Wednesday, February 5, 2014

تھرکول منصوبہ: چند سوالات


وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے جمعہ کے روز تھر میں کوئلے کے پروجیکٹ کا افتتاح کے پروگرام کے بعد سندھی اخبارات میں یہ معاملہ حاوی رہا۔ تمام اخبارات نے اداریوں، مضامین،کالموں کے ذریعے اس پروجیکٹ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے ۔ اخبارات نے اس بات پر متفق ہیں کہ ایک طویل عرصے سے کوئلے کے ذخائر کی جو بات کی جارہی ہے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ اس خزانے کا مقامی آبادی کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ملنا چاہئے، کیونکہ تھر ایک پسماندہ علاقہ ہے جہاں ہر دوسرے سال قحط پڑتا ہے۔ اس علاقے کے لوگوں کی ترقی اور خوشحالی کا واحد ذریعہ کوئلہ بن سکتا ہے۔ اس کے علاہ کوئی ذریعہ یا وسیلہ موجود نہیں۔ لہٰذا ان وسائل کو بھرپور طریقے سے ان غریب لوگوں کی بہتری کے لیے استعمال کو یقینی بنایا جائے۔

روزنامہ سندھ ایکسپریس ’’تھر کا کوئلہ کس کے لیے؟‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف تھر میں اسلام کوٹ کے قریب گاؤں سنہری درس میں تھر کول پروجیکٹ کا ا فتتاح کرنے پہنچ رہے ہیں۔ یہ ان کا تھر کا پہلا دورہ ہے۔ اور اس تقریب میں سابق صدر آصف علی زرداری اور حکومت سندھ کے تمام ذمہ داران بھی موجود ہونگے۔ اچھی بات ہے کہ سندھ اور وفاقی حکومتوں کو تھر کے ریگستانوں میں موجود اس کالے سونے کی یاد آئی۔ اس سے پورے ملک کو فیضیاب کرنے کے لیے اگرچہ طویل مدت سے کوششیں کی جارہی ہیں۔لیکن ترقی کے اس خواب کے بعض حقائق ایسے بھی ہیں جس کا ذکر کبھی بھی حکمرانوں کی زبان سے سننے میں نہیں آیا۔ صوبائی خواہ وفاقی حکومتیں یہی کہتی رہی ہیں کہ اس کوئلے سے ملک کی توانائی کی تقدیر بدل جائے گی۔ اور ہماری تاریکیاں روشنیوں میں بدل جائیں گی۔ اور بھی بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے۔ مگر اس ضمن میں تاحال کوئی مستحکم پالیسی سامنے نہیں آئی ہے۔ جس میں حکمران یہ بتا سکیں کہ تھر کے جن علاقوں سے یہ خزانہ ملا ہے یہ زمین اصل میں جن لوگوں کی ہے اب ان کا کیا ہوگا؟ جن لوگوں کے گاؤں، گھر اسکول اور جینے کے وسائل اور ذرائع ہیں یہ سب سلسلہ پہلے کی طرح چلتا بھی رہے گا ؟

اس معاملہ کا مقامی حوالہ یہ ہے کہ تھر کے لوگ ایک طرف ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے کی امید لگائے ہوئے ہیں تو دوسری طرف پریشان بھی ہیں۔ وہ اس لیے کہ جو بھی ترقی کی بات کی جارہی ہے، اس میں مقامی لوگوں کو بڑی حد تک نظرانداز کرنے کی شکایات ملی ہیں۔ وہ لوگ جن کی کئی نسلیں یہاں پر زندگی گزار چکی ہیں، ان کے گاؤں چراگاہیں، اور زمینیں ہیں۔ یہ سب کچھ ان کے اپنے تھے اور اپنے ہی لگتے تھے۔ مگر جب سے کمپنیوں نے ان راستوں کو اپنے لیے پختہ کیا ہے ، یہ سیاہ راستے ان لوگوں کے لیے اجنبی بن گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے تجربے سے دیکھا ہے کہ جو پالیسیاں بنتی ہیں ان میں ان کمپنیوں کے مفادات محفوظ ہو رہے ہیں۔ ان کی زمینیں جس معاوضے کے عوض خرید کی جارہی ہیں وہ قانون اتنا پرانا ہے کہ جس کا آج کے دور سے کوئی واسطہ نہیں۔ لوگوں کو یہ بھی کوئی نہیں بتا رہا کہ انہیں وہاں روزگار کس طرح سے ملے گا۔ کوئلے نکالنے اور اس کے استعمال سے وہاں کے ماحول کو جو خطرات پیدا ہونگے ان کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے؟ اگر نقل مکانی ہوگی تو انہیں کہاں آباد کیا جائے گا۔اس طرح کے کئی سوالات یں جن کا کوئی بھی جواب دینے والا نہیں ہے۔

