سندھ نامہ سہیل سانگی
میڈیا کی رپورٹس کے مطابق وفاقی حکومت غربت مٹاؤ منصوبے کے تحت بعض پروگرام شروع کرنا چاہ رہی ہے۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ وفاقی حکومت بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کا پہلے نام تبدیل کرنا چاہ رہی تھی، اب اس پروگرام کو چھوٹا کر کے اس کے بجائے اپنے ڈیزائن کئے ہوئے پروگرام لانا چاہ رہی ہے۔ حکمران جماعت کا خیال ہے کہ گزشتہ انتخابات میں سندھ میں پیپلزپارٹی نے اس پروگرام کا سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔ وفاقی حکومت کی اس حکمت عملی کے توڑ کے طور پر سندھ حکومت نے غربت گھٹانے کے پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ نوجوانوں اور خواتین کو چھوٹے قرضے دینے، نوجوانوں کو اسکالرشپ دینے، بینظیر کسان کارڈ جاری کرنے، مدر اینڈ چائلڈ سپورٹ پروگرام شروع کرے گی۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ کے احتجاج کے باوجود و صوبے کی 15 ارب روپے مالیت کی 36 منصوبے وفاقی ترقیاتی پروگرام میں سے نکال دیئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم کی زیر صادرت منعقدی قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس نے مرکز اور صوبوں کے لئے کل 1837 ارب روپے کے منصوبوں کی منظوری دی۔وزیراعلیٰ سندھ کا موقف ہے کہ سندھ میں جاری منصوبے شامل نہ کرنا ناانصافی ہے۔ ان کا کہناہے کہ اس ضمن میں ان سے کوئی مشاورت بھی نہیں کی گئی۔ رواں سال سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے گزشتہ سال کے مقابلے میں بھی کم رقم رکھی گئی ہے۔ ترقیاتی پروگرام میں دس ارب پودے لگانا، وزیراعظم اسکل ڈوپلمنٹ پروگرام، لائن آف کنٹرول کے متاثرین کی بحالی، گلگت، چترال اسکردو روڈ کی تعمیر، گلگت میں سیوریج اور سنیٹیشن نظام میں بہتری کے پی شامل کردہ فاٹا کے اضلاع کی ترقی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے اہم جز ہیں۔ ان منصوبوں میں سکھر بیراج کی بحالی، جامشورو سیوہن روڈ کی تعمیر، سدرن بائی پاس میرپورخاص عمر کوٹ روڈ کی تعمیر، گریٹر کراچی واٹر سپلائی اسکیم، اور محکمہ آبپاشی کے چار منصوبے شامل ہیں۔ ان منصوبوں پر پہلے اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔
اس صورتحال پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ خود سخت موقف اختیار کئے ہوئے ہیں، انہوں نے صحافیوں کو وفاقی حکومت کے مجوزہ پی ڈی ایس پی کی کاپی بھی دکائی اور کہا کہ وفاقی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت رواں مالی سال کے دروان 78 ارب روپے خرچ ہوئے جس میں سے سندھ پر صرف ایک ارب روپے خرچ کئے گئے۔ شہدادکوٹ بائی پاس، حیدرآباد بائی پاس، نادرن بائی پاس، سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام اور مہران یونیورسٹی کا ایک ایک منصوبہ، منچھر جھیل کے پانی کو صاف کرنے کا منصوبہ، کے بی فیڈر کی لائننگ شامل ہیں۔
تازہ اطلاعات کے مطابق سندھ میں پانچ ہزار سے زائد عطائی ڈاکٹروں کی کلینکس ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ سب سے زیادہ عطائی ڈاکٹر سانگھڑ میں ہیں جہاں یہ تعدا ۷۹۶ ہے۔میرپورخاص دوسرے نمبر پر ہے
