افغان
پناہ گزین ، ٹڈی دل اور سندھ
سندھ
نامہ سہیل سانگی
28-Jun-2019
ابھی سندھ صوبے میں ایچ
آئی وی سے لڑ رہا تھا کہ دو اور مسائل افغان پناہ گزینوں کے قیام میں توسیع اور ٹڈی
دل کے حملے کی لپیٹ میں آگیا ہے۔” روزنامہ پنہنجی اخبار“ لکھتا ہے کہ پاکستان میں
افغان پناہ گزینوں کے قیام کی مدت تیس جون کو ختم ہو رہی ہے۔ قرضوں کی دل دل میں
پھنسے پاکستان کے شہریوں کی حالت بھی پناہ گزینوں سے کم نہیں۔ باقی سہولیات کو
چھوڑیئے، پانی کا صاف پانی بھی میسر نہیں لوگ گٹر کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ پناہ
گزینوں کو ٹہرانے والاپاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ جبکہ امن و امان کے حوالے
سے پاکستان دنیا میں 153 نمبر پر ہے۔ضیا
¾ دور سے لیکر ان
پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں مسلسل توسیع کی جاتی رہی ہے۔ سیکیورٹی اداروں نے
بھی ان پانہ گزینوں کو امن و امان خراب کرنے کے لئے ذمہ دار قرار دیا ہے۔ وزیراعظم
عمران خان بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائیم افغاان پناہ گزین
ملوث ہیں۔ ان میں سے اکثر کے پاس روزگار نہیں، تو پھر ان کی قیام کی مدت میں کیوں
تودیع کی جارہی ہے؟ افغان پناہ گزینوں کو ٹہرانے کی وجہ سے دہشتگردی اور انتہا
پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ درگاہ قلندر شہباز، مزار نورانی اور دیگر مقامات ان کے
نشانے پر رہے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور بھ اور باچا خان یونیورسٹی کے واقعات کے بعد
عوام میں غم و غصے کی لہر دور گئی۔ اور تمام حلقے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا
مطالبہ کرنے لگے۔ تب سیکیورٹی ادارے بھی حرکت میں آئے اور سرچ آپریشن کر کے ہزاروں
کی تعداد میں پاکستان میں مقیم افغان پناہگزینوں کو واپس بھیج دیا گیا۔ وقت گزرنے
کے ساتھ ہم واقعات اور زخم بھول جاتے ہیں اور کسی نئے سانحے کاانتظار کرنے لگتے ہیں۔
ہم غیر ممالک سے قرضے لیکر اپنے شہریوں کو پا ل رہے ہیں۔
یہ امر فہم سے
بالاترہے کہ سال ہا سال سے ان پناہ گزینوں کی تعداد وہی 14 لاکھ باتئی جارہی ہے۔
جبکہ سب جانتے ہیں کہ غیر رجسٹرڈ افغان پانہ گزینوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان میں
سے چالیس لاکھ سندھ میں آبادہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان نے اپنی تقریر میں
کہا تھا کہ افغان بارڈر کھلا رہنا چاہئے۔ بعد میں ان کے شناختی کارڈبنا کر دینے کی
بھی بات ہوئی۔ اگست 2016 میں پناہ گزینوں کے ایک وفد نے عمران سے ملاقات کی تو
انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ انہیں زبردستی واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ حکومت میں
آنے کے بعد عمران خان نے چلایس ہزار ٹن گندم بطور امدا افغانستان کو بھیجی، جب تھر
میں قحط کی وجہ سے بچوں کی اموات واقع ہو رہی تھی۔ وفاقی حکومت نے اس قحط زدہ
علاقے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ آگے چل کر یہ بھی انکشاف ہوا کہ 90 ہزار افغانیوں نے
پاکستان کے شناختی کارڈ بنوا لئے ہیں۔ بعد میں یہ کارڈ بلاک کرنے کی بھی خبریں آئیں۔
لیکن بتدریج یہ بلاک کارڈز کھول دیئے گئے۔ابھی وفاقی حکومت نے چیف سیکریٹری سندھ
کو خط لکھ کر غیر قانونی طور قیام پذیر تارکین وطن کو نادرا کے ذریعے رجسٹر کرنے
