Saturday, March 2, 2019

سندھ میں مسائل کیوں نہیں حل ہوتے؟



سندھ میں مسائل کیوں نہیں حل ہوتے؟ 

سندھ نامہ سہیل سانگی
پاک بھارت کشیدگی پر سندھی میڈیا میں مضامین، کالم اور اداریے شایع ہوئے ہیں۔ جن کا لب و لباب یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ عوام کے لئے نقصان دہ ہے۔ جنگ اگر کرنی ہے تو برصغیر میں غربت کے خلاف کرنی چاہئے۔ تمام متنازع معملات کو مذاکرات کی میز پر حل کرنا چاہئے۔ برصغیر کو جنگ نہیں امن چاہئے۔ مودی کے جنگی جنون کی مذمت کی گئی۔پاک فوج سے یکجہتی کے طور پر سندھ کے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں۔کراچی میں جنگ نہیں امن چاہئے کے نعرے پر پریس کلب کے سامنے مظاہرہ بھی کیا گیا۔ سندھ حکومت نے بعد از خرابی بسیار صوبے میں ڈاکٹروں کی تنخواہیں پنجاب کے برابر کردی۔ اس سے قبل سندھ میں سرکاری ڈاکٹروں کی تنخواہیں پنجاب کے مقابلے میں کم تھیں۔ ڈاکٹر کئی روز تک ہڑتال پر تھے ۔ جس کے دوران بعض سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی موت بھی واقع ہوئی۔ سندھ حکومت نے عدالتی حکم کے بعد معذورین کی کوٹا پر عمل درآمد کے لئے اشتہارات کا سلسلہ شرو کیا ہے۔ بدین میں 33 روز سے معذورین احتجاج کر رہے تھے۔ یقین دہانی کے بعد یہ احتجاج ختم کردیا گیا۔ 
صوبے میں گنے کی قیمت کا مسئلہ تاحال حل نہیں ہوسکا ہے۔ ٹنڈو الہیار میں مہران شگر ملز کے باہر کاشتکاروں اور مزدوروں کا دھرنا جاری تھا۔ جمع کے روز گیٹ کھول دیئے گئے ۔ 
گنے کی قیمت کا نوٹیفکیشن سندھ کابینہ کی منظوری کے بغیر جاری ہوا ہے۔ رولز آف بزنیس تحت سیکریٹری کو اختیارہے کہ وہ گنے کی قیمت مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔ سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ دسمبر میں فیصلہ دیا تھا کہ گنے کی قیمت 182 روپے فی من مقرر کی جائے۔ اس فیصلے کے خلاف شگر ملز مالکان نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔ مطلوبہ مشاورت کرلی گئی تھی۔ 
سندھ فیسٹول میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی شرکت کو سراہا گیا۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ صدر پاکستان نے سندھ فیسٹول میں شرکت کی ہے۔ صوبائی دارلحکومت کراچی میں منعقدہ تین روز سندھ لٹریچر فیسٹول میں متعدد سیشن ہوئے۔ 
روزنامہ کاوش محکمہ آبپاشی کا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے نزدیک حکمرانی کا مطلب مقصد کمیٹیوں کی تشکیل اور ہر بات کا نوٹس لینے تک محدود ہے۔ ان کے پاس ہرمسئلہ کا یہی حل ہے۔ عوام کے مسائل سے لاتعلقی اور حکمرانی کو دل پشوری سمجھنے کے باعث سندھ میں مسائل بڑھ کر کسی بڑے برگد کے پیڑ کی طرح ہو گئے ہیں۔ سندھ کے عوام کو کس طرح کے مسائل کا سامنا ہے اس کا ایک عکس گزشتہ چند روز سے شہری مسائل کے حوالے سے بعض اخبارات کی جانب سے شایع ہونے والی روپرٹس میں ملتا ہے۔ یہ بس مسائل دیکھ کر لگتا ہے کہ عوام کے مسائل حل کرنا حکومت کی ترجیح نہیں ۔ عوام کو کونسی سی سہولیات حاصل ہونگی جب انہیں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہ ہو۔ صوبے کے متعدد ایسے علاقے ہیں جہاں کی شاخیں اور کینال کئی ماہ سے خشک ہیں۔ زرعی مقاصد دور کی بات وہاں پینے کے لئے پانی بھی دستیاب نہیں۔ ٹھٹہ ضلع ہو یا بدین اور سجاول یا جوہی کا علاقہ پانی کی قلت اور عدم موجودگی کے خلاف احتجاج جاری ہیں۔ سماعت و بصارت سے محروم انتظامیہ کو بھلے یہ احتجاج نظر نہ آئیں لیکن عوام کے مزاج کے بدلتے موسم کا اندازہ نہ کرنا کسی طور پر بھی انتظامی تدبر نہیں۔ 
