Saturday, May 4, 2019

ایڈز کے کیسز- سندھ میں خوف وہراس


سندھ نامہ  سہیل سانگی 
 ابھی پولیو کے قطرے پلانے سے انکار، اس مہم میں حائل مختلف رکاوٹوں اور ڈاکٹرز کے ہاتھوں غلط علاج کے باعث بچوں کی فوتگیوں تھر میں بچوں کی اموات روکنے میں ناکامی کے معاملات چل رہے تھے کہ سندھ بھر سے ایڈز پھیلنے کی خبریں آرہی ہیں، اس پر تاحال حکومت سندھ کا کوئی واضح اور مضبوط موقف سامنے نہیں آیا ہے۔  لاڑکانہ کے علاقے رتو دیرو میں ایڈز میں مبتلا مریضوں کی تعدادڈیرھ سو  ہو گئی ہے۔ سانگھڑ میں سات برس کے دوران 121  افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔، اسی مدت کے دوران اسکریننگ میں  2017افراد کو پازیٹو پایا گیا۔ حیدرآباد کے دیہی علاقوں میں چھ افراد موت کا شکار ہوئے جبکہ  پانچ نئے کیسز ظاہر ہوئے ہیں۔ حیدرآباد ضلع کے دو سو  سے زائد دیہات ابھی تک اسکریننگ  کے عمل سے محروم ہیں۔ شکارپور میں بھی ایڈز کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ ہر جگہ پر اسکریننگ ٹیسٹ  سے معذرت کر لی ہے۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر سندھ  ایڈز کے مطابق 2500 افراد کے ٹیسٹ کئے گئے جن میں سے 85 افراد اس مرض میں مبتلا پائے گئے۔ان روپرٹس کے بعد سندھ میں خوف وہراس پھیلا ہوا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات  فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت ایڈز  کے معاملے پر سندھ حکومت کی مدد کے لئے تیار ہے۔ میڈیا کے مطابق سندھ حکومت نے  ایڈز پر قابو پانے کے لئے عالمی ادارہ صحت سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھی بدخبر رپورٹ ہوئی ہے کہ مختلف ادویات کی قیمتوں میں سو فیصد سے تین سو فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ 
روزنامہ کاوش ادایے میں لکھتا ہے کہاکہ تازہ اطلاعات کے مطابق ایچ آئی وی وائرس یا ایڈز  میں سندھ افریقی ممالک  کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ اس بیماری کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ نے صوبے بھر میں تشویشناک صورتحال پیدا کردی ہے۔ کسی بھی ملک میں اگر گورننس کا نظام بہتر ہو جائے تو نصف سے زائد مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ان مسائل کا براہ راست تعلق گورننس سے ہوتا ہے۔ سندھ کا بنیادی مسئلہ بھی گورننس ہے۔ منتظمین نے شاید حکمرانی کو دل پشوری سمجھ لیا ہے۔صوبے بھی کوئی بھی محکمہ ایسا نہیں جس کی کارکردگی بہتر تو دور کی بات، اطمینان بخش بھی نہیں ہے۔ محکمہ صحت  اور ہمارا صحت کا نظام خود بیمار محکمہ ہے، جس کے علاج کی ضرورت ہے۔ صوبے میں ایڈز پروگرام چل رہا ہے، لیکن یہ پروگرام کس سیارے پر ہے؟ کچھ پتہ نہیں کم از کم سندھ میں تو نظر نہیں آتا۔  یہ مرض راتوں رات نہیں پھیلا۔ ابھی تو کئی اضلاع میں اسکریننگ نہیں ہوئی ہے، اگر سب اضلاع میں اسکریننگ ہوگی، یہ تعداد کہاں تک پہنچے  اسکریننگ کا نظام بہتر نہ ہونے اور  وائرل لوڈ ٹیسٹ مہنگے ہونے کی وجہ سے کئی متاثرہ افراد تشخیص اور رجسٹر ہونے سے رہ گئے ہیں۔ گزشتہ سال اپریل میں  اقوام متحدہ کے ایشیا پیسفک ریجنل سپورٹ پروگرام کے ڈائریکٹر  سندھ کے انتظامی سربراہ سے ملاقات کی تھی۔اس موقع پر سندھ کے انتظامی سربراہ نے یقین دلایا تھا کہ صوبے میں ایڈز پر کنٹرول  کرلیا گیا ہے۔صورتحال یہ بنی ہے کہ ایک سال گزرنے بعد سندھ حکومت نے عالمی ادارے سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔  زمینی حقائق اور اصل صورتحال سے روگردانی  کر کے کارکردگی دکھانے کے لئے جب صرف بیانوں پر زور  دیا جائے گا تو ایسی ہی صورتحال پیدا ہوگی۔ حکومت کا کام اچھی حکمرانی کے ذریعے  عوام کو  صحتمند ماحول اور سہولیات فراہم کرنا ہے۔ تاکہ  امراض نہ پھیلیں۔  لیک حکومت کا معیار یہ ہے کہ اس کی گورننس کے ذریعے امراض کے پھیلاؤ  کے لئے سازگار ماحول پید اکرتے ہیں او رجب کوئی فرد مرض میں مبتلا ہوتا ہے  تو اس کے علاج کے لئے سرکاری سطح پر کوئی مناسب بندوبت موجود نہیں ہے۔  