تمام منظر حکمرانوں کے سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ پوچھنا چاہیں گے کہ جب سندھ ہائی کورٹ نے بھی تھر کول کی کھدائی روکنے کا حکم دیا ہے تو اس صورت حال میں اس تمام تیاری کا نتیجہ کیا نکلے گا، جس میں کچھ بھی واضح نہیں۔ہم اس خیال کے ہیں کہ یہ معاملہ اٹھتے ہی متنازع اور شفافیت کے حوالے سے مشکوک ہو گیا ہے اس کے بارے میں سب سے پہلے حکومت سندھ یہ بتائے کہ پروجیکٹ سے جو آمدن ہوگی وہ کہاں اور کس طرح خرچ کی جائے گی؟ سندھ کو اس میں سے کیا ملے گا۔مقامی لوگوں کی تعلیم، صحت اور روزگار کے لیے کیا رکھا گیا ہے۔ ۔ اس سے پہلے سندھ سے تیل اور گیس سے جو آمدن ہوئی ہے اس کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں دیا جارہا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ حکمران ان سوالات کے جوابات سچائی کے ساتھ دیں گے۔

’’نقل مکانی کرنے والے قبائل کی دوسری منزل کراچی‘‘ کے عنوان سے روزنامہ ’’کاوش‘‘ اداریے میں لکھتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں انتہا پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کے بعد بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ہوگئی ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق تیرہ ہزار افراد نقل مکانی کرکے خیبر پختوخوا کے شہر بنوں پہنچے ہیں۔ ان لوگوں کی دوسری منزل کیا ہوگی؟ اس کا جواب کراچی کی کچی آبادیوں میں آسانی سے مل جائے گا۔ قبائلی علاقوں میں جب بھی آپریشن ہوا ہے تو متاثرہ افراد نے کچھ عرصے تک خیبر پختونخوا میں آرام کرنے کے بعد کراچی کا رخ کیا ہے۔ شمالی علاقوں میں زلزلہ آئے تو بھی ہرجانہ سندھ کو ادا کرنا ہے۔ اور ہزاروں افراد آکر کراچی میں آباد ہوتے ہیں۔ جس میں دہشت گرد بھی شامل تھے۔یہی صورت حال مالاکنڈ اور سوات میں آپریشن کے وقت سامنے آئی۔

کراچی کی جانب یہ غیر فطری نقل مکانی جاری ہے۔ جس نے صوبائی دارالحکومت کی ڈیموگرافی کو تبدیل کردیا ہے۔ سندھ کے منتخب ایوانوں میں بھی پرانے باشندوں کے بجائے نقل مکانی کرکے آنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ سندھ کے حکمران صرف ’’ ہاؤسز‘‘ تک محدود ہیں۔ ان کی تمام جوڑ توڑ اور مفاہمت اس حد تک ہے کہ کس طرح ان کے اقتدار کے دن بڑھ سکتے ہیں ۔ انکے پاس یہ بھی اعداد شمار نہیں کہ کچی آبادیوں میں باہر سے آنے والے کتنے لوگ ہیں؟ ان کا کام کاج کیا ہے؟ نقل مکانی کرکے آنے والوں سے صوبے کی آبادی پر کتنا دباؤ بڑھ گیا ہے؟کراچی اپنے گرد کئی نو گو ایریاز رکھتی ہے۔ جہاں ریاستی اداروں اور فورسز کی رسائی بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ علاقے دہشت گردوں کی نرسریاں بنی ہوئی ہیں۔ ہر فوجی ایکشن کے بعد وہاں سے فرار ہونے والوں یہاں پہنچنے کے بعد ان نرسریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی ان کچی آبادیوں پر کنٹرول کیا جائے۔ قبائلی علاقوں میں آپریشن کے نتیجے میں سندھ کی جانب آے والوں کی چیک پوسٹوں پر چیکنگ کی جائے۔ اور ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنی چاہے۔ ان افراد کی عارضی رہائش اوردیکھ بھال کے لیے خیبرپختوخوا حکومت کو بھی انتظامات کرنے چاہئیں۔

No comments:

Post a Comment