کیا تھر بدلائے گا پاکستان؟
سندھ نامہ سہیل سانگی
سندھ اینگرو کمپنی نے دعوا کیا ہے کہ تھر کول سے بجلی کی پیداوار شروع ہو گئی ہے اور اس بجلی کو نیشنل گرڈ سے جوڑ دیا گیا ہے۔یہ موضوع میڈیا خواہ سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے کہ واقعی کول سے بجلی پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے؟کیونکہ صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد سمیت دیگر شہروں میں چار سے چھ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ اب بھی جاری ہے۔میڈیا اور دیگر حلقوں کو شبہ ہے کہ تھرکول اور پھر یہاں سے بجلی کی پیداوار اس پسماندہ علاقے کی زندگی میں کوئی بدلاؤ لے آئے گا۔ تھر میں سڑکیں صرف کول ایریا تک پہنچنے کے لئے ہیں۔ اایک حد تک مٹھی اور اسلام کوٹ تک روڈ اور صحت کی سہولیات پہنچ پائی ہیں۔ اجنہیں طمینان بخش نہیں کہا جاسکتا۔ مگرجبکہ تین تحصیلیں یعنی چھاچھرو، ڈاہلی اور نگرپارکرجو کہ پورے تھر کا ساٹھ فیصد سے زائد علاقہ ہے، تاحال سڑکوں اور دیگر مواصلات، تعلیم اور صحت کے بنیادی نیٹ ورک سے محروم ہیں۔تھر کی ترقی کے پورے معاملے سے وفاقی حکومت بہت دور کھڑی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے توانائی کے صوبائی وزیر امتیاز شیخ کے ساتھ یہ نعرہ دیا کہ’’ تھر بدلائے گا پاکستان ‘‘یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا کالا سون تھر کی قسمت تبدیل کر پائے گا؟ حالات و واقعات سے ایسے شواہد نہیں مل رہے ہیں۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ تھر کول پراجیکٹ کے بلاک ٹو جہاں سے 660 میگاواٹ بجلی پیدا ہونی تھی وہاں سے دو روز قبل 330 میگاواٹ بجلی پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔ تھر سے پیدا ہونے والی بجلی نیشنل گرڈ اسٹیشن فیصل آباد منتقل کردی گئی ہے ، جہاں سے بجلی کی تقسیم کو ممکن بنایاجاسکے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ اور پروجیکٹ کے عملے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کامیابی کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اہم قرار دیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ واقعی عوامی ترقی ہے۔؟ جس کو سندھ حکومت کامیابی قرار دے کر مبارک باد دے رہی ہے۔
تھر کول پروجیکٹ سے پیدا ہونے والی بجلی کو عوامی خوشحالی سے منسلک کرنا اس وجہ سے بھی غیر متعلقہ لگتا ہے کہ تھر کے 70فیصد سے زائد عوام تاحال بجلی سے محروم ہے۔ کیا یہ جشن اس پر منایا جارہا ہے اس بجلی کی پیداوار کے بعد بھی تھر کے باسیوں کو حقوق نہیں ملیں گے؟ ضلع تھرپارکر کا رہائشی اس ترقی کو کس نظر سے دیکھے گا؟ اس کے لئے اس ترقی کا مفہوم کیا ہوگا؟ تھر کول سے پیدا ہونے والی بجلی کے ساتھ تھر کی ترقی کا سوال بھی وابستہ ہے۔ یہ ترقی اپنی نوعیت میں عوامی ترقی ہوگی۔ کامیابی کا اعلان کرنے والوں کو یہ بھی اعلان کرنا چاہئے تھا کہ اس میں سے کتنی بجلی تھر کے لوگوں کو ملے گی؟
کوئی تھری یہ بھی بھول گیا ہوگا کہ دو سال پہلے جب گوڑانو ڈیم پر کام شروع ہوا تھا تو وہاں پر 12 دیہات متاثر ہوئے تھے۔ نقل مکانی کرنے والے ان لوگوں کو کسی اطمینان بخش بحالی کی پالیسی کے تحت آباد نہیں کیا گیا۔ یاد رہے کہ گوڑانو ڈیم جو اب مکمل ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے ایک لاکھ سے زائد درخت تباہ ہو چکے ہیں۔ وہ مویشی جن پر گاؤں کے لوگوں کو گزر سفر تھا، وہ بھی بری طرح سے متاثر ہو چکا ہے۔ اس پروجیکٹ کے نتیجے میں بے گھر اور متاثر ہونے والے لوگ ایک سال سے زائد عرصے تک سے سراپا احتجاج یں۔ اور یہ معاملہ عالمی تنظیموں تک جا پہنچا ہے۔ اس پروجیکٹ پر کام کرنے والی سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کی کول مائننگ اسیسمنٹ رپورٹ بھی زیادہ تسلی بخش نہیں۔ جن لوگوں کی زمینوں سے یہ پائپ لائن گزاری گئی ہے وہ ابھی تک معاوضے اور انصاف کے لئے منتظر ہیں۔ بعض کے معاملات عدالتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس پروجیکٹ کی کامیابی پر مبارکباد ینے والے وزیراعلیٰ سندھ کو اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ پروجیکت کی کامیابی اس صوبے کے باسیوں کی بدحالی پر ہی کھڑی ہے۔
مبارکباد دینے والے وزیراعلیٰ سندھ کو یہ بھی اعلان کرنا چاہئے تھا کہ اس بجلی میں سے کتنا فیصد تھر کے مقامی باشندوں اور دیہات کے لئے مختص ہے؟ پیپلزپارٹی کی حکومت تھر کے دیہات کے بچے کو بچانے میں ناکام رہی ہے۔ اس سے تھر کول سے بجلی پیدا ہونے کے بعدترقی کی امید کی جاسکتی ہے؟ عوامی ترقی کا مطلب عوامی خوشحالی ہے۔ تھر کول کا اربوں روپے کی مالیت کا پروجیکٹ اپنی جگہ پر، تھر کا معیار زندگی کتنا اور کیا بدلا ہے؟ یہ تھر کے لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ بھر میں جہاں کمپنیاں قدرتی وسائل کے استعمال پر کام کر رہی ہیں وہاں مقامی لوگوں کو روزگار میں حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ وہاں کے معیار زندگی میں یا غربت میں کوئی فرق آیا۔ان علاقوں میں سڑکیں اور دیگر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر تھ کے ساتھ بھی یہی ہونا ہے تو تھر کول منصوبہ کا تھر کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پنچے گا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس منصوبے میں تھر کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کو یقینی بنائے۔
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ تھر کے لوگوں کو روزگار کے حوالے سے اس پروجیکت میں جگہ ملے تو تھرمیں قائم دو ٹیکنیکل انسٹیٹوٹس کو فعال بناکر تھر کے نوجوانوں میں فنی تربیت کو یقینی بنائے۔اگرچہ حکومت کو یہ کام پروجیکٹ شروع ہونے سے پہلے کرنا چاہئے تھا۔ اگر صحیح منصوبہ بندی اور حکمت عملی اختیار کی جائے تو تھر ایک بڑا صنعتی زون بن سکتا ہے۔ جب بجلی کی پیداوار پر مبارکبادیں دی جارہی ہیں اس موقعہ پر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تھر کے لوگوں کو قومی ترقی کے عوض اپنے گھر، اور زمین چھوڑنی پڑی۔ اس کا نہ صرف انہیں معاوضہ ملنا چاہئے بلکہ ان بے گھر ہونے والوں کی آبادکاری اور مناسب روزگار کا بھی بندوبست کرناکیا جانا چاہئے۔
سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا
سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا
No comments:
Post a Comment