Monday, September 30, 2019

سندھ میں غیر یقینی حالات اور بے چینی کیوں؟


 سندھ میں غیر یقینی حالات اور بے چینی کیوں؟ 
سندھ نامہ   سہیل سانگی 
وفاق سندھ حکومت اور کراچی کی انتظام کاری کے لئے کیا کرنا چاہتا ہے؟ تاحال وفاق کی جانب سے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی جاسکی ہے۔ نیب کی جانب سے اقدامات جاری ہیں۔  نتیجۃ صوبے میں غیر یقینی حالات ہی نہیں بلکہ بڑی بے چینی بھی پائی جاتی ہے۔ صوبے کے سیاسی و اہل نظر حلقے اس معاملے میں پیپلزپارٹی کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔بعض حلقوں میں سنیجدگی سے بحث ہورہی ہے کہ  اس غیر یقینی اور بے چینی صورتحال پیدا کرنے میں کہیں وفاقی حکومت کا ہاتھ تو نہیں؟ بدین ٹھٹہ وغیرہ میں زرعی پانی کی شدید قلت حکومت تو دور نہ کر سکی لیکن گزشتہ ایک ماہ سے وقفے وقفے سے جاری بارشوں کے بعد صورتحال بہتر ہو گئی ہے۔ تاہم زرعی فصلوں پر ٹڈی دل کے حملے کی اطلاعات  آرہی ہیں۔کراچی  کے گٹروں کے بعد اب کچرا سیاست کا اہم موضوع ہے۔کراچی کے معاملات کی حساسیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ خود صفائی مہم کی نگرانی کر رہے ہیں۔  ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کراچی میں کراچی سڑک پر پھینکنے کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کرلیا گیا۔ اچھی حکمرانی اور قانون پر عمل درآمد ٹھیک طور پر نہ ہونے کی شکایات پہلے ہی تھیں اب مختلف علاقوں میں بنیادی ضروریات کی فراہمی، انسانی حقوق  یا قانون کی خلاف ورزی کے واقعات صوبائی حکومت کی کارکردگی پر مزید سوالیہ نشان ڈال رہے ہیں۔صوبائی حکومت کبھی بارش کے پانی کی نکاسی، تو کبھی کسی ضلع میں صحت کی صورتحال، تو کبھی کتوں کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سسٹم ٹھیک سے کام نہیں کر رہا۔ پیپلزپارٹی کے رواں دور حکومت میں  اس کو کام کرنے کا کم ہی موقعہ مل رہا ہے۔ صوبے میں گاہے بگاہے اقلیتوں کے تحفظ کا سوال اٹھتا رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں گھوٹکی میں  اقلیتوں کے خلاف واقعہ اور آصفہ بی بی میڈیکل کالج کی طالبہ نمرتا کی پراسرار حالات میں موت  کے واقعہ  پر سندھ نے شدید ردعمل دیا۔ مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، کئی شہروں سے لوگوں کے وفود گھوٹکی پہنچے اور اقلیتوں سے اظہار یکجہتی کیا۔  اپوزیشن کی سیاست اسمبلی یا پھر صرف کراچی تک محدود ہے۔باقی صوبے بھر میں پیپلزپارٹی کسی نہ کسی طور پر سرگرمی کرتی رہتی ہے۔ ان  تمام موضوعات پر اخبارات میں خبروں کے علاوہ مضامین اور کالم لکھے جارہے ہیں۔
روزنامہ پہنجی اخبار اداریے میں رقمطراز ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے سندھ میں  رہائش  پزیر اقلیتوں اور خاص طور پر ہندو برادری کو جس طرح سے نشانہ بنایا جارہا ہے، اس سے عدم تحفظ کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ ہندو لڑکیوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرا کے شادی کرنے کے واقعات ہوں یا  اغوا برائے تاوان کی وارداتیں۔ اب ان واقعات میں ہندوؤں کی مذہب عبادتگاہوں، خواہ املاک پر منظم حملے بھی ہونے لگے ہیں۔ یہ واقعات جہاں ریاست کی کمزور ہوتی ہوئی رٹ کی نشاندہی کرتے ہیں وہاں  اقلیتوں کو تحفظ دینے کی حکومت کی آئینی و قانونی ذمہ داری کی نفی کرتے ہیں۔اس معاملے کا باریک اور حساس نقطہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں  مذہبی رواداری، بھائی چارہ اور ہم آہنگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ 
ریاستی قوانین پر عمل درآمد کرانا، جرائم پیشہ عناصر کو قابو میں لانا،  اور فتنہ فساد کی سازش کرنے والوں کو قانون میں گرفت میں لانا ریاستی اداروں کا فرض اور ذمہ داری ہے۔ لیکن اکثر کیسوں میں دکھا گیا ہے کہ ڈنڈا بردار ہجوم نہایت ہی آزادی سے  اقلیتوں کی املاک کو نقصان پہنچاتے  اور نذر آتش کرتے رہتے ہیں۔ مگر پولیس خواہ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کوئی  ایکشن لیتے ہوئے نظر نہیں آتے۔  یہ منظر اقلیتوں میں مزید خوف اور ناامیدی کا باعث بنتا ہے، کسی بھی مجرم کے جرم کاتعین کرنا انصاف کے اداروں کا کام ہے۔ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں، لیکن پھلہڈیوں  سے گھوٹکی تک کے واقعات میں  صورتحال کچھ یوں نظر آئی جیسے نہ قانون ہو، اور نہ ہی حکومت۔ یہ واقعات جہاں اقلیتوں میں عدم تحفظ پیدا کرتے ہیں وہاں کاروباری سرگرمیوں کو بھی نقسان پہنچاتے ہیں۔ پھر دنیا میں  ہمارے لئیایک جنونی مذہبی انتہاپسند ریاست کا تاثر ابھرتا ہے۔ گزشتہ روز سندھ اسمبلی نے  متفقہ طور پر ہندو برادری کو تھٖفظ دینے اور ان کی عبادت گاہوں کو سیکیورٹی فراہم سے متعلق ایک قرارداد منظور کی ہے۔جو ایک قابل تحسین قدم ہے۔ لیکن یہ وقتی یا عراضی حل ہے۔ یعنی عمل سے مشروط ہے۔ رواداری کا معاشرہ بنانے کے لئے صرف حکومت ہی نہیں، معاشرے کے تمام حصوں اور اداروں کو  مربوط طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 
 روزنامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ میں زرعی معیشت کے بعد آبادی کے بڑے حصے کا زریعہ معاش  آبی معیشت پر ہے۔ سندھ کی آبگاہوں سے مختلف اقسام کی گھاس وغیرہ پیدا ہوتی ہے،  لیکن مچھلی کی پیداوار اہم ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے ان جھیلوں میں مچھلی کی پیداوار کم ہوتی جارہی ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر محکمہ ماہی گیری نے مچھلی کے بیج کی فراہمی کے لئے مختلف اضلاع میں چمھلی کی ہیچریز قائم کی۔ یہ ہیچریز  اپنے بنیادی کام کی تکمیل میں ناکام رہی ہیں۔ محکمہ ماہی گیری کے افسران  غیر فعال ہیچریز کی فیڈ اور دیگر سامان کی مد میں  بجٹ باقاعدگی سے  لیتے رہے ہیں۔  لیکن مچھلی کا بیج مارکیٹ سے خرید کر کے ڈلا جاتا ہے۔ کبھی کبھی این جی اوز یا عالمی ادارے مہربانی کر کے محکمہ کا کام آسان کر دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان ہیچریز کو فعال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مچھلی کی پیداوار میں اضافہ کیا جاسکے۔    