سندھ گزشتہ کئی برسوں سے بدترین حکمرانی سے گزر رہا ہے۔ لیکن اب حالت یہ ہے کہ پینے کے لئے پانی بھی میسر نہیں۔ زراعت تو تباہ ہے ہی، جس پر صوبے کی معیشت کا کلی طورانحصار ہے۔ خوشیاں ریبع اور خریف سے منسلک ہوا کرتی تھی۔انہی موسموں میں خوشیان لوگوں کے آنگنوں میں آتی تھی۔ لوک گیت، خوشیوں کے گیت اور لوک رقص میدانوں میں ہوتے تھے۔ لیکن اب سندھ اور خاص طور پر اس کے ٹیل والے اضلاع پانی کی بوند کے لئے ترس گئے ہیں۔ پانی بنیادی انسانی حق اور اس کے زندہ رھنے کے لئے لازمی اسم ہے۔ لوگوں کو پانی سے محروم کرنا انہیں جینے کے حق سء محروم کرنے کے مترادف ہے۔ پانی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے ایک خوشحال تہذیب کو ختم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہوئی ہے۔اب تو لوگ، مویشی اور جنگلی حیات بھی مرنے لگی ہے۔ منتظمین فطرت کے تمام ماحول کو ختم کر کے وہاں زندہ رھنے کی راہیں مسدود کر رہی ہیں۔ ان علاقوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہو رہی ہے۔ زرعی معیشت کی تباہی کے باعث بڑے پیمانے پر غربت پھیل چکی ہے۔ 
تسلیم کہ اس پورے قصے میں ماحولیاتی تبدیلی بھی ایک وجہ حصہ ہے۔ لیکن تمام قصور نامہربان موسم پر نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔ زیادہ تر تباہی منتظمین کی بد انتظامی اور خراب حکمرانی کی وجہ سے آئی ہے۔ اول لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں اور جہاں مسیر ہے وہ غلیظ اور مضر صحت ہے۔ چند ماہ پہلے واٹر کمیشن کی سرگرمی کے دوران پینے کے پانی کے نمونوں کا معائنہ کرایا گیا تو پتہ چلا کہ شہروں میں بھی پینے کے لئے عوام کو غلاظت کی ملاوٹ والا پانی مہیا کیا جارہا ہے۔ حیدرآباد کے کئی شہری اور بچے ٹائفائیڈ ایم ڈی میں مبتلا ہیں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ حیدرآباد کے پانی میں اس خطرناک بیماری کا وائرس موجود ہے۔ حیدرآباد میں پھر بھی کسی حد تک شہریوں کو فلٹر شدہ پانی مہیا کیا جاتا ہے، جہاں غیر فلٹر شدہ پانی فراہم کیا جارہا ہے وہاں کیا صورتحال ہوگی؟ صرف ایک مثال ہی لے لیں۔ کینجھر جھیل میں کوٹری کے صنعتی علاقے کا بلا ٹریٹمنٹ آلودہ اور زہیلا پانی کے بی فیڈر کے ذریعے چھوڑا جاتا ہے۔ اگرچہ کوٹری سائیٹ ایریا میں ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود ہے ۔ یہں قائم صنعتوں پر لازم ہے وہ صنعتی آلودہ پانی کو ٹریٹ کرنے کے بعد اس فیڈر میں چھوڑیں۔ لیکن اس پر برسوں سے عمل نہیں کیا جارہا ہے۔ کینجھر جھیل میں مسلسل زہریلا پانی چھوڑا جارہا ہے۔کینجھر سے کراچی کے شہریوں کو فلٹر شدہ پانی فراہم کیا جاتا ہے لیکن جھمپیر، اور کینجھر کے گرد نواح میں موجود شہروں اور گاؤں کو آلودہ اور زہیلا پانی مہیا کیا جارہا ہے۔ اس علاقے میں صورتحال یہ کہ سینکڑوں افراد ہپیٹائی ٹس، پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ متعدد لوگ گردے کی بیماریوں کی وجہ سے تکلیف کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 
سندھ میں پانی کا بحران دراصل اچھی انتظام کاری کا بحران ہے۔ محکمہ آبپاشی کی نااہلی اور کرپشن نے سندھ کے زرین اضلاع میں معیشت کو تو تباہ کیا ہے لیکن یہاں پر لوگوں کا جینا بھی مشکل کردیا ہے۔ معیشت تباہ ہے بستیاں ویران ہیں۔ زرخیز زمین تباہ کرنے کی قیمت پر سیاسی مفادات حاصل کئے جارہے ہیں۔ حخمرانوں کے لئے سیاسی وفاداری اہم ہے۔ باقی عوام سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ آخر محکمہ آبپاشی کا سیاسی مقاصد کے لء استعمال کب بند ہوگا؟


https://www.naibaat.pk/01-Mar-2019/21412 

Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media


سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا

No comments:

Post a Comment