سے متعلق تجاویز طلب کی ہیں۔ گزشتہ سال جنرل باجوہ نے میونخ میں کہا تھا کہ حقانی
نیٹ ورک اور طالبان افغان پناہ گزین کیمپوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے
کہ انہیں باعزت طریقے سے واپس اپنے وطن بھیج دیا جائے۔ یہ تارکین وطن بتدریج سندھ
کے وسائل پر قبضہ کر رہے ہیں۔ اگر وفاقی حکومت پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں توسیع
کرنے جارہی ہے تو اس پر سندھ کو بھرپور آواز اٹھانی چاہئے۔ سندھ حکومت کو سخت موقف
اختیار کرنا چاہئے۔
سندھ اسمبلی نے تقریبا
بارہ کرب روپے کا سالانہ بجٹ منظور کر لیا ہے۔ اپوزیشن نے 543 کٹوتی کی تحاریک پیش
کیں جنہیں اسمبلی نے مسترد کردیا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بجٹ کو سمیٹتے
ہوئے کہا کہ مالی بحران سندھ کی وجہ سے نہیں وفاقی حکومت کی وجہ سے ہے۔ اس سے پہلے
ضمنی بجٹ کی منظوری کے موقع پر وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ مجھے ہٹانے کی
باتیں ہو رہی ہیں، بھلے سب کو گرفتار کرلیا جائے، جب تک اللہ اور پارٹی چاہے گی میں
وزیراعلیٰ رہوں گا۔ انہوں نے اس امر پر بھی تعجب کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ کے ایک
جج نت بغیر کسی عدالتی فیصلے کے پورے سندھ صوبے کا کرپٹ قرار دے دیا ہے۔
سندھ
کی میڈیا کے مطابق سندھ کے چھ اضلاع ٹڈی دل کی لپیٹ میں ہیں جس کی وجہ سے زرعی
فصلوں کو زبردست نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔ سندھ کے میدانی اور زرعی بیلٹ پر ٹڈی
دل کی لپیٹ میں ہے۔ مٹیاری، دادو، جامشورو، نوابشاہ، نوشہروفیروز، سانگھڑ، اور خیرپور
اضلاع میں داخل ہو چکے ہیں۔ اب ان کا رخ پنجاب کی طرف ہے۔ اڑنے والے کیڑے پر
کنٹرول نہیں کیا گیا تو زرعی شعبے کو بڑانقصان پہنچے گا۔اگرچہ ٹڈی دل کا حالیہ
لشکر مارچ میں ایران میں داخل ہو چکا تھا، لیکن وفاق و صوبائی حکومت بلوچستان اور
سندھ نے پیشگی تیاری نہیں کی۔ضلعی حکام سندھ حکومت کو خطوط لکھ رہے ہیں۔ مون سون کی
وجہ سے ان کی افزائش نسل میں اضافہ ہوگا۔ اس کے بعد صورتحال اور بھی خطرناک ہو
جائے گی۔
پاکستان
میں پچاس، ساٹھ اور نوے کے عشروں میں ٹدی دل کے حملے ہوئے تھے۔ آخری مرتبہ ٹڈی دل
کا حملہ پاکستان میں 1993 اور 1997 میں ہوا تھا۔ ایک مرتبہ پھر بلوچستان سے لیکر
سندھ کے مخلتف اضلاع کے تین لاکھ مربع کلو میٹر کے علاقے میں پھیل چکے ہیں۔ اس کے
بعد یہ پنجاب کے ریگستانی علاقوں میں بھی داخل ہونگے۔ اس مرتبہ افریقہ کے ممالک
سوڈان اور اریٹریا سے شروع ہوا اور یمن، سعودی عرب سے ہوتے ہوئے ایران پہنچے جہاں
چار لاکھ مربع کلومیٹر کو متاثر کیا۔ یہاں سے یہ کیڑا بلوچستان میں داخل ہوا۔
تربت، دشت، گوادر، جیوانی، لسبیلہ، خضدار، اتھل، خاران دالبدین وغیرہ میں انہیں
کنٹرول رکنے کی کوشش کی گئی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت اور عالمی ادارے
فوری طور پر حرکت میں آئیں۔
https://www.naibaat.pk/28-Jun-2019/24330
https://www.pakistantoday.com.pk/2019/06/28/govt-allows-afghan-refugees-to-stay-in-pakistan-for-another-year/
https://www.pakistantoday.com.pk/2019/06/28/govt-allows-afghan-refugees-to-stay-in-pakistan-for-another-year/
The federal government has decided to extend the stay of registered Afghan refugees living in Pakistan till June 30, 2020.