Friday, September 6, 2019

سندھ اوروفاق کی دوریوں میں مزید اضافہ


https://www.naibaat.pk/06-Sep-2019/26095

حکومت سندھ کی زمین کے کیس میں گرفتار اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کے گرفتار بیٹے غنی مجید، حماد شاہ، توصیف، طارق الرحمٰن، عامر سمیت سات افراد نے نیب کے ساتھ پلی بارگین کرلی ہے۔ ان سات ملزمان نے ساڑھے دس ارب روپے ادا کرنا قبول کیا ہے اور اسٹیل ملز اور سندھ حکومت کی 226 ایکڑ زمین بھی واپس کرنا قبول کیا ہے۔ نوری آباد پاور کمپنی اور سندھ ٹرانسمیشن کمپنی کے افسران نے بھی پلی بارکین کر لی ہے۔ سندھ بینک کے ایک افسر کی پلی بارگین کی درخواست ابھی التوا میں ہے۔ جعلی اکائونٹس سے متعلق 18 انکوائریز میں سے ایک اسٹیل ملز اور حکومت سندھ کی زمین سے متعلق ہے۔ جعلی اکائونٹس کیس میں آصف زرداری اور فریال تالپور سمیت 39 ملزمان ہیں۔ جن میں سے پچیس گرفتار ہیں۔ ڈاکٹر ڈنشا اور جمیل احمد سے بات چیت چل رہی ہے ان کے ساتھ پلی بارگین کا معاملہ آخری مرحلے میں ہے۔ کل تیرہ افراد نے پلی بارگین کی ہے جن سے 13 ارب روپے وصول کئے جاچکے ہیں، یہ رقم اومنی گروپ کے علاوہ ہے۔ شیخ رشید کہتے ہیں کہ آصد زرداری سے بات چیت چل رہی ہے، پیسے کشمیر فنڈ میں دیئے جائیں گے۔ بعض خیرخواہ ثالثی کر رہے ہیں۔ آصف زرداری کچھ نہ کچھ دیں گے، شریف برادران ایسے بھی نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کی ہدایات پر ملک ریاض نے بحریہ ٹائون کے حوالے سے جو دس ارب روپے کی ادائیگی کی ۔تین چار مدوں سے آنے والی یہ ایک خطیر رقم ہے، لگتا ہے آنے والے دنوں میں پلی بارگین یا دیگر طریقوں سے مزید رقومات آنے والی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ رقومات کس کی ہیں؟ کس کو ملنی چاہئیں؟ سندھ حکومت کا مانناہے کہ یہ تمام رقومات سندھ حکومت کی ہیں کیونکہ یہ زمین اور دیگر اثاثے سندھ کی ملکیت تھے، لہٰذا ان پر آئینی و قانونی طور پر سندھ حکومت کا حق ہے۔ لیکن وفاق صوبے کو نظر انداز کر کے ہر حال میں یہ رقم خود لینا چاہتا ہے۔ سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان این ایف سی ایوارڈ میں سے کم رقم جاری ہونے پر پہلے ہی تنازع چل رہا ہے۔ ان رقومات پر وفاقی حکومت کے دعوے سے سندھ اور وفاق کے درمیان ایک اور تنازع مزید پیدا ہو رہا ہے۔

