تبدیلی کا نعرہ ’’ اسٹیٹس کو‘‘ پر
میرے دل میرے مسافر سہیل سانگی
ہمارے دوست اور پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر مولا بخش چانڈیو بادشاہ آدمی ہیں۔بہت سے لوگوں کوان کی باتیں اور بیانات عام سی لگتی ہیں۔ لیکن ان کی باتوں میں گہرائی ہوتی ہے۔حیدرآباد کی مشہور شخصیت میر رسول بخش تالپور کے دست راست لال بن یوسف جنہوں نے ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی۔ حیدرؓاد میں ’’بھاؤ مولابخش‘‘ یعنی مولابخش بھائی کے طور پر پہچانے جانے والے پرانے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے سیاسی تربیت اس دور میں حاصل کی جب دنیا میں نظریات کی سیاست تھی، سندھ میں ادب، سیاست اور کلچر ایک ہی پیج پر تھے۔ رہی سہی کسر ان کے آبائی علاقے ٹنڈو ولی محمد نے نکال لی۔ جو لوگ حیدرآباد کو جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ ٹنڈو ولی محمد کی کیا خصوصیات ہیں۔ لہٰذا ان کی تربیت میں عوامی دانش کا تڑکا بھی لگ گیا۔ انہوں نے بظاہر بڑی سادگی سے زیراعظم بھی پیپلز پارٹی کا لانے کا مطالبہ کردیا۔ وہ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے پیپلز پارٹی کے 6وزراء لیے ہیں، وزیر اعظم بھی ہمارا لے لیں،وزیراعظم کی کشتی میں سوراخ ہوچکا ہے، آہستہ آہستہ پوری حکومت کا حلیہ ہی تبدیل ہوجائے گا، مسائل کے حل کے لیے صرف وزیرخزانہ نہیں وزیراعظم بھی پیپلز پارٹی کا لانا ہوگا۔بہت سے لوگوں کو یہ بات عجیب اور ہلکی لگی ہوگی۔یہ پیپلزپارٹی کی قیادت کی کاریگری ہے، وہ جانتی ہے کہ کون سی بات کس وقت اور کس کے منہ سے کہلوائی جائے۔
اصل معاملہ معیشت کو سنبھالا دینے کا تھا۔ کپتان کو لانے والوں کا خیال تھا کہ جیسے ہی وہ اقتدار کی پچ پر کھڑے ہونگے تو چھکے ہی چھکے ہونگے اور ڈالروں کی بارش ہونے لگے گی۔ نو ماہ تک ڈھول بجتے رہے کہ بس ابھی شادمانی ہونیوالی ہے، لیکن عین وقت پر ماہرین نے رپورٹ دی کہ پورے نو ماہ تک آسرے میں ہی رکھا گیا۔ کوئی خوشخبری نہیں۔ بلکہ بدخبری ہے۔مزید بدخبریاں آئی ایم ایف سے معاہدے اور بجٹ کے اعلان کے ساتھ سامنے آجائیں گی۔لہٰٰذا سیاسی کھیل کو بدلنے کی سوچ پختہ ہوگئی۔ شریف خاندان کورلیف دینے اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف کریک ڈاؤن نہ کرنے کے پیچھے یہی سوچ کارفرما بتائی جاتی ہے۔ جس پر تحریک انصاف والے ڈیل اور ڈھیل کی کہہ کراپنی حکومت اور سیاسی دفاع کے لئے شور مچاتے رہے۔ متبادل کے لئے ہوم ورک کیا گیا۔ پہلی نظر ملک کی دو بڑی پارٹیوں نواز لیگ اور پیپلزپارٹی پر جانا فطری امر تھا۔ہر دو جماعتوں کے پاس دو آپشن تھے۔ نواز لیگ میں تین رجحانات موجود ہیں۔ پانچ نشستوں پر کھڑی حکومت کو ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے تبدیل کردیا جائے، اور شہباز شریف کو وزیر اعظم بنادیا جائے۔ پیپلزپارٹی حکومت سازی میں نواز لیگ کی مدد کرے۔ بھاؤ مولابخش چانڈیو کا بیان اس حوالے سے ہے کہ وزیراعظم پیپلزپارٹی کا بنایا جائے۔
دوسرا رجحان یہ تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کواپنے وزن کے نیچے خود ہی دب کر گر جانے دیا جائے۔ اور معاملہ نئے انتخابات کی طرف جائے۔اس رجحان کے پیچھے یہ سوچ کرفرما ہے کہ مقتدرہ حلقے امور خارجہ ، دفاع اور مجموعی حکمت عملی کے بارے میں اپنی سوچ تبدیل کریں، اس کے بغیر معاشی حالات درست نہیں ہوسکتے۔ اس رجحان کے حامی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف بتائے جاتے ہیں۔ قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ جب بلاول بھٹو ان سے ملنے آئے تھے، تو انہوں نے یہ بات پیپلزپارٹی کے چیئرمین کو گوش گزار کردی تھی۔ پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ انتخابات کے نتائج تو پہلے سے طے ہوتے ہیں۔ اور یہ طے ہونے سے پہلے انتخابات میں نہیں جایا جاسکتا۔ نواز شریف سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال اور حالیہ ایجنڈے کے ساتھ کوئی بھی حکومت میں آئے، کوئی اسپیس ہی نہیں،ماسوائے کاسمیٹس تبدیلیوں کے کچھ نہیں کرسکتا۔ ایک حد تک پیپلزپارٹی بھی یہ سمجھتی ہے، لیکن اس کی قیادت پرمقدمات کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے بعض معاملات میں جلدی ہے۔اس لئے یہ نقطہ دونوں بڑی جماعتوں کو ایک پیج پر لانے کی راہ میں رکاوٹ بھی ہے۔
پنجاب میں عوامی سطح پر حکومت سے دوری حکومت کے لئے بڑا چیلینج بنی ہوئی ہے۔ لہٰذا تیسرا آپشن چوہدری نثار علی خان کے ذریعے سیاسی معاملات کو ٹھیک کرنے کا ہے۔ لیکن چوہدری صاحب اگر کر بھی پائیں گے تو زیادہ سے زیادہ سیاسی معاملات ہی ٹھیک کریں گے۔ معاملہ معیشت کا ہے۔ چوہدری صاحب کی دوسری خصوصیت ریٹائرڈ فوجی افسر سید اعجاز علی شاہ کو وزیر داخلہ بنا کر پوری کردی گئی ہے۔
ملک میں سیاسی پولرائزیشن نئی شکل لے رہا ہے۔مہنگائی اور معاشی بدنظمی نے عام آدمی کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ معاشی دباؤ اور حکومت کی کارکردگی چیلنج ہونے کی سوچ باعث وفاقی کابینہ میں حالیہ تبدیلیوں کا موجب بنی۔ کابینہ میں حالیہ تبدیلیوں کے باوجود بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ جیسے کہ تاثر دیا جارہا ہے پہلے والی ٹیم میں بے اثر لوگ تھے۔ اب نئی ٹیم میں ’’ اسٹیٹس کو‘‘ کی علامت بنے ہوئے لوگ آگئے ہیں۔ دوسریا ہم بات کاینہ میں غیر منتخب لوگوں کا بے پناہ اضافہ ہے جو پارلیمنٹ اور عوامی مینڈیت کی حیثیت کم کر دیتا ہے۔ ملک کی دو بڑی پارٹیوں کو کرپٹ قرار دینے والے بیانیے سے بھی سیای خلاء بنا ہوا ہے۔ اس سے نہ ملک میں معاشی ترقی اور معیشت کی بحالی ہوگی اور نہ سیاسی نظام میں نمو ہوگی۔مانگے تانگے پر نہ معاشی ترقی تو دور کی بات معاشی استحکام بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔یہ ایک عارضی رلیف ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ معاشی طور کمزور ملک مضبوط خارجہ پالیسی بھی نہیں بنا سکتے ۔خطے میں تیزی سے تبدیلیاں رونماہو ورہی ہے، جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ غیر منتخب افراد کی پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں اضافے اور پارلمنٹ کی حیثیت کم ہونے سے سیاسی خلاء اور بڑھے گا۔۔ تبدیلی کا نعرہ اب’’ اسٹیٹس کو‘‘ پر آکر کھڑا ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سیاستدان ملک میں صدارتی نظام یا غیر سیاسی قوتوں کے نظام کا خطرہ محسوس کر رہے ہیں اور کہہ رہے کہ آہستہ آہستہ یہ عمل ملک کے جسم میں سرایت کرتا جارہا ہے۔
No comments:
Post a Comment