The decision, notified by the Ministry of States and Frontier Regions (SAFRON), comes during Afghan President Ashraf Ghani’s ongoing visit to Pakistan and days before the current extension ends on June 30, 2019.
“In pursuance of approval of the Federal Cabinet conveyed vide Cabinet Division’s Memorandum No.550(S)/Rule-19/2019-Cab, dated 27 June, 2019, the Government of Pakistan is pleased to extend the Validity in respect of Tripartite Agreement, Proof of Registration (PoR) Cards till 30-06-2020,” read the notification.
The ministry also announced an extension in the validity of Afghan Citizen Cards (ACC) till October 31, 2019.
Prime Minister Imran Khan also informed the Afghan president about the Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) government’s decision.
As per data collected by the United Nations High Commissioner for Refugees (UNHCR), there were 1,405,715 registered Afghan refugees and 210,465 Afghan families in Pakistan as of June 3, 2019.
The UN refugee agency defines registered Afghans as those who have valid Proof of Registration (PoR) cards issued by the Pakistani government.
The data shows the agency facilitated voluntary repatriation of 4,374,208 Afghan refugees from 2002 till December 4, 2018.
This year – till June 24, 2019 – UNHCR has facilitated the voluntary repatriation of 2,036 Afghan refugees.
At the UNHCR hosted and chaired 30th Tripartite Commission Meeting in Islamabad on June 18, Pakistan, Afghanistan and the refugee agency reaffirmed their commitment to uphold the principle of voluntary repatriation – in safety and dignity – under the Tripartite Agreement.
They called for enhanced efforts to create an environment conducive to voluntary return and sustainable reintegration in Afghanistan, and vowed to continue supporting the host communities in Pakistan, within the framework of the Solutions Strategy for Afghan Refugees (SSAR).
All three stakeholders also expressed concern at the decrease in the voluntary repatriation grant provided to Afghan refugees and encouraged the international community to increase the cash grant to its previous level of approximately $400 per individual.
June 29, 2019
پاکستان میں وفاقی کابینہ نے اُن افغان مہاجرین کے قیام میں مزید ایک سال کی توسیع دے دی ہے جو پی او آر یعنی پروف آف رجسٹریشن کارڈز کے حامل ہوں جبکہ افغان سٹیزن کارڈز رکھنے والے افغانوں کی رہائش میں رواں سال 31 اکتوبر تک کے لیے توسیع کی گئی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے افغان مہاجرین یو این ایچ سی آر نے پاکستانی حکومت کے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پریشانی اور غیریقینی کی صورتحال سے دوچار افغان مہاجرین کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔
پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا ادارہ ایک سال کی مزید توسیع کے اس فیصلے اور افغانوں کی بہترین مہمانداری کرنے پر پاکستانی حکومت اور عوام کا شکرگزار ہے، جو چار دہائیوں سے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یواین ایچ سی آر پاکستان کو ان پریشان مہاجرین کے لیے ایک ایسا میزبان تصور کرتی ہے جس کی مثال دی جاسکتی ہے اور کہا کہ ان کا ادارہ اس بہترین کردار کے لیے پاکستان کی مکمل حمایت جاری رکھے گا۔
یوں تو پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد ایک اعشاریہ چار ملین یعنی 14 لاکھ ہے لیکن بہت سارے افغان ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو مہاجر کے طور پر رجسٹر نہیں کروایا۔ ایک اندازے کے مطابق ان رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغانوں کی مجموعی تعداد 40 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان نے سال 2017 میں ایسے آٹھ لاکھ افغانوں کو، جو مہاجر کے طور پر پروف آف رجسٹریشن کے حامل نہیں ہیں، کو افغان سٹیزن کارڈ کے ذریعے رجسٹر کیا تھا۔
پاکستان کی وزارت برائے سٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجنز سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے سہ فریقی معاہدے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں پی او آر کارڈز کے حامل افغانوں کو مزید ایک سال تک قیام کی منظوری دی ہے جبکہ افغان سٹیزن کارڈز کے حامل لوگوں کے لیے مدتِ قیام میں رواں سال کے اکتوبر کی آخری یعنی 31 تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ سہ فریقی کمیشن کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں افغانستان، پاکستان اور یو این ایچ سی آر کے حکام شامل ہوتے ہیں اور یہ ایک طرح کی گورننگ باڈی کا کام کرتی ہے۔ پاکستان میں سیفران جبکہ افغانستان میں مہاجرین کے وزیر اس کمیشن کے اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں جبکہ دونوں ملکوں میں یو این ایچ سی آر کے حکام اس کمیشن کا حصہ ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کا آخری اجلاس چند روز قبل ہی اسلام آباد میں ہوا تھا۔
قیصر آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان دنیا بھر میں غیرملکی مہاجرین کو پناہ دینے والا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں پر 14 لاکھ افغان مہاجرین زندگی گزار رہے ہیں جبکہ دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے والا ملک ترکی ہے جہاں پر 37 لاکھ مہاجر رہائش پذیر ہیں۔
اسلام آباد میں 20 جون کو مہاجرین کے عالمی دن کی مناسبت سے ہونے والی تقریب سے خطاب کے دوران یو این ایچ سی آر کے نمائندوں نے بتایا تھا کہ اس وقت دنیا بھر میں 85 فیصد مہاجرین ترقی پذیر ممالک میں آباد ہیں جبکہ صرف 15 فی صد ترقی یافتہ ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر سیفران شہریار آفریدی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک 85 فیصد مہاجرین کا بوجھ اٹھارہے ہیں خصوصاً پاکستان، جسے خود بھی مالی بحران کا سامنا ہے، گذشتہ چار دہائیوں سے اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے۔
کابینہ اجلاس کے بعد وزارت سیفران سے جاری اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کابینہ نے توسیع کے ساتھ ساتھ 18 جون کو اسلام آباد میں اس حوالے سے ہونے والے سہ فریقی اجلاس کے اعلامیے کی بھی منظوری دی۔ مذکورہ سہ فریقی اجلاس میں پاکستان، افغانستان اور یو این ایچ سی آر کے وفود نے شرکت کی تھی، جس کے اعلامیے میں 40 سال تک اتنی بڑی تعداد میں افغانوں کی مہمانداری کرنے پر اس کے کردار کی تعریف کی گئی تھی۔ اس اجلاس میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ ان افغانوں کو رضاکارانہ اور باعزت طریقے سے وطن واپس لوٹنے کے قابل بنایا جائے گا۔ سہ فریقی اجلاس کے اختتامی بیان میں رضاکارانہ وطن واپس لوٹنے والوں کے لیے رقم میں کمی پر تشویش ظاہر کی گئی تھی اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس رقم میں اضافہ کیا جائے۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ سال 2002 سے اب تک 43 لاکھ افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر واپس لوٹ چکے ہیں جو کہ یو این ایچ سی آر کی تاریخ میں سب سے بڑی رضاکارانہ واپسی سمجھی جارہی ہے۔ ان ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ افغان سال 2016 میں اُس وقت واپس وطن لوٹے، جب واپس جانے والے ہر افغان کے لیے گرانٹ 200 ڈالر سے بڑھا کر 400 ڈالر کی گئی، تاہم بعد ازاں سال 2017 میں یہ گرانٹ واپس کم کرکے 200 ڈالر فی کس کردی گئی۔ پاکستان کی جانب سے فی کس گرانٹ کو واپس 400 ڈالر کرنے کے لیے کوششیں بھی کی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ افغان وطن واپس جاسکیں۔
No comments:
Post a Comment