سندھ اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ گنے کے کاشتکاروں کوالٹی پرمیم کی مد میں مل مالکان کی طرف واجب الادا ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس کے دوران سیکریٹری زراعت اور ڈائریکٹر جنرل آڈٹ کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ اجلاس میں مالی سال 2009-10 اور 2010-11 مالی سال کی آڈٹ رپورٹ پیش کی گئی۔ آڈٹ افسران نے کوالٹی پریمیم کی مد میں ایک ارب 43 کروڑ روپے ریکوری نہ ہونے کا معاملہ اٹھایا۔ جس پر سیکریٹری زراعت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ پرائیویٹ پارٹی کا ہے۔ آڈٹ حکام کے اعتراضات غلط ہیں۔ آڈٹ حکام کا یہ موقف تھا کہ جہاں ایکٹ کی خلاف ورزی ہوگی وہاں اعتراضات اٹھائے جائیں گے۔ یہ پیسے حکومت کے نہیں کاشتکاروں کے ہیں۔ کین کمشنر نے بتایا کہ یہ کوالٹی پریمیم کی ادائیگی کا معاملہ 1997 سے چل رہا ہے، اب تک کاشتکاروں کے پینتیس ارب روپے اس مد میں واجب الادا ہیں۔
’’کاشتکاروں کو زرعی اجناس کی صحیح قیمت ملنا محال ‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ گندم کی فصل اترتی ہے تو حکومت ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے سرکاری قیمت دیر سے مقرر کرتی ہے۔ قیمت مقرر کرنے کے بعد سرکاری خریداری مراکز قائم نہیں کئے جاتے۔ اس اثناء میں باردانے کی تقسیم کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال گنے کی فصل کے ساتھ ہوتی ہے۔ حکومت وقت پر شگر ملز چالو کرانے میں ناکام رہتی ہے۔ کاشتکاروں کو گنے کی صحیح قیمت نہیں مل پاتی۔ کاشتکاروں کو برسہا برس تک گنے کی رقم کی ادائیگی نہیں کی جاتی۔ ابھی سندھ میں کپاس کی فصل مارکیٹ میں آئی ہے۔ لیکن کاشتکار صحیح قیمت حاصل کرنے سے محروم ہیں۔فیکٹری مالکان نے مختلف مقامات پر اجارہ داری قائم کرکے فی من کی قیمت میں 1000 سے 1200 روپے تک کمی کردی ہے۔ کپاس کے کارخانوں پر نصب کانٹوں میں بھی ہیراپھیری کی جارہی ہے۔ حصے کا پانی نہ ملنے کے باعث سندھ میں زراعت کا حال ویسے ہی برا ہے۔ جو پانی ملتا ہے اس کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی۔ نتیجے میں چھوٹے کاشتکار کو نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پانی کی کمی پوری کرنے کے لئے یہ کاشتکار ٹیوب ویل استعمال کرتا ہے۔ اس وجہ سے اس کی پیداوار کی فی ایکڑ لاگت بڑھ جاتی ہے۔ جب فصل تیار ہو کر مارکیٹ پہنچتی ہے تو اس کی صحیح قیمت نہیں ملتی۔ کاشتکار کا المیہ ہے کہ وہ اپنی زرعی پیداوار کی قیمت خود مقرر نہیں کرتا۔ وہ اس معاملے میں تاجر، دلال یا کارخانیدار کے رحم و کرم پر ہے۔ شہدادپور میں کارخانیداروں نے اجارہ داری قائم کر کے کپاس کے دام اپنی مرضی کے مقرر کر رکھے ہیں۔ اس وقت کپاس کے فصل کی قیمت 3900 روپے من ہے لیکن کارخانیدار من مانی کر کے کاشتکاروں کو 2700 روپے ادا کر رہے ہیں۔ عملی صورت یہ ہے کہ کاشتکاروں کو 31 فیصد قیمت ادا کی جارہی ہے۔ اس صورتحال پر حکومت سندھ کی خاموشی معنی خیز ہے۔ محکمہ زراعت اس معاملے لاتعلق ہے۔ سندھ زرعی صوبہ ہے جس پر پوری دیہی معیشت چلتی ہے اور کارخانوں خواہ برآمد کے لئے خام مال اس شعبے سے ہی آتا ہے۔ لیکن زراعت حکومت کے ایجنڈا پر نہیں ہے۔ زرعی شعبے اور کاشتکاروں کے مسائل سے حکومت کی لاتعلقی باعث تشویش ہے۔