”روز نامہ پنہنجی اخبار“ لکھتا ہے کہ اب لگتا ہے کہ ہم بیماریوں کے معاملے میں خود کفیل ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز مملکتی وزیر برائے صحت ظفر مرزا ایڈز کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے سندھ آئے تھا، جہاں انہوں نے ان اعتراف کیا کہ پاکسیان میں میں ہیپیٹائیٹس کا مرض سب سے زیادہ ہے۔ اس بیماری کے حوالے سے پاکستان کا پہلے نمبر پر ہونے پر ہمیں کوئی شک نہیں۔ یہ بیماری زیادہ تر آلود پانی پینے سے پھیلتی ہے۔ ملک میں کئی برسوں سے پینے کے پانی کی صورتحال یہ ہے کئی مقامات پر انسان تو چھوڑیں جانوروں کے پینے کے لائق بھی پانی نہیں۔ یہ پانی انسان استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ سندھ میں باقی صبوں کے مقابلے میں صورتحال زیادہ خراب ہے۔ جہاں لاکھوں مریض ہیپیٹائٹس بی اور سی میں مبتلا ہیں۔ سندھ ہپیٹائیٹس کنٹرول بورڈ کے صرف گزشتہ سال کے جاری کردہ اعدا وشمار صدمے کی صورتحال پیش کرتے ہیں۔صرف ایک سال کے دوران تیس ہزار کیس ظاہر ہوئے۔ اگرچہ ہیپٹائیٹس کنٹرول بورڈ صوبے میں ہیپٹائیٹس کے مریضوں کی تعداد اڑھائی لاکھ بتاتا ہے۔یہ وہ مریض ہیں جو صوبے کے علاج معالجے کے مراکز پر رجسٹرڈ ہیں۔ صوبے میں لاکھوں ایسے مریض موجود ہیں جو ان مراکز تک نہیں پہنچ سکے ہیں اور خود کو رجسٹرڈ نہیں کراسکے ہیں۔ سندھ حکومت کا دعوا ہے کہ صوبے بھر میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر اس مرض کے علاج کے 61 مراکز سور 17 اسکریننگ اور ویکسینیشن سنیٹرز ہیں۔ کبھی زحمت کر ے وہاں موجود ادویات، ویکسین اور عملے کی موجودگی کا جائزہ لیا جاتا کہ یہ سب سرزمین پر موجود بھی ہیں یا نہیں؟
ہپٹائیٹس کنٹرول انتظامیہ کا کام مرض میں مبتلا ہونے کے بعد علاج کرنا نہیں بلکہ اس سے پہلے حفاظتی اقدامات لینا ان کے فرائض میں شامل ہے، تاکہ لوگ اس مرض میں مبتلا ہونے سے بچ سکیں۔ سندھ میں واٹر کمیشن کے قیام کے بعد جو ہوش اڑانے والے انکشافات ہوئے ان میں کہا گیا کہ پینے کے پانی اور گٹر کے پانی میں کوئی فرق نہیں۔ کئی شہروں میں سیوریج لائینز پینے کے پانی کی لائنوں سے مل گئی ہیں۔ دنیا جہان کا گند کچرہ کینالوں اور شاخوں میں ڈالا جا رہا ہے جہاں سے ملنے والا پانی انسانی آبادی کے استعمال میں صوبے کے دوردراز علاقوں میں واٹر سپلائی کا کوئی نظام نہیں، لہٰذا لوگ یہاں پر کھڑے ہوئے پانی کے گڑھوں سے پینے کا پانی حاصل کرتے ہیں۔ یہ بھی رپورٹس ہیں کہ کئی مقامات پر زیر زمین پانی کڑوا اور قابل استعمال نہیں۔ ایسے میں لوگوں کو اس موتمار بیماری سے کون بچائے گا؟؟ اصل کام بیماری کی جڑ کو ختم کرنا ہے۔ وہ اسباب ڈھونڈنے اور ان کو ختم کرنا ہے۔ ایسا کرکے ہر سال اس مرض میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کو روکا جاسکتا ہے۔ واٹر کمیشن کی رپورٹ کے بارے میں صوبائی حکومت کی غر سنجیدگی اس مرض کو بڑھا رہی
ہے۔ صوباء حکومت کا رویہ اپنی جگہ پر، مملکی وزیر کے فراخدلی کے ساتھ اعتراف پر تعجب ہی کیا جاسکتا ہے۔ کیا صرف اعتراف کرنے سے مرض ختم ہو جائے گا؟ اگر وفاقی حکومت تین ہسپتالیں اپنی تحویل میں لینے کے لئے جلدی کر سکتی ہے، اس طرح کے ہنگامی اقدامات ایڈز اور ہیپٹائیٹس کے خامے کے لئے بھی لے سکتی ہے۔
https://www.darsaal.com/columns/sohail-sangi/sindh-ke-masail-zimmedar-kaun-13423.html
https://www.darsaal.com/columns/sohail-sangi/sindh-ke-masail-zimmedar-kaun-13423.html
No comments:
Post a Comment