحط نے سر اٹھا لیا

سندھ نامہ ۔۔۔ سہیل سانگی 

حکومت سازی ، نئی صورتحال میں بدلتی ہوئی صف بندی ، نئی حکومتوں سے عوام کی وابستہ امیدیں اخبارات کا زیادہ ترموضوع رہے ہیں۔ تاہم سندھ کے اخبارات نے بعض چبھتے ہوئے مسائل جو سلاہا سال سے نظر انداز ہوتے رہے ہیں ان کی طرف حکومت کی توجہ دلائی ہے ۔ روزنامہ کاوش لکھتا ہے سندھ کے صحرائے تھر میں ایک مرتبہ پھر قحط کے حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ ضلع انتظامیہ نے وقت پر بارشیں نہ ہونے کے بعد سینئر بورڈ آف روینیو اور دیگر بالا حکام کو خط لکھ دیا ہے کہ ضلع کو قحط زدہ قرار دے کر امدادی کارروائیاں شروع کی جائیں۔ تھرپارکر ضلع کے چار تحصیلوں میں مون سون کی بارشیں تاحال نہیں ہوئی ہیں۔ ۔ تھر کی معیشت اور روزگار کا انحصار صرف مون سون کی بارشوں پر ہے۔ یہاں لوگوں کے لئے نہ روزگار ہے اور نہ مال مویشیوں کے لئے چارہ موجود ہے ۔ اس صورتحال کے پیش نظر ڈپٹی کمشنر تھرپارکر نے تحصیلداروں اور اسسٹنٹ کمشنرز سے صحرائی علاقہ کا سروے کرانے کے بعد ضلع کو قحط زدہ قرار دینے کی رپورٹ تیار کر کے سندھ کے بالا حکام کو بھیج دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمی بارسیں نہ ہونے کی وجہ سے یہاں نہ فصل ہوسکے گی اور نہ گھاس اور مویشیوں کے لئے چارہ۔ لہٰذا صحرائی علاقے میں بسنے والی آبادی اور ان کے مویشی بھوک کی صورتحال سے دوچار ہو جائیں گے۔ دوسری جانب غذائیت کی کمی اور اس سے پیدا ہونے والے امراض میں کئی بچے مبتلا ہیں، ضلع میں نچلی سطح پر صحت کی سہولیات کا نظام بہتر نہ ہونے کی وجہ سے ضلع ہیڈکوارٹر کا واحد ہسپتال مٹھی ہے جہاں تک پہنچتے پہنچتے بچے دم توڑ دیتے ہیں یا پھر اس حالت میں ہوتے ہیں کہ ان کا علاج ناممکن ہو جاتا ہے۔ رواں ماہ کے دوران بچوں کی فوتگی کی تعداد 28 ہو گئی ہے۔ حکومت صرف ضلع ہیڈکوارٹر کی ہسپاتل کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اصل مسئلہ غربت اور غذائیت کی کمی ہے اس پر موثر انداز میں عمل نہیں کر رہی۔ 

روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ گزشتہ 24 سال سے سندھ کے شہری خواہ دور دراز دیہی علاقوں میں کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کام کر رہی ہیں۔ گزشتہ دس سال سے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی ذمہ داری بھی ان خواتین ورکرز کو دی گئی ہے۔ یہ خواتین ہیلتھ ورکرز گرمی ہو یا سردی، بارش ہو یا آندھی، یا گھر میں بیماری ہو یا فوتگی اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔ اس کام کے دوران انہیں متعدد چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ صحت کی بھلائی جیسا اہم کام سرانجام دینے والی ان خواتین کو مستقل نہیں کیا گیا ہے۔ چند سال قبل ان ورکرز نے کراچی میں ا بھرپورحتجاج بھی کیا تھا۔ جس پر حکومت وقت نے لاٹھیاں برسائیں اور گرفتاریاں بھی کی۔ اس احتجاج کے بعد حکومت سندھ نے ہیلتھ ورکرز کو مستقل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ صحت اور تعلیم کو اولین ترجیح قرار دینے والی حکومت تا حال ان ہزاروں خواتین ملازمین کی ملازمت کو مستقل نہیں کر سکی ہے۔ یہ امر ناقابل فہم ہے کہ بچوں کو اپاہج ہونے سے بچانے اور بنیادی صحت کی سہولیات میں مدد دینے والی ان صحت کارکنان کی جانب حکومت کا یہ رویہ کیوں ہے؟ سونے پر سہاگہ یہ کہ ان ورکرز کو ڈیوٹی کے لئے مطلوب سہولیتا بھی نہیں دی جاتی ہیں۔ ان ورکرز نے دہشتگردی کے بڑھتے رجحان جس میں بعض ورکرز شہید یا زخمی ہوئی، اس کے باوجود انہوں نے اپنے فرائض نبھانے میں کوئی عذر نہیں کیا۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ حالیہ انتخابات کے دوران بھی لیڈی ہیلتھ ورکرز سے الیکشن ڈیوٹی لگائی گئی۔ خیرپور ناتھن شاہ میں یہ ورکرز گزشتہ 46 روز سے علامتی بھوک ہڑتال پر ہیں لیکن اس کا نہ نگرانوں نے اور نہ ہی عدلیہ نے نوٹس لیا۔ 
شکارپور ضلع کے بعض علاقے جہاں پولیس اور دیگر سرکاری اہلکار بکتر بند گاڑی کے بغیر نہیں جا سکتے ایسے علاقوں میں بھی ان صحت کارکنوں نے اپنا کا جاری رکھا ہوا ہے۔ 
سندھ میں چھوٹی صنعتوں کے قیام میں مدد اور سہولت دینے کے لئے صوبائی محکمہ صنعت کے تحت قائم سندھ سمال انڈسٹریز کارپوریشن کے ملازمین کو چار ماہ سے تنخواہ کی ادائیگی نہیں کی جاسکی ہے۔ کروڑہا روپے کے پلاٹ میں کرپشن اور اضافی ملازمین کی بھرتی کے باعث ادارے کو بند کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ ادارے کو اخراجات کم کرنے اور بقایاجات کی وصولی تیز کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ کارپوریشن میں 880 ملازمین کام کر رہے ہیں روف صدیقی کے وزارت کے دوران بعض اضافی اور غیر ضروری بھرتیاں کی گئی جس کی وجہ سے کارپوریشن بحران کا شکار ہے۔بحران کی وجہ سے پینشن اور تنخواہیں بروقت ادا نہیں کی جارہی ہیں۔ 2002 سے 2010 تک بغیر اشتہار کے غیرقانونی بھرتیاں کی گئیں۔ محکمہ صنعت نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر سمری محکمہ خزانہ کو بھیجی تھی، وزارت خزانہ نے یہ سمری مسترد کردی ہے۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس سندھ کی نئی حکومت عوام کا حق ادا کرے گی؟ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی تیسری مرتبہ اقتدار میں آئی ہے جبکہ سید مراد علی شاہ دوسری مرتبہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔ دوبارہ منصب ملنے کے بعد اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے گزشتہ دور حکومت کی کارکردگی کے مختصر حوالے دیئے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئی حکومت میں عوام کی توقعات پر پورا اترنے کا عزم بھی کیا۔ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دو دور حکومت کیسے رہے،؟ سندھ کے مسائل کو کتنا حل کیا گیا؟ یہ سوالات تاحال باقی ہیں۔ تمام تر تنقید اور تحفظات کے باوجود عوام نے پیپلزپارٹی کو تیسری مرتبہ موقع دیا ہے جو کسی غنیمت سے کم نہیں۔ 
مراد علی شاہ کے گزشتہ بائیس ماہ کے دور حکومت سے یہ بات سامنے آئی کہ ان میں کام کرنے کی صلاحیت ہے۔ پہلی مرتبہ وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے سر سبز تھر، خوشحال سندھ کا نعرہ دیا تھا اور صحت اور تعلیم کو الین ترجیح قرار دیا تھا۔ اس ضمن میں کئے گئے حکومتی اقدامات اپنی جگہ پر لیکن یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سندھ ابھی تک ان دو اہم شعبوں سمیت بنیادی ضروریات کی عدم موجودگی کے حوالے سے تکلیف دہ صورتحال سے گزر رہا ہے۔ گزشتہ دس سال میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا بلکہ اس میں مزید خرابی پیدا ہوئی۔ واٹر کمیشن کی رپورٹ بتاتی ہے کہ سرکاری فائیلوں ایک صورتحال ہے جبکہ زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران تھر میں غذائی قلت کے باعث 397 بچوں کی اموات واقع ہوئی۔ تعلیمی ایمرجنسی بھی کوئی ٹھوس نتائج نہیں دے سکی۔ زراعت کے لئے پانی کی کم فراہمی کی وجہ سے پیداوار کا اہم شعبہ بہت پیچھے چلا گیا۔ اس صورتحال میں آئندہ پانچ سال سندھ کے عوام کے لئے ہی نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کے لئے بھی اہم ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی عوام کے دیئے گئے مینڈیٹ پر پورا نہ اتری تو یہ سندھ کے عوام اور خود پیپلزپارٹی کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔


http://www.awaztoday.pk/singlecolumn/62363/Sohail-Sangi/Thar-Mein-Phir-Qehat-Ne-Sar-Utha-Liya.aspx

https://www.naibaat.pk/17-Aug-2018/15811

https://www.darsaal.com/columns/sohail-sangi/thar-mein-phir-qehat-ne-sar-utha-liya-6433.html 

Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media


سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا