سندھ نامہ سہیل سانگی
سندھ اسمبلی کا ایوان آج کل جس طرح چل رہا ہے، جو مناظردیکھنے اور جملے سننے کو ملتے ہیں، وہ سب کچھ دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ یہ سندھ بھر کے کروڑہا عوام کی نمائندگی کرنے والا منتخب اور پڑھے لکھے لوگوں کا ایوان ہے۔ جس کا فرض سندھ لے عوام کے مسائل حل کرنے کے اقدامات اور قانون سازی کرنا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی ایکشن مووی چل رہی ہے۔
گزشتہ ایک ماہ سے صوبائی محکمہ صحت میڈیا میں زیر بحث ہے۔ یہ محکمہ پیپلزپاارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہمشیرہ عذرا پیچوہو کے پاس ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مختلف اضلاع میں پندرہ سو سے زیادہ ڈاکٹرز ڈیوٹیوں سے غیر حاضر ہیں۔ تھرجہاں غذائیت کی کمی اور قحط کی وجہ سے بچوں کی اموات کا سلسلہ رک نہیں رہا، وہاں ڈاکٹرز کو خصوصی الاؤنس دے کر تعینات کردہ ڈاکٹروں میں سے چالیس ڈاکٹرز ڈیوٹی نہیں دے رہے ہیں۔ ڈی جی ہیلتھ نے ان ڈاکٹرز کو نوٹس جاری کئے ہیں لیکن معاملہ سیکریٹری کے پاس لٹ گیا ہے۔ ان تمام ڈاکٹرز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی ہے۔ لاڑکانہ کے ایک نجی ہسپتال میں غلط انجیکش لگانے سے میرزادی نامی ایک خاتون فوت ہونے کی خبریں شیاع ہوئی ہیں۔ سکھر سول ہسپتال میں ڈاکٹرز کی کوتاہی کے باعث تھلیسمیا کی ایک بچی سویرا لولائی کو غلط خون لگایا گیا۔ معاملے کی تحقیقات کے لئے کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔
ہیلتھ کیئر کمیشن کی کارکردگی نے نشوا کو غلط انجیکشن لگانے پر ہسپتال پر صرف پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔ عصمت جونیجو کیس میں اپوزیشن نے سندھ اسمبلی میں مذمتی قرارداد پیش کی، اور پوچھا ہے کہ وزیر صحت کہاں لاپتہ ہیں۔
Add caption |
ہیلتھ کیئر کمیشن کی کارکردگی نے نشوا کو غلط انجیکشن لگانے پر ہسپتال پر صرف پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔ عصمت جونیجو کیس میں اپوزیشن نے سندھ اسمبلی میں مذمتی قرارداد پیش کی، اور پوچھا ہے کہ وزیر صحت کہاں لاپتہ ہیں۔
روزنامہ کاوش ا داریے میں لکھتا ہے کہ سندھ میں جنسی زیادتی کے بعد لڑکیوں
کو قتل کرنے کا ایک اور واقعہ رپورٹ ہوا ہے۔ میڈیا میں یہ آنے کے بعد یہ واقعہ ہائی پروفائل ہوگیا۔ اس مرتبہ یہ واقعہ کسی دیہی یا چھوٹے شہر میں نہیں بلکہ صوبے کے دارلحکومت کراچی کے کورنگی کے علاقے میں رونما ہوا۔ایک سرکاری ہسپتال میں عصمت جونیجو نامی ایک لڑکی کو ڈاکٹروں نے جنسی زیادتی کرنے کے بعد قتل کردیا۔جنسی زیادتی اور قتل کے بعد اس واقعہ میں ڈاکٹر ایاز عباسی کو بڑا ملزم قرار دیا گیا ہے جبکہ واقعہ میں تین اور ملزمان بھی شامل ہیں۔ جنہیں ریمانڈ پر جیل بھیج دی گیا ہے۔ مقتولہ کے ورثاء کا کہنا ہے کہ عصمت علاج کے لئے ہسپتال گئی تھی، جہاں اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد زہر کا انجیکشن لگا کر قتل کردیا گیا۔ ورثاء کے اعتراض کے بعد یہ تفتیش اب ملیر منتقل کردی گئی ہے۔ چیف سیکریٹری نے واقعہ کے بڑے ملزمکو سرکاری نوکری سے معطل کر دیا ہے تاہم باقی تین ملزمان کی معطلی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔
کو قتل کرنے کا ایک اور واقعہ رپورٹ ہوا ہے۔ میڈیا میں یہ آنے کے بعد یہ واقعہ ہائی پروفائل ہوگیا۔ اس مرتبہ یہ واقعہ کسی دیہی یا چھوٹے شہر میں نہیں بلکہ صوبے کے دارلحکومت کراچی کے کورنگی کے علاقے میں رونما ہوا۔ایک سرکاری ہسپتال میں عصمت جونیجو نامی ایک لڑکی کو ڈاکٹروں نے جنسی زیادتی کرنے کے بعد قتل کردیا۔جنسی زیادتی اور قتل کے بعد اس واقعہ میں ڈاکٹر ایاز عباسی کو بڑا ملزم قرار دیا گیا ہے جبکہ واقعہ میں تین اور ملزمان بھی شامل ہیں۔ جنہیں ریمانڈ پر جیل بھیج دی گیا ہے۔ مقتولہ کے ورثاء کا کہنا ہے کہ عصمت علاج کے لئے ہسپتال گئی تھی، جہاں اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد زہر کا انجیکشن لگا کر قتل کردیا گیا۔ ورثاء کے اعتراض کے بعد یہ تفتیش اب ملیر منتقل کردی گئی ہے۔ چیف سیکریٹری نے واقعہ کے بڑے ملزمکو سرکاری نوکری سے معطل کر دیا ہے تاہم باقی تین ملزمان کی معطلی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔
جنسی زیادتیوں اور لڑکیوں کو قتل کرنے کے واقعات دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔ بعض واقعات منظر عام پر آنے کی وجہ سے ہائی پروفائل ہو جاتے ہیں۔ جبکہ باقی واقعات اثر رسوخ اور دباؤ کے باعث دب جاتے ہیں۔ اکثر سرکاری محکموں میں لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ بڑھتے ہوئے ان واقعات کی وجہ سے شہری عورت بھی اپنے ورک پلیس پر خود کو محفوظ نہیں سمجھتی۔ جنسی ہراسگی، اور زیادتی خواہ لڑکیوں کے قتل کے واقعات کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیمیں تحقیقی رپورٹس شایع کرتی رہی ہیں اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے حکومت سندھ کو موثر قانون سازی اور مشترکہ مکینزم بنانے کی سفارشات کرتی رہی ہیں۔ اس نوعیت کے بعض واقعات سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی وجہ سے ہائی پروفائل ہو جانے کے بعد کچھ عرصے تک حکومت حرکت میں آتی ہے، بعد میں ان کیسز کا فالو اپ نہیں کیاجاتا۔ خیرپور ضلع میں منشا وسان کا واقعہ سندھ میں سخت عوامی ردعمل کا باعث بنا۔ لیکن بعد میں اس واقعہ پر جرگہ کرایا گیا۔ اس جرگے کی سہولتکاری کا الزام ضلع پولیس پر عائد کیا گیا۔ اس کے علاوہ تانیا خاصخیلی، صائمہ جروار سے لیکر نائلہ رند تک خود کشی کے واقعات میں کوئی انتظامی وقانونی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اس تناظر میں عصمت جونیجو کیس کے حوالے سے ضرور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کیس ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور لوگ اس بات کو بھول جائیں گے، کیا تب عصمت سے انصاف ہو سکے گا؟ حکومت اس کیس کو اتنی سنجیدگی کے ساتھ آگے لے کر جائے گی؟ سوال محکمہ صحت کی ساتھ ساتھناکامی کا بھی اٹھتا ہے۔ سندھ کے سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسگی کے واقعات زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سرکاری اداروں میں عورت کی محفوظ موجودگی کے لئے موثر اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔ یہ معاشرہ بہت ہی بھیانک تصوی ر دکھائے گا جب ہپستال کا کام جب علاج کے بجائے خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل بن جائے۔
عصمت جونیجو کا واقعہ اس لئے بھی غیر معمولی واقعہ ہے اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں تشدد پسند رویوں میں تبدیلی لانے کے لئے کتنے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عورتوں کو محفوظ سماج مہیا نہ کرنا حموتوں کی ناکامی ہے۔ عورت ملازمت کے دوران خود کو محفوظ نہیں سمجھتی، اور ملازمت چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہے، ایسے بھی واقعات ہیں جہاں ملازمت چھوڑنے کے بعد بھی ہراسگی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ ہسپتال کا تصور آتے ہی ایسا لگتا ہے کہ وہاں کوئی مریض پہنچے گا، تو صحتمند ہو کر نکلے گا۔ لیکن ہمارے ہاں ہسپتالیں مریضوں کے ساتھ جس طرح کا رویہ رکھتی ہیں اس سے لگتا ہے یہ ہسپتال مریضوں کی تکلیف دور کرنے کے بجائے ان کی تکالیف میں اضافے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ کراچی کے ایک نجی ہسپتال مین 9 سالہ نشوا غلط انجیکشن لگنے سے فوت ہو گئی۔ نشوا کو غلط انجیکشن لگتا کوتاہی ہو سکتی ہے لیکن عصمت جونیجو کو جنسی زیادتی کا نشاہ بنانے کے بعد زہر کا انجیکشن لگا کر ہلاک کر دینا سنگین جرم کے دائرے میں آئے گا۔ کئی میڈیکل سینٹرز ہیں جہاں چیک اینڈ بیلینس کا کوئی نظام نہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ علاج کے لئے آنے والوں کے ساتھ جنسی زیادتی یا غلط انجیکشن کے واقعات کیوں ہوتے ہیں؟ اکثرمیڈیکل سینٹرز میں غیر تربیت یافتہ عملہ ہوتا ہے۔ سرکاری ہپستال ہوں یا نجی دونوں جگہ یکساں صورتحال ہے۔ نجی ہسپاتلوں میں مریضوں اور ان کے ورثاء کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے، لیکن علاج کی مناسب سہولیات موجود نہیں۔
No comments:
Post a Comment