گورنر سندھ کے خلاف سندھ متحد ہوگیا
سندھ نامہ سہیل سانگی
گورنر سندھ عمران اسماعیل کے سندھ کی وحدت کے خلاف بیان پر سندھ بھر سے شدیدردعمل آیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے علاوہ قوم پرستوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی نے احتجاج کر کے گورنر سندھ سے استیعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ میڈیا میں مضامین، اور بیانات کے علاوہ کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں مظاہرے کئے گئے۔
احتجاج کرنے والوں کا موقف ہے کہ گورنر کا عہدہ آئینی ہے اور آئین انہیں اس طرح کا بیان دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ گورنر آئینی حدود میں رہیں اور سیاسی بیانات دینے سے گریز کریں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گورنر سندھ میں بسنے والوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ردعمل کے بعد گورنر نے یو ٹرن لیا اور کہا ہے کہ سندھ مادر وطن ہے میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
گورنر کے اس وضاحتی بیان کے باجود جمعرات کو مظاہرے ہوئے۔ پی ٹی آئی کی اتحادی قومی عوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو نے کہا ہے کہ بعض عالمی قوتیں پاکستان کو توڑنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ہزارہا سال سے سندھ کے باسیوں کا وطن ہے، یہ کوئی فتح کیا ہوا علاقہ نہیں، بلکہ ملک کا بانی صوبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اور صوبائی اسمبلی اور سینیٹ یہ قرارداد منظور کریں کہ جو سندھ کو تقسیم کرنے کی بات کرے گا ا س کے خلاف آئین کی شق چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا۔
گورنر کے اس بیان نے سندھ میں پی ٹی آئی کی پوزیشن کمزور کردی ہے۔ اس کے اتحادی بھی فاصلہ کر ررہے ہیں جبکہ پارٹی کارکنان چھپتے پھر رہے ہیں۔ بعض مقامات پرلوگوں نے رضاکارانہ طور پر اپنی پارٹی یعنی پی ٹی آئی کے جھنڈے بھی اتار دیئے ہیں۔ کراچی کے مظاہرے میں اردو کی دو مشہور لکھاری خواتین زاہدہ حنا اور فاطمہ حسن نے ببھی شرکت کی۔
”گورنر صاحب! مستعفی ہوں یا آئینی حدود میں رہیں“ کے عنوان سے ”روزنامہ پہنجی اخبار“ اداریے میں لکھتا ہے کہ شاید گورنر سندھ عمران اسماعیل کو کسی نے نہیں بتایا کہ وہ جس آئینی منصب پر ہیں اس کی کچھ حدود اور دائرہ کار ہے۔ وہ صوبے میں وفاق کے نمائندہ ہیں۔ ان کی ذمہ داری وفاق اور صوبے کے درمیان توازن رکھنا ہے نہ کہ تعلقار بگاڑنا ہے۔ گزشتہ روز ایک انٹرویو میں انہوں نے سندھ میں انتظامی بنیاد پر نئے صوبے بنانے کی بات کی بلکہ اس کی حمایت بھی کی۔ جس کی وجہ سے ان کا منصب داغدار ہو گیا۔ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہگورنر کا عہدہ رکھنے کے لئے مناسب اہلیت کیا ہوتی ہے۔ تاہم یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ اس منصب پر موجود شخص کو تاریخ، جغرافیہ اور آئین کی بنیادی معلومات تو ہونی چاہئے۔ کیا گورنر صاحب بتا سکتے ہیں کہ آئین میں نئے صوبوں کی کہاں اور کس طرح سے گنجائش ہے؟ گورنر کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس طرح کے بیانات صرف گورنر کے نہیں وفاق کا موقف سمجھے جائیں گے۔ اس موقف پرشدید ردعمل کے بعد انہوں نے وضاحت جاری کی ہے کہ ان کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ قبلا! یہ ڈیجیٹل دور ہے، جس کا ریکارڈ بن بھی رہا ہے اور ہر ایک کے پاس موجود بھی ہے، آپ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک نہیں سکتے۔ اگر گورنر صاحب کو سیاسی بیان دینے کا شوق ہے تو عہدے سے مستعفی ہوجائیں، بعد میں بڑے شوق سے سیاسی بیانات دیتے رہیں۔
گزشتہ ہفتے حکومت سندھ کے تین اہم فیصلے سامنے آئے ہیں جو صوبے کی معاشی اور ترقیاتی صورتحال پر اثرانداز ہونگے۔سندھ حکومت نے مالی بحران کے باعث نئے بجٹ میں نئے ترقیاتی منصوبے شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ فنڈز کی کمی اور افسران میں ڈر کی وجہ سے ترقیاتی منصوبے متاثر ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ وفاق نے صوبے کے حصے کی رقم جاری نہیں کی، لہٰذا صوبے میں ترقیاتی کام بند ہورہے ہیں۔ سندھ صوبے میں ترقی نہ ہونے کا الزام وفاق پر دھر رہا ہے۔
صوبائی حکومت نے ایک اور اہم فیصلہ کیا ہے کہ تیل اور گیس کی مد میں ملنے والی رقومات ایم این یاز اور ایم پی ایز کے ذریعے خرچ کی جائے گی۔ اس کا طریقہ کار یہ رکھا جائے گا کہ صوبائی حکومت اراکین اسمبلی سے تجاویز طلب کرے گی اور ہر ایک کی سفارش پر چار کروڑ روپے خرچ کرے گی۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ دینے سے انکار کردیا ہے۔ سانگھڑ، خیرپور، گھوٹکی، ٹنڈو محمد خان اور سجاول سمیت مختلف اضلاع میں کام کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے دی گئی رقومات اکاؤنٹس میں موجود ہے۔ یہ رقم اتنی بتائی جاتی ہے کہ ہر رکن اسمبلی کو ترقیاتی منصوبوں کے لئے چار کروڑ روپے دیئے جائیں۔
ادھرسرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ تمام کمپنیوں میں صرف چار ہزار 911مقامی ملازم ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد تیل کمپنیوں میں کام کرنے والے اعدا و شمار سامنے آئے ہیں۔
سندھ حکومت نے رواں سال گندم خرید نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کاشتکاروں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ گندم اپن مارکیٹ میں فروخت ہورہی ہے۔ سرکاری طور پر گندم خرید نہ کرنے کے باعث کاشتکاروں کا ابھی تک اکیس ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ موجودہ وقت میں مارکیٹ میں گندم 1200 روپے من ہے ایک ماہ بعد جب مارکیت سے گندم ختم ہو جائے گی تب اس کی قیمت 1800 روپے من ہوگی۔ صوبے میں تقریبا 40 لاکھ ٹن گندم پیدا ہوتی ہے۔ سندھ حکومت 14 سے 16 لاکھ ٹن گندم کاشتکاروں سے خرید کرتی ہے۔ باقی گندم تاجر خرید کرتے ہیں۔ حکومت کو اگر گندم خرید کرنی ہوتی تو مارچ میں کرتی۔ سال بھر گندم 1200 سے 1325 روپے فی من کے حساب سے دستیاب ہوتی ہے۔ کیونکہ تاجروں کو پتہ ہے کہ اگر انہوں نے قیمت مزید بڑھائی تو حکومت اپنی گندم مارکیٹ میں ڈال دے گی۔ رواں سال بلیک مارکیٹرز اور ذخیرہ اندوزوں نے گندم خرید کی ہے۔ سیزن گزرنے کے بعد گندم کی قیمت بڑھ جائے گی اور آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔
No comments:
Post a Comment