روز نامہ ”پنہنجی اخبار“  محکمہ آبپاشی کے آٹھ سال جو ضایع ہو گئے کے عنوان سے ادایے میں لکھتا ہے کہ صوبائی وزیر آبپاشی سید ناصر شاہ نے محکمہ میں 150  ارب روپے کی بیقاعدگیوں کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ضلع بدین کے بعض علاقوں مین پینے کا پانی دستیاب نہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ فصلوں کو چھوڑیں فی الحال صرف پینے کا پانی تو دیں۔  یہ اعترافات آٹھ سال کے بعد سننے مین آرہے ہیں۔ یہ محکمہ آٹھ سال سے وزیراعلیٰ سندھ ے پاس یرغمال بنا ہوا تھا۔ بلاشبہ وزیراعلیٰ کو قانونی طور رپر صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ بعض محکمے اپنے پاس رکھے۔ چونکہ ان کے پا س متعدد  کام ہوتے ہیں،  لہٰذا یہ سب  فرائض  احسن طریقے سے پورے کرنا  ا یک شخص کے  بس کی بات نہیں ہوتی۔ حیرت کی بات ہے کہ آٹھ برس تک حکومت نے پارٹی کے کسی ایک فرد کو بھی اس قابل اور اہل نہیں سمجھا کہ اسے اس اہم محکمہ کا قلمدان دیا جائے۔ وزیر آبپاشی کو  پانی فراہمی،  صوبے کے تمام کینالوں اور شاخوں میں شرع سے لیکر آخر تک کی دیکھ بھال،  صوبے کے لئے پانی کے حصے کا حصول یقینی بنانا،  پانی کی قلت خواہ سیلاب کی صورت میں انتظامکاری کرنا شامل ہوتا ہے۔ گھوٹکی سے لیکر بدین تک  پانی کی صورتحال کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ ارسا جیسے اداروں میں سندھ کے پانی کا کیس پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس تمام  فرائض نبھانے کے لئے افسران سے اجلاس کرنا، صورتحال معلوم کرنا اور ہدایات دینا ان کی ذمہ داریوں میں شال ہے۔  جب وزیراعلیٰ سے ملاقات ہی مسئلہ ہو،  ایسے میں انجیئر یا کسی اور آبپاشی افسر کی ان تک رسائی کتنی ممکن ہو سکتی تھی؟ آٹھ سال کے دوران یہ سب کچھ نہ ہو سکا۔اب صورتحال یہاں تک پہنچی ہے کہ کینالوں اور شاخوں میں مٹی اڑ رہی ہے فصلیں سوکھ رہی ہیں، زیرزمین پانی کڑوا ہو چکا ہے، دیہی علاقوں میں پینے کا پانی بھی دستیا ب نہیں۔  ظاہر ہے کہ وزیراعلیٰ کی انتظامی اور سیاسی مصروفیت یہ سب کام دیکھنے کے آگے رکاوٹ بنی رہی۔اب بدترین صورتحال پیدا ہونے اور عوامی دباؤ کے نتیجے میں وزیراعلیٰ نے یہ قلمدان سید ناصر شاہ کے حوالے کیا ہے۔ان کے پاس  زمینی صورتحال کا اعتراف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اعتراف اچھی بات بات ہے کیونکہ یہ حقیقت پسندی کی علامت  ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف اعتراف کرنے سے مسائل حل ہو جائیں 
 گے؟  قلمدان سنبھالنے کے بعد آبپاشی کے نئے وزیر موصوف کہتے ہیں کہ 150  ارب روپے کی کرپشن نہیں بلکہ بے قاعدگی ہے۔ قبلا قواعد وضوابط  توڑے ہی کرپشن کے لئے جاتے ہیں۔ وزیر کا تقرر مثبت عمل ہے لیکن سندھ کے آٹھ سال جو ضایع ہو گئے وہ تو واپس نہیں آ سکتے اور نہ ہی